URDUSKY || NETWORK

رفعت ذکر مصطفیٰ ﷺ مذاہب عالم میں

215

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاء و رُسل دنیا میں مبعوث فرمائے ۔کوئی رسول کسی علاقے کی طرف کوئی ایک قبیلے یا قوم کی طرف ،کوئی رسو ل ایک ملک کی طرف بھیجا گیامگر باعثِ تخلیق کائنات ،سید المرسلین ،خاتم الانبیاء ،امام الانبیاء ،محبوب رب العالمین حضرت سیدنا محمد مصطفیٰﷺ کو تمام مخلوقات کے لئے رسول بنا کر مبعوث فرمایا ۔تمام انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے معجزات عطا فرمائے لیکن میرے اور آپ کے آقا ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے سر سے لیکر پائوں تک معجزہ بنایا     ؎
دیئے معجزے انبیاء کو خدا نے             معجزہ بن کر آیا ہمارا نبی(ﷺ)masjid-a-nabvi
آپ ﷺ کی عظمت و رفعت اللہ تعالیٰ قرآن میں یوں بیان فرماتا ہے ۔
ورفعنالک ذکرک۔’’اور(محبوب ﷺ) ہم نے آپ کی خاطر آپ کے ذکر کو بلند کر دیا۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کا ذکر اس قدر بلند کیا ہے کہ جہاں خدا کا ذکر وہاں مصطفیٰ ﷺ کا ذکر ہے ۔جہاں تک خدا کی خدائی ہے وہاں تک محمد ﷺ کی مصطفائی ہے ۔
تمام انبیاء و رسل بھی اس رفعت وعظمت والے نبی ﷺ کا ذکر و چرچا کرتے رہے ۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے ۔’’ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ان میں سے بعض کو ہم کلامی کا شرف عطا کیا اور بعض کو درجوں بلند کر دیا۔‘‘(القرآن)
حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام ہیں جو اللہ سے ہم کلام ہوتے تھے اور جن کو درجے بلند کر دیا وہ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ ہیں ۔آپ کائنات کی ایسی عظیم و بلند پایہ ہستی ہیں  جنہیں اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے درجوں بلند فرما دیا ۔
اسی لئے اعلیٰ حضرت مولاناشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے ۔
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی        سب سے بالا و اعلیٰ ہمارا نبی
خلق سے اولیاء اولیاء سے رسل        سب رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی
اللہ تعالیٰ ایک مقام پر محبوب کے ذکر کی بلندی کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے :اور اے محبوب آپ کی آنے والی ہر گھڑی پہلے سے زیادہ آپ کی عظمت کا چرچا کرتی ہوئی آئے گی۔(القرآن)
ذکر مصطفیٰﷺ کسی انسان کا محتاج نہیں ۔آپ غور فرمائیں بعض لوگ ذکر مصطفیٰ ﷺ کو گھٹانے کی سرتوڑ کوششیں کر رہے ہیں ۔طرح طرح کے اعتراضات کر رہے ہیں۔ لیکن ذکر مصطفیٰ ﷺ اتنا ہی عشاقان رسالت بلند کر رہے ہیں
ورفعنا لک ذکرک کا ہے سایہ تجھ پر             بول بالا ہے تیرا ذکر ہے اونچا تیرا
رحمت عالم ﷺ کا ذکر خیر ایک لازوال حقیقت ہے تخلیق کائنات سے بھی پہلے جب صرف ارواح کو پیدا کیا گیا اس وقت انبیاء کی مقدس روحوں کے بڑے اجتماع میں یہ ذکر خیر شروع ہوا جس پر قرآن حکیم گواہ ہے ۔ارشاد الہٰی ہوتا ہے ۔’’اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبر وں سے ان کا عہد لیا ۔جب تم کو کتاب و حکمت دوں ،پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول ﷺ کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ، فرمایا کیا تم نے اقرارکر لیا؟اور اس پر میرا بھاری ذمہ ہے ۔ سب نے عرض کی ۔ہم نے اقرار کیا ۔فرمایا تو ایک دوسرے پر گواہ ہوجائو اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔‘‘(ال عمران :81)
تفسیر طبری میں سیدنا حیدر کرار رضی اللہ عنہ کا قول مبارک اسی آیت کے تحت یوں ہے کہ ۔’’آدم علیہ السلام سے لے کر م عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے پیغمبر گزرے ،اللہ نے ہر ایک سے سید عالم ﷺکی نبوت کی تصدیق اور تائید کا پختہ قول و قرار لیا ۔‘‘تفسیر خزائن العرفان نے بھی مولا علی مشکل کشا رضی اللہ عنہ کا یہ تفسیری حاشیہ نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور انکے بعد جس کسی کو نبوت عطا فرمائی ان سے سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نسبت عہد لیا اور ان انبیاء نے اپنی قوموں سے عہد لیا کہ اگر ان کی حیات میں سید عالم ﷺ مبعوث ہوں تو آپ پر ایمان لائیں اور آپﷺ کی نصرت کریں ۔ گویا ثابت ہوا کہ ذکر رسول رحمت ﷺ ہر دور کی ضرورت رہا ہے ۔ قرآن حکیم ہی میں دوسری جگہ ارشاد الہٰی ہے ۔
’’اور یاد کرو جب اللہ نے عہد لیا ان سے جنہیں کتاب عطا ہوئی کہ تم ضرور اسے لوگوں سے بیان کر دینا اور نہ چھپانا۔‘‘ (ال عمران 187)
مشہور مفسر قرآن صدر الافاضل مولاناسید نعیم الدین مراد آبادی نے اس آیت کی تفسیر و تشریح میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے علماء توریت و انجیل پر واجب کیا تھا کہ ان دونوں کتابوں میں سید عالم ﷺ کی نبوت پر دلالت کرنے والے جو دلائل ہیں وہ لوگوں کو خوب اچھی طرح تشریح کر کے سمجھادیں اور ہر گز نہ چھپائیں ‘‘گویا آمد مصطفی ﷺ سے قبل خدا کی ساری مخلوق ان کی آمد کا شدت سے انتظاراور ذکر کر رہی تھی ۔
خدا کی مخلوق منتظر تھی دلوں میں تھا اشتیاق پیدا         ازل سے آنکھیں ترس رہی تھیں وہ کنز مخفی دکھائی دیتا
صرف کتب آسمانی ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب عالم میں ہمارے حضور ﷺ کا ذکر خیر موجود ہے ۔حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام سے متعلق زبور میں یوں ارشاد موجود ہے ۔ ’’میرا محبوب نورانی گندم گوں ،ہزاروں میں سردار ہے ۔اس کا سر ہیرے کا ساچمکدار ہے۔ اس کی زلفیں مسلسل مثل کوے کے کالی ہیں ۔ اس کا چہرا مانند ماہتاب کے ،جواں مانند صنوبر کے ،اس کا گلا نہایت شیریں اور وہ بالکل محمد یعنی تعریف کیا گیا ہے ۔یہ ہے میرا دوست اور میرا محبوب ، اے یرو شلم کے بیٹو۔‘‘( زبور ،غزل الغزلات،باب 15د رس 10تا 16)
سبحان اللہ ! اس ارشاد گرامی پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے  کہ کتنے واضح اور والہانہ انداز میں حضور رسول رحمت ﷺ کے ساتھ محبت کا اظہار کیا گیا ہے ۔
حسینوں میں حسیں ایسے کہ محبوب خدا ٹھہرے        وہ نبیوں میں نبی ایسے کہ فخر الانبیاء ٹھہرے
مشہور غیر مسلم مورٔخ ایڈ ور ڈگین آپ ﷺ کے حسن کا نہایت مختصر جملے میں یو ں تذکرہ کرتاہے :’’آنحضرت ﷺ حسن میں شہرہ آفاق تھے ۔‘‘
حضرت شعیب علیہ السلام نے ان الفاظ میں اپنی قوم کو رحمت عالم ﷺ کی بشارت سنائی ۔’’میں نے دو سو اروں کو دیکھا جن کے نور سے زمین روشن ہو گئی ان میں سے ایک خچر پر سوار تھا اور دوسرا اونٹ پر ۔خچر سوار ماہتاب و آفتاب کے حسن کا مالک تھا اور یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تھے جبکہ شتر سوار (اونٹ والا) آفتاب و ماہتاب کے حسن کو شر مارہا تھا اور یہ حضرت محمد مصطفیﷺ تھے ۔‘‘
تورات اور انجیل میں تورحمت عالم ﷺ کا ذکر خیر متعدد مقامات پر بہت واضح انداز میں موجود ہے اور اس پر قرآن بھی گواہ ہے۔ ارشاد الہٰی ہوتا ہے ۔’’جسے لکھا ہواپائیں گے اپنے پاس تورات اور انجیل میں ،وہ انہیں بھلائی کا حکم دے گا۔‘‘(الاعراف:157)
یعنی جس پیغمبر کو اپنے پاس لکھا ہوا پاتے ہیں اس پیغمبر سے مراد حضور رسول کریم ﷺ کی ذات گرامی ہے ۔حضرت عطا ابن یسار نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سید عالم ﷺ کے وہ اوصاف دریافت کئے جو توریت میں مذکور ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ حضور ﷺ کے جو اوصاف قرآن کریم میں آئے ہیں انہی میں سے بعض اوصاف تورات میں مذکور ہیں ۔اسکے بعد انہوں نے پڑھنا شروع کیا ۔اے نبی ہم نے تمہیں بھیجا شاہد ومبشر اور نذیر اور اُمیوں کا نگہبان بنا کر ،تم میرے بندے اور میرے رسول ہو۔میں نے تمہارا نام متوکل رکھا ۔نہ بد خلق ہو ،نہ سخت مزاج، نہ بازاروں میں آواز بلند کرنے والے ،نہ برائی کو برائی سے دفع کرتے ہو، اللہ تعالیٰ تمہیں نہ اُٹھائے گا ۔جب تک کہ تمہاری بدولت غیر منقسم ملت کو اس طرح راست نہ فرمادے کہ لوگ صدق دل کے ساتھ کلمہ طیبہ پکارنے لگیں اور تمہاری بدولت اندھی آنکھیںبینا اور بہر ے کان شنو ااور پردوں میں لپٹے ہوئے دل کشادہ ہوجائیں ۔اب اس تناظر میں تورات اور انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ایک پادری کے ساتھ یوں گفتگوکرتے نظر آتے ہیں ۔تفسیر ضیاء القرآن میں حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری انجیل برنباس باب 97صفحہ 113کے حوالہ سے رقمطراز ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :
ترجمہ: مسیحا کانام ’’تعریف کیا گیا ‘‘ہے اللہ تعالیٰ نے جب ان کی روح مبارک کو پیدا کیا اور آسمانی آب و تاب میں رکھا تو خودان کا نام رکھا ۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اے محمد ﷺ ! انتظار کرو میں نے تیری خاطر جنت کو پیدا کیا ہے ساری دنیا کو پیدا کیا ہے اور بے شمار مخلوقات کو پیدا کیا ہے جب میں تجھے دنیا میں بھیجوں گا تو تمہیں نجات دہندہ رسول بنا کر بھیجوں گا۔ تیری بات سچی ہوگی ۔آسمان اور زمین فنا ہو سکتے ہیں لیکن تیرا دن کبھی  فنا نہیں ہو سکتا ۔آپ نے کہا کہ ’’محمد ﷺ ‘‘ان کا بابرکت اسم گرامی ہے ۔‘‘
جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ بات مکمل کی تو ان کے تمام سامعین نے فریاد اور زاری شروع کردی اور باربار التجا کرنے لگے ۔
’’اے اللہ ! اپنے رسول ﷺ کو ہماری طرف بھیج ۔ یا رسول اللہ ! دنیا کی نجات کے لئے جلد تشریف لے آئیے ۔‘‘
سبحان اللہ ! وہ عظیم رسول ﷺ کہ جس کی بشارتیں انبیاء اور رسول دینے آئے اور ان کی امتیں اس کے ظہور کی دعائیں کرتی رہیں۔ خداوند قدوس نے محض اپنے فضل و احسان سے ہمیں عطا فرما دیا ۔ انجیل برنباس صفحہ 131کے حوالے سے لکھا ہے کہ:     ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اُٹھائے جانے کے بعد تین روز کے لئے دوبارہ روئے زمین پر تشریف لائے تھے اس موقع پر آپ نے اپنے شاگردوں کو وہی مشن جاری رکھنے کی ہدایت کی جس کے لئے آپ کو بھیجا گیا تھا۔اس جگہ پھر آپ نے فرمایا کہ مجھ پر چوروں کے درمیان مصلوب ہونے کی بدنامی کا جو داغ لگا ہے اس کو حضور ﷺ دھو ڈالیں گے۔‘‘
یوحنا کی انجیل (7:16 )میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ خطاب موجود ہے جو انہوں نے اپنے حواریوں کے ایک خاص اجتماع سے ارشاد فرمایا ۔تاہم میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا ہی تمہارے لئے بہتر ہے ۔اگر میں نہ جائوں تو فار قلیط تمہارے پاس نہ آئے گا ۔ اگر میں جائوں تو میں اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا۔ فار قلیط کے معنی ’’احمد ‘‘ہیں ۔ ابو دائود اور مسلم کی روایت میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔انا محمد وانا احمد وانا حاشر۔’’یعنی میں محمد ہوں ،میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں۔‘‘
قرآن مجید نے ارشاد فرمایا :ومبشر م برسول یأتی من م بعدی اسمہ احمد ۔’’اور ان رسول ﷺ کی بشارت سناتا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے انکا نام ’’احمد‘‘ ہے ۔(الصف:6)
بنے ہیں دو نوں جہاں شاہ دوسرا کے لئے         سجی ہے محفلِ کونین مصطفیٰ کے لئے
کنز الایمان فی ترجمۃ القرآن کے حاشیہ خزائن العرفان میں حضرت صدر الافاضل مولانا محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب صحابہ کرام نجاشی بادشاہ کے پاس گئے تو نجاشی نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفیٰ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں جن کی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بشارت دی اگر اُمور سلطنت کی پابندیاں نہ ہوتیں تو ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کفش برداری کی خدمت بجالاتا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے شاگرد برنباس کو رب کریم کا پیغام سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ :یعنی ’’میرا رسول چاند ہے جو مجھ سے سب کچھ لیتا ہے اور ستارے میرے نبی ہیں جنہوں نے تمہیں میری مرضی کی تبلیغ کی ہے ۔‘‘
حسن یوسف دمِ عیسٰی ید بیضا داری            آنچے خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
یہ ’’خدائی پیغام ‘‘انجیل برنباس کے باب 177صفحہ نمبر251اور 252پر مرقوم ہے یہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت محمد مصطفیﷺ کے متعلق کہتے ہیں کہ :
ترجمہ:۔ ’’اور جب میں نے اسے دیکھا تو میری روح تسکین سے بھر گئی یہ کہہ کر اے محمد ﷺ تیرے ساتھ ہو اور وہ مجھے اس لائق بنائے کہ میں تیری جوتی کا تسمہ کھول سکوں کیونکہ یہ (اعزاز)پاکر میں ایک بڑانبی اور اللہ کا مقرب (قدوس)ہوجائوں گا اور یہ کہنے کے بعد یسوع (حضرت عیسیٰ علیہ السلام )نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ۔علامہ اقبال نے خوب کہا کہ ۔
عالم آب و خاک میں ترے ظہور سے فروغ         ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
ہندوئوں کی مشہور مذہبی کتاب اتھروید کھنڈ20سو کت 127کے منتر3.1میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ :’’اے لوگو! کان کھول کر سن لو محمد ﷺ لوگوں میں مبعوث ہو گا ۔ اس کی بلند حیثیت آسمانوں کو چھولے گی۔‘‘اسی طرح بھگوت پر ان حصہ 12اشلوک 19میں ہے کہ :’’آخری اوتار کی سب سے بڑی صفت یہ ہو گی کہ وہ بدکاری مٹائیں گے ۔ اچھے لوگوں کو نہیں ۔‘‘
اس میں مندجہ ذیل الہٰی صفات ہونگی علم و دانائی ،عالی نسبی، نفس پر قابو یافتہ، حامل وحی طاقتور و بہادر ،کم سخن، صدقہ خیرات کرنے والے اور شکر گزار۔ کلنکی پر ان باب 2اشلوک 7میں ان عظمتوں کے حامل رسول رحمت ﷺ کے متعلق مرقوم ہے کہ :’’آخری اوتار کے چارمدد گارہوں گے جوہر طرح کی حمایت کریں گے اور جنگ میں ان کی مدد کے لئے فرشتے بھی آسمان سے اتریں گے۔‘‘
کتاب بھوش پر ان (حصہ چار) پرتی سر گ بروباب 25صفحہ 597اشلوک8تا 10میں ہے ۔’’اے دیوتائو! شمبھل گرام میں یہ کشب پیدا ہوگا وہ شنوایشیاکے نام سے مشہور ہوگا ۔وشنو کیرتی اس کی چہیتی ہوگی۔‘‘مطلب یہ ہے کہ وہ پیغمبر عرب میں پیدا ہونگے اور رسول اللہ ﷺ کے نام سے مشہور ہونگے انکی چہیتی بیوی کا نام خدیجہ الکبریٰ (ویشوکیرتی) ہوگا۔
تورات باب18آیت18تا20 (مطبوعہ مرزاپور) میں مرقوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا : ’’میںان کے لئے انکے بھائیوں میں تجھ ساایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گااورایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیںوہ میرا نام لیکر کہے گا نہ سنے گاتو میں اس کا حساب اس سے لوں گا۔‘‘قرآن حکیم نے سورۃ والنجم میں ارشاد فرمایا۔وماینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ ۔’’اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے مگر وحی جو انہیں کی جاتی ہے ۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کے رسول برحق ﷺ وہی کہتے ہیں جو انہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہا جاتا ہے ۔ذرا غور کیا جائے تو تورات کی یہ بشارت قرآن حکیم کے عین مطابق نظر آتی ہے ۔مجدد اسلام اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ خوب فرماگئے ؎
وہ زباں جس کو سب کن کی کنجی کہیں         اس کی نافذ حکومت پہ لاکھوں سلام
حضرت یحییٰ علیہ السلام اپنے اعلان نبوت کے وقت یہ اعلان کرتے ہیں کہ میں جنگل بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو۔‘‘(یوحنا 63:1)حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :جب وہ یعنی سچائی کی روح آئے گا تو تم کو سچائی کی راہ دکھائے گا ۔اسلئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا ۔لیکن جو کچھ سنے گا ۔ وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا ۔‘‘ (یوحنا ۔باب16،آیت13)
اس سے پہلے یہاں تک فرماتے ہیں کہ :’’بعد اس کے میں تم سے بہت کلام نہ کروں گا۔ اس لئے کہ اس جہاں کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کی کوئی چیز نہیں ۔‘‘(یوحنا باب 15آیت 30)
مقاتل بن سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے خود زبور شریف میں پڑھا کہ :یاداؤد سیأتی من م بعد ک اسمہ احمد ومحمد ۔’’یعنی اے دائود علیہ السلام عنقریب تیرے بعد آئے گا جسکا نام نامی احمد اور محمد ہے (ﷺ)‘‘
توریت میں ’’بموذماذ‘‘آیا ہے جس کا معنی بھی محمد ﷺ ہے اس کے اعداد بھی اسم محمد ﷺ کی طرح 92ہیں اور عبرانی زبان میں دال کی جگہ ذال پڑھا بولا جاتا ہے ۔اسی طرح انجیل میں حضور علیہ السلام کا اسم پاک ’’انمخمنا‘‘ ذکر کیا گیا ہے اور اس کا معنی سریانی زبان میں ’’محمد ﷺ ‘‘ہی ہے ۔ اسی طرح انجیل ہی میں مختلف مقامات پر حضور اکرم ﷺ کے لئے استعمال ہونے والے دو الفاظ فارقلیط اور بار قلیط کا ترجمہ بھی سریانی زبان میں محمد ﷺ ہی ہے ۔ اسی طرح سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک نے ایک خوبصورت رباعی لکھی ہے جس سے دنیا کی ہر شے میں اسم محمد ﷺ کے جلوے نظر آتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ؎
ہر عدد کو چوگن کرلو ، دو کو اس میں دو بڑھائے                پورے جوڑکو پنج گن کرلو ،بیس سے اس میں بھاگ لگائے
باقی بچے کو نوگن کرلو ، دو کو اس میں دو بڑھائے     گرو نانک یوں کہے تو ہر شے میں محمد کو پائے
’’ہر عدد کے چار گنا کرکے اس میں دو بڑھا دو۔جو جواب اب آئے اس کے پانچ گنا کرکے بیس سے تقسیم کر دو ،باقی جو بچے اس کو نو گنا کرلو اور پھر اس میں دو بڑھا دو۔گرونانک کہتے ہیں کہ اس کا جواب 92ہو گا اور 92اسم محمد (ﷺ) کے اعداد ہیں ۔
اورکیوں نہ ہو؟ حضور ﷺ خود ارشاد فرماتے ہیں :مسلم اور مشکوٰۃ شریف کی حدیث ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے اولاد اسماعیل سے کنانہ کو چن لیا اور قریش کو کنانہ سے چن لیا اور بنو ہاشم کو قریش سے چن لیا اور مجھ کو بنو ہاشم سے چن لیا ۔(سبحان اللہ )
ہندو،سکھ اور عیسائی شعرأنے حضور نبی رحمت ﷺ کے حضور گلہائے نعت بھی پیش کئے ہیں ۔
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کا خوبصورت شعر ہے کہ ؎
عشق ہو جائے کسی سے ، کوئی چارہ تو نہیں        صرف مسلم کا محمد ؐپہ اجارہ تو نہیں
اور جس کو رحمت دوجہاں سے سچی محبت ہوجائے پھر وہ چوہدری دلورام کوثری نہیں رہتے  بلکہ چوہدری کوثر علی کوثری بن جایا کرتے ہیں ایمان ان کے سینے میں گھر کرجایا کرتاہے اور وہ حضور ﷺ کے وفادار امتی اور سچے عاشق بن جاتے ہیں ۔
لہٰذا! اے محبت نبوی ﷺ کے دعویدار،اگر تو آپ ﷺکی محبت میں سچا ہوتا تو ضرور آپ کی فرمانبرداری اور اطاعت کرتاکیونکہ محبت کا خاصہ ہے کہ محب اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوا کرتا ہے ۔آئیے مل کر دعا کریں کہ اے رب مصطفیٰ ﷺ !ہمیں حضور ﷺ کی پکی سچی محبت ، غلامی اور اطاعت کی دولت عطا فرما۔ رہا ذکر مصطفی ﷺ تو یہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ ذکرِ رسول ﷺ کرنے والا سعادت مندی کی نعمت سے سرفراز ہوگا اور اس کا مقدر دنیا و آخرت میں جگمگا تا رہے گا۔اس دعائیہ شعر پر اختتام کرتا ہوں کہ    ؎
ذکرِ خدا کرے ذکر مصطفیٰ نہ کرے        ہمارے منہ میں ہو ایسی زباں خدا نہ کرے

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاںنارووال