URDUSKY || NETWORK

چھوٹے قرضوں پر تنقید کا جواب، رپورٹ2011ء

157
 

بنگہ دیش میں گرامین بینک کے نام سے ایک مالیاتی ادارہ قائم کرنے والے محمد یونس کو مائیکرو کریڈٹ یعنی چھوٹے قرضوں کے منصوبوں کا بانی کہا جاتا ہے۔ آج کل یہ منصوبے مختلف طرح کے تناز عات کی زَد میں ہیں۔

 

2006ء میں نوبل امن انعام حاصل کرنے والے محمد یونس سات مارچ کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ایک شاندار تقریب میں 2011ء کی سالانہ رپورٹ پیش کریں گے، جس میں چھوٹے قرضوں کے منصوبوں پر ہونے والے اعتراضات کا بھی ذکر کیا جائے گا اور اِن اعتراضات کا جواب بھی دیا جائے گا۔

خود محمد یونس بھی دُنیا بھر کے ماہرینِ اقتصادیات، علمی حلقوں اور نچلی سطح کے منتظمین کی تنقید کا ہدف بن رہے ہیں۔ کچھ لوگ اُنہیں غربت دور کرنے والا ایک سپر مین خیال کرتے ہیں توکچھ دوسرے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غریبوں کا استحصال کر رہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں چھوٹے قرضوں کی مدد سے چلنے والا ملبوسات کی تیاری کا ایک منصوبہ

کریڈٹ سوئس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے 2010ء میں گلوبل ویلتھ رپورٹ جاری کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ برس اندازاً 24.5 ملین افراد اُن امیر لوگوں کی فہرست میں شامل ہوئے، جو ڈالروں میں کروڑ پتی ہیں۔ یہ تعداد دُنیا کی مجموعی آبادی کا 0.5 فیصد بنتی ہے۔

دوسری جانب 2010ء ہی میں اقوام متحدہ کے خوراک اور زراعت کے پروگرام کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ دُنیا بھر میں 925 ملین انسانوں کی روزانہ آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے اور یہ لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

بھارت میں خاص طور پر دیہی علاقوں میں غربت بہت زیادہ ہے اور چھوٹے قرضے فراہم کرنے والے بے شمار ادارے اِس ملک کے ہزاروں دیہات میں سرایت کر چکے ہیں۔ اب تک ایک لاکھ مقروض کسان، جنہیں اپنے قرضے واپس کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی، مایوس ہو کر خود کُشی کر چکے ہیں۔

امریکی صدر باراک اوباما 2009ء میں بنگلہ دیشی بینکار ڈاکٹر محمو یونس کو ’میڈل آف فریڈم‘ دے رہے ہیں

مائیکرو کریڈٹ یعنی چھوٹے قرضوں کے موضوع پر اپنی نوعیت کا پہلا سربراہ اجلاس واشنگٹن ہی میں 1997ء میں منعقد ہوا تھا، جس میں 137 ممالک کے تقریباً تین ہزار مندوبین نے شرکت کی تھی۔ اِسی اجلاس کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے 2005ء کو مائیکرو کریڈٹ کا سال قرار دیا تھا۔

مائیکرو کریڈٹ سمٹ کیمپین کے ڈائریکٹر سَیم ڈیلی ہیرس پُر امید ہیں کہ چھوٹے قرضے کرڑوں لوگوں کو غربت کی دلدل سے باہر نکال سکتے ہیں تاہم بہت سے حلقے اب مزید قرضوں کے اِن منصوبوں سے مطمئن نہیں ہیں کیونکہ جہاں ایک طرف غربت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، وہیں بینکوں کے منافع کی شرحیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔ یونیورسٹی آف میسا چوسٹس کے پولیٹیکل اکانومی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے معاون ڈائریکٹر رابرٹ پولن کہتے ہیں کہ چھوٹے قرضوں کی کامیاب ترین اسکیمیں بنگلہ دیش اور بولیویا میں ہیں جبکہ دونوں کا شمار ابھی بھی دُنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔