URDUSKY || NETWORK

شرعی مسائل

143
پیر عثمان افضل قادری
…………………………
سوا ل

ہم نے ایک پلاٹ اپنی بہو کے نام اسکی شادی کے موقع پر کردیا اور اسکے نکاح نامے میں اس کا اندراج بھی کردیا۔ بعد میں وہ زمین بیچ کر ہمارے ایک مکان پر لگادی گئی۔ اب اس مکان کی وراثت کیسے تقسیم ہوگی۔ جبکہ زمین کی قیمت واپس کرنے کا وعدہ اپنی بہو سے کیا گیا تھا۔

جوا ب

جو جائیداد چھوڑی جائے اسے شرعا ’’ترکہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں سے سب سے پہلے میت کی تجہیز وتکفین کا انتظام کیا جاتا ہے۔ پھر اگر ان پر قرض ہو تو وہ ادا کیا جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر وصیت اگر ہو تو وہ تہائی حصہ میں سے پورا کی جاتی ہے۔ اور جو باقی بچے وہ مال وراثت ہے اسے ورثا میں شرعی قاعدے کے مطابق تقسیم کیا جائیگا۔

حوالہ  ’’السراجی فی المیراث‘‘ الحقوق المتعلقۃ بترکۃ المیت اربعۃ، صفحہ نمبر 3، طبع ملتان۔

اب بہو کی زمین واپس کرنا ضروری کیونکہ وہ قرض کے طور پر لی گئی تھی اور پھر بعد ازاں مال وراثت تقسیم ہوگا۔

سوا ل

1۔ پاکستان کے پوش علاقوں میں مشینوں سے ذبح کیا ہوا گوشت دستیاب ہے، جس پر تکبیر بھی نہیں پڑھی جاتی۔ کیا یہ گوشت حلال ہے؟

2۔ کمپنی کا موقف یہ ہے کہ وہ چھری جو جانور ذبح کرنے کیلئے استعمال کی جاتی ہے اس پر تکبیر لکھی ہوتی ہے۔ بتایا جائے کہ کیا چھری پر لکھی ہوئی تکبیر زبان سے کہنے کے برابر ہو جاتی ہے؟

islam3۔ بعض اوقات جانور ذبح کرتے وقت گردن مکمل کٹ جاتی ہے۔ اس کا حکم کیا ہے؟

4۔ جس جانور پر بوقت ذبح تکبیر نہیں پڑھی گئی اس کا گوشت لاعلمی میں کھانے والوں پر مواخذہ ہے یا نہیں؟

5۔ جان بوجھ کر ایسا گوشت مسلمانوں کو کھلانے والوں کے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ ہوگا؟

جوا ب

1۔ اللہ رب العالمین قرآن مجید پارہ نمبر 8سورہ انعام آیت نمبر 121میں فرماتے ہیں

’’ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللّٰہ علیہ وانہ لفسق‘‘

ترجمہ ’’اور نہ کھاؤ اس جانور سے جس پر اللہ کا نام (بوقت ذبح)نہیں لیا گیا اور اسکا کھانا حکم عدولی ہے‘‘

حوالہ  ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 8، سورہ انعام آیت نمبر 121۔

لہذا ایسا جانور جسے ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر تکبیر نہیں پڑھی گئی وہ حرام ہے۔ چنانچہ ’’اصول الشاشی‘‘ میں اس آیت کے تحت صفحہ نمبر 8 پر ہے

’’انہ یوجب حرمۃ متروک التسمےۃ عامدا۔‘‘

ترجمہ ’’جس جانور کو ذبح کرتے وقت جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑی جائے یہ آیت اسکی حرمت کو واجب کرتی ہے۔‘‘

حوالہ  ’’اصول الشاشی‘‘ صفحہ نمبر 8، تحت قولہ تعالیٰ ’’ولا تاکلوا مما۔۔۔‘‘

اور تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عمر، اور حضرت سعید بن مصیب رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے، اور فتاویٰ عالمگیری اور ھدایہ میں ہے

’’ان ترک الذابح التسمےۃ عمدا فالذبیحۃ میتۃ لا یوکل۔‘‘

ترجمہ ’’اگر ذبح کرنے والے نے جان بوجھ کر بسم اللہ نہ پڑھی تو یہ جانور مردار ہوگا اور اسے نہیں کھایا جائیگا‘‘

لہذا درج بالا صورت میں گوشت حلال نہیں ہوگا بلکہ حرام رہے گا۔

لیکن اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ چھوڑ دی تو اسے کھانا جائز ہے۔ چنانچہ تفسیر ابن کثیر میں حضرت علی، حضرت عبد اللہ بن عمر، اور حضرت سعید بن مصیب رضی اللہ عنہم کے حوالہ سے، اور فتاویٰ عالمگیری اور ھدایہ میں ہے

’’وان ترکھا ناسیا اکل۔‘‘

ترجمہ ’’اور اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ چھوڑ دی تو اسے کھانا جائز ہے۔‘‘

اسکی ایک وجہ یہ حدیث پاک ہے جو سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق صفحہ نمبر 659پر ہے

’’ان اللّٰہ وضع عن امتی الخطاء والنسیان وما استکرھوا علیہ۔‘‘

ترجمہ ’’اللہ تعالی نے میری امت سے خطا (کرنا کچھ اور تھا ہو کچھ اور گیا)، نسیان (بھول جانا)اور جس غلطی پر مجبور کردیا جائے (یعنی جان جانے یا عضو کے تلف ہوجانے کا خوف ہو)معاف فرمادی ہیں۔‘‘

حوالہ  ’’سنن ابن ماجہ‘‘ کتاب الطلاق، صفحہ نمبر 659۔

مثال یوں سمجھئے کہ روزہ کے دوران اگر جان بوجھ کر کھا یا پی لیا جائے تو روزہ ختم ہوجاتا ہے اور اگر بھول کر کھایا یا پیا تو روزہ ختم نہیں ہوتا۔

اس طرح ذبح میں بھی اگر جان بوجھ کر بسم اللہ چھوڑی جارہی ہے تو یہ جانور حرام ہوگا اور اگر مسلمان نے بھول کر بسم اللہ نہیں پڑھی تو اسے کھانا جائز ہوگا۔

2۔ کمپنی کا یہ کہنا کہ چھری پر تکبیر لکھی ہوتی ہے اس لئے زبان سے تکبیر نہیں کہی جاتی یہ سرا سر غلط ہے۔ ذبح کرتے وقت زبان سے تکبیر کہنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید پارہ نمبر 17سورہ حج آیت نمبر 36میں ارشاد فرماتے ہیں

’’فاذکروا اسم اللّٰہ علیہا۔‘‘

ترجمہ ’’تو ان پر اللہ کا نام لو۔‘‘

حوالہ  ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 17، سورہ حج، آیت نمبر 36

لہذا ذبح کرتے وقت زبان سے اللہ تعالیٰ کا نام لینا ضروری ہے اور ریکارڈ شدہ تکبیر بھی معتبر نہیں۔

3۔ ذبح کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جانور پر تکبیر کہہ کر حلق اور سینہ کے بالائی حصہ کے درمیان سے چار مخصوص رگوں کو کسی تیز دھار چیز سے کاٹ دیا جائے تاکہ بہنے والا خون نکل جائے۔ لیکن اگر ذبح کرتے وقت پوری گردن کٹ گئی تو یہ اسلام میں مکروہ یعنی ناپسند ہے۔ لیکن ایسے جانور کو کھانا حرام نہیں جبکہ اس پر بوقت ذبح تکبیر پڑھی گئی ہو۔

4۔ ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ آج کے دور میں گوشت خریدتے وقت مکمل تسلی کرے۔ بہرحال اگر لاعلمی میں ایسا گوشت کسی مسلمان کے ہاں یا مسلمان سے لیکر کھالیا جس پر جان بوجھ کر تکبیر نہیں پڑھی گئی تو اس کا تمام گناہ دھوکا دہی اور غلط بیانی کرنے والوں پر ہے۔ دھوکا دہی کا شکار ہونے والوں پر نہیں۔ اللہ فرماتے ہیں

’’یخدعون اللّٰہ والذین امنوا۔۔۔لھم عذاب الیم بما کانوا یکذبون۔‘‘

ترجمہ ’’ وہ اپنے خیال میں دھوکہ دیتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو ۔۔۔ ان کیلئے درد ناک عذاب ہے کیونکہ وہ کذب بیانی کرتے ہیں۔‘‘

حوالہ  ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 2 ، سورہ بقرہ، آیت نمبر 10-9۔

5۔ پانچویں سوال کا جواب اس آیت پاک میں ہے

’’وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْھُدٰی وَےَتَّبِعْ غَےْرَ سَبِےْلِ الْمُؤمِنِےْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلیّٰ وَنُصْلِہٖ جَھَنَّمَ ط وَسَآءَ تْ مَصِےْرًا۔‘‘

ترجمہ ’’اور جو شخص راہ حق واضح ہونے کے بعدرسول اللہﷺ کے طریقے کی مخالفت کرے ، اور طریقۂ مؤمنین کے علاوہ کسی اور راستے کی پیروی کرے، تو ہم اسے پھرنے دیں گے جدھر وہ پھرے۔ اور (آخر کار) اسے جہنم میں ڈال دینگے اور نہایت بُرا ہے وہ ٹھکانا۔‘‘

حوالہ  ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 4 ، سورہ ال عمران، آیت نمبر 107-106۔

سوا ل

کیا عورت کیلئے تعلیم حاصل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک مرد کیلئے؟

جوا ب

1۔’’سنن ابن ماجہ‘‘ 2۔مسند امام اعظم3۔ مجمع الزوائد4۔ جامع الاحادیث والمراسیل 5۔ مسند ابی یعلی 6۔ مشکوٰۃ المصابیح 7۔ مسند الشہاب 8۔ البحر الزخائر 9۔ معجم صغیر 10۔ شعب الایمان 11۔ الفتح الکبیر اور 12۔ کنز العمال میں نبی پاک ﷺ کا ارشاد ہے

’’طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘

ترجمہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔‘‘

حوالہ  ’’سنن ابن ماجہ‘‘ مقدمہ، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، حدیث نمبر 220۔

اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ کہ مرد کیلئے تعلیم زیادہ ضروری ہے بلکہ کل مسلم کا لفظ ارشاد فرماکر مذکر ومؤنث دونوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہذا مرد کیلئے تعلیم یافتہ ہونا جس قدر ضروری ہے، عورت کیلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے۔

اور اگر ہم معاشرہ میں انقلاب کے نقطہ نظر سے غور کریں تو ہمیں عورت کی تعلیم کو اہمیت دینا ہوگی۔ کیونکہ باپ صالح اور تعلیم یافتہ نہ ہو مگر ماں صالح اور تعلیم یافتہ ہو تو اولاد کے بگڑنے کا اندیشہ کم ہے لیکن اگر صورت حال اس کے برعکس ہے تو اولاد کے بگڑنے کا امکان بہت زیادہ قوی ہوجاتا ہے۔ اور اگر مائیں علم کے زیور سے آراستہ ہو جائیں تو وہ آج بھی قوم میں ایک نئی زندگی پھونک سکتی ہیں۔ اور یہ سب پر عیاں ہے کہ جس کھیت کی زمین خراب ہوتی ہے اس کا بیج کبھی اچھا پھل نہیں لاتا۔ جس باغ کی آب وہوا درست نہیں ہوتی اس کے پودے کبھی تناور درخت نہیں ہوتے۔ ان میں کبھی تر وتازگی نہیں پائی جاتی، یا اگر پائی بھی گئی تو بس بقدر رمق۔ ٹھیک یہی حال ماں اور اس کی اولاد کا ہے۔ ماں اگر صالح اور تعلیم یافتہ ہے تو اس کے شکم میں تخلیق کے عناصر سے مرکب ہونے والا وجود اور اس کی گود میں نشو ونما پانے والا بچہ بھی اعلیٰ صلاحیات کا مالک ہوسکتا ہے۔

نوٹ خواتین شرعی حدود کی اندر رہتے ہوئے اور شرعی پردے کا اہتمام کرتے ہوئے تعلیم حاصل کریں!!!

سوا ل

صلح کر لینا اور معاف کردینا ان کے متعلق قرآن مجید سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟

جوا ب

قرآن مجید، پارہ نمبر 4سورہ آل عمران آیت نمبر 134 میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے

’’ والکاظمین الغیظ والعافین عن الناس واللّٰہ یحب المحسنین۔‘‘

ترجمہ ’’اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔‘‘

حوالہ  ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 4سورہ آل عمران آیت نمبر 134

جبکہ قرآن مجید، پارہ نمبر 18 سورہ نور آیت نمبر 22 میں ارشاد ہے

’’ولیعفوا ولیصفحوا الا تحبون ان یغفر اللّٰہ لکم واللّٰہ غفور الرحیم۔‘‘

ترجمہ ’’اور چاہئے کہ معاف کریں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘

حوالہ  ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 18 سورہ نور آیت نمبر 22۔

نیز قرآن مجید، پارہ نمبر 24 سورہ حم السجدہ آیت نمبر 34 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

’’ولا تستوی الحسنۃ والا السےءۃ ادفع بالتی ھی احسن فاذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔‘‘

ترجمہ ’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں اے شخص برائی کا جواب اچھائی سے دے تب تو اور تیرا دشمن ایسا ہوجائے گا جیسا گہرا دوست۔‘‘

حوالہ10 ’’قرآن مجید‘‘ پارہ نمبر 24 سورہ حم السجدہ آیت نمبر 34۔

اسی طرح قرآن مجید، پارہ نمبر 25 سورہ شوریٰ، آیت نمبر 40 میں فرمان خداوندی ہے

’’فمن عفا واصلح فاجرہ علی اللہ انہ لا یحب الظالمین۔‘‘

ترجمہ ’’اور جس نے معاف کیا اور صلح کی تو اس کا اجر اللہ پر ہے بے شک وہ (اللہ) ظالموں کو پسند نہیں فرماتا۔‘‘

اور پارہ نمبر 25 سورہ شوریٰ، آیت 43 میں ہے

’’ولمن صبر وغفر ان ذالک لمن عزم الامور۔‘‘

ترجمہ ’’اور جس نے صبر کیا اور بخش دیا بے شک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘

سوا ل

کیا موئے مبارک کی زیارت کرنا یا کرانا صحابہ سے ثابت ہے؟

جوا ب

اس سلسلہ میں فی الوقت صحیح بخاری کی ایک مرفوع متصل حدیث پاک پیش کی جارہی ہے جسے صرف امام بخاری نے دوسندوں کے ساتھ پیش کیا۔ اس میں آپ کے سوال کا شافی جواب موجود ہے، ملاحظہ کیجئے

’’حدثنا موسیٰ بن اسماعیل حدثنا سلام عن عثمان ابن عبد اللہ بن موھب قال دخلت علی ام سلمۃ فاخرجت الینا شعرا من شعر النبیﷺ مخضوبا۔‘‘

ترجمہ ’’ہمیں بتایا موسیٰ بن اسماعیل نے، (وہ کہتے ہیں) ہمیں بتایا سلام نے وہ عثمان بن عبد اللہ بن موہب سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے ہمارے سامنے نبی ﷺ کے بالوں میں سے ایک بال نکالا خضاب کیا ہوا۔‘‘ (رحمۃ اللہ علیہم ورضی اللہ عنہا)

حوالہ  ’’صحیح بخاری‘‘ کتاب اللباس، باب ما یذکر فی الشیب، حدیث نمبر 5447۔

اور سنن ابن ماجہ میں خضاب کی تشریح میں ہے کہ مہندی کے ساتھ رنگے ہوئے بال کی زیارت کرائی۔

حوالہ ’’سنن ابن ماجہ‘‘ کتاب اللباس، باب الخضاب بالحنا، حدیث نمبر 3613۔

سوا ل

اسلام میں جانوروں کے حقوق مقرر کئے گئے ہیں؟

جواب

اسلام دین فطرت ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہے۔ حقوق وفرائض کا تعین جس قدر اسلام نے کیا ہے دنیا کا کوئی دوسرا مذہب اس کا اہتمام نہیں کر سکا۔ اسلام نے تو جانوروں تک کو ان کے حقوق بھی عطا فرمائے ہیں۔ اسلام نے انسان تو انسان، جانوروں کو اذیت پہنچانے سے بھی سختی کے ساتھ منع کیا اور ان کی بہتری کی طرف راہنمائی کی ہے۔ پاکستان میں خصوصاً محکمہ ’’تحفظ جنگلی حیات‘‘ کا فرض ہے کہ وہ ان تعلیمات کو عام کرنے کے لئے اپنا فرض ادا کرے۔ جانوروں کو لڑانا، جنگلی پرندوں کو بلاوجہ قید کرنا، محض کھیل وتفریح کیلئے شکار کرنا، ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا، ان کے لئے کھانے پینے کا مناسب انتظام نہ کرنا اور ان پر ظلم کرنا سخت گناہ ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں