URDUSKY || NETWORK

منزل

143

منزل

تحریر : بابر سلیم بھٹی نایاب
دادا ابو آج میں بھی آ پ کے ساتھ ہماری زمینوں (رقبہ) پر جاؤں گا ننھے سلطان نے اپنے دادا نواز حسین سے کہا ،نواز حسین نے شفقت سے اپنے ننھے سے پوتے سلطان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ،پتر تو ابھی بہت چھوٹا ہے اور ہماری زمینیں بہت دور ہیں تو تھک جائے گا ،نہیں میں نہیں تھکوں گا میں لازمی جاؤں گا۔وہ شرفو روز اپنے ابا کے ساتھ زمینوں پر جاتا ہے اور میرے ابا ہوتے تو وہ بھی لے جاتے مجھے ، سلطان کی یہ بات نے نواز حسین کے دل پر جیسے چھریاں چلا دیں ہوں نہ پتر آیندہ کبھی ایسا مت کہنا تیرا دادا تجھ سے بہت پیا ر کرتا ہے وہ شرفو تو( لٹ) آوارہ ہے پرتو بڑا اچھا بچہ ہے نا چل آجا تو بھی چلتا رہ میرے ساتھ ۔گاؤں کی کچی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے نواز حسین اپنے پوتے کے ساتھ اپنی آبائی زمینوں کی طرف چل پڑا۔گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے کھیل رہے تھے سلطان کا بڑا دل چاہتا تھا وہ بھی ان بچوں کے ساتھ کھیلے مگر اُس کا دادا اُسے نہیں کھیلنے دیتا تھا ۔کھیلنے کے لیے اُس کے دادا نے شہر سے بڑے اچھے اچھے کھلونے لا کر دیے تھے جو گاؤں کے کسی بچے کے پاس بھی نہیں تھے ۔اب گلیاں ختم ہو گئی تھیں اور کچی سڑک شروع ہو گئی تھی اور اس کچی سڑک کے آ س پاس ہرے بھرے لہلہاتے کھیت نظر ا ٓ رہے تھے ۔سلطان بڑی محویت کے ساتھ ان کھیتوں کو دیکھے جا رہا تھا اور ان کھیتوں میں کام کرتے کسانوں اور اُن کی بیویوں کو بھی جو گرمی سردی جانے بغیر ڈٹ کر اپنی محنت کر رہے تھے۔
اس دھرتی کا سینہ چیر کر کسان فصل اُگاتا ہے اور اس فصل کے لیے اُسے کتنی محنت کرنا پڑتی ہے ،اناج کے ہر دانے میں کسان کا صرف پسینہ ہی شامل نہیں ہوتا بلکہ اُس کا خون شامل ہوتا ہے ، یہ نوالہ کھانے والا نہیں جانتا، سلطان کے دادا کے ایک ہاتھ میں مکئی کی روٹی تھی اور ساگ بھی ساتھ تھا جو اس لیے ساتھ میں لیا تھا کہ اگر سلطان کو بھوک لگ گئی تو کھانا کھلا دے گا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے پوتے کا ننھا ہاتھ تھاما ہوا تھا ،راستے میں چودھری فلک شیر اپنے منشی بشیر کے ساتھ اپنے کھیتوں میں کلف کی طرح اکڑ کر کھڑا ہوا تھا ،سلام چودھری صاحب ،نواز حسین نے سر پر ہاتھ رکھ کر بڑے ادب سے چودھری کو سلام کیا ۔وعلیکم السلام ہاں نواز حسین کیا حال ہے اور کیا سوچا ہے تو نے اپنی زمینوں کا ،چودھری نے نواز حسین سے پوچھا۔چودھری صاحب یہ زمینیں ہماری زندگی کی کل جمع پونجی ہیں ہم انھیں نہیں بیچ سکتے بس اﷲ خیر سُکھ رکھے یہ زمین ایسے ہی اچھی فصل دیتی رہے اور ہمیں کچھ نہیں چاہیے ،نواز حسین نے جواب دیا ۔ٹھیک ہے تیری مرضی ہے ورنہ جتنی قیمت میں نے لگائی ہے اُتنی کوئی اور نہیں لگا سکتا ۔نواز حسین چپ چاپ اپنے پوتے کے ساتھ آگے کی طرف بڑھ گیا ۔بس جب میرا داﺅ لگ گیا نا تو تجھ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑے گئی چودھری نے اپنی گھنی مونچھوں کو مروڑ تے ہوئے خود میں بڑبڑاتے ہوئے کہا ۔
دادا ابو آپ نے یہ چودھری کو جھک کر سلام کیوں کیا تھا سلطان نے بڑی معصومیت کے ساتھ اپنے دادا سے پوچھا ،نواز حسین اپنے پوتے کے سوال کو سن کر دنگ رہ گیا ،پتر اس لیے اُ سے جھک کر سلام کیا کیونکہ وہ گاؤں کا بڑا ہے ،نواز حسین نے جواب دیا ۔پر دادا ابو وہ تو آپ سے عمر میں بہت چھوٹا تھا اُس کا تو کوئی بھی بال سفید نہیں اور آپ کے سارے بال سفید ہیں ،ننھے سلطان کا یہ سوال سن کر نوازحسین لاجواب ہو گیا اس کا کو ئی بھی جواب نواز حسین کے پاس نہیں تھا ۔بس بس زیادہ باتیں نہ کر وہ دیکھ ہمارے کھیت آ گئے ۔نواز حسین نے اپنے پوتے کی توجہ کھیتوں کی طرف مبذول کروائی ابھی نواز حسین کی فصل پک رہی تھی ،سلطان بھاگتا ہوا کھیتوں میں گُھس گیا ۔نواز حسین کھیتوں کے پاس بیٹھ گیا اور سلطان کو کھیتوں میں خوشی خوشی اُچھل کود کرتے دیکھنے لگا۔
نواز حسین کا یہ ایک ہی پوتا تھا اور نواز حسین کی جان اپنے پوتے میں پوشیدہ تھی ،نواز حسین کی دو بیٹے تھے ایک بیٹا جو سلطان کا ابا تھا ایک ایکسیڈنٹ میں میں جاں بحق ہو گیا تھا اور دوسرا بیٹا شہر میں سرکاری ملازم تھا ۔بس جوان بیٹے کی موت نے نواز حسین کو بہت دل برداشتہ کر دیا تھا اگر جینے کی اُمنگ پیدا ہوئی تھی تو اسی ننھے پوتے کی وجہ سے اور سلطان کی اماں شمع کی تو زندگی ہی اُجڑ گئی تھی مگر وقت بہت بڑے بڑے زخموں کو مندمل کر دیتا ہے شمع کے بھی زخم مندمل ہو گئے تھے مگر سلطان کے ابا کے ساتھ گزرے ہوئے دنوں کو یاد کر کے کبھی کبھی تنہائی میں روتی رہتی تھی ۔نواز حسین کی بس زندگی کی آخری خواہش یہی تھی کہ سلطان پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائے اسی وجہ سے نواز حسین اپنے پوتے کو اچھا ماحول دینا چاہتا تھا ۔سلطان ابھی چھوٹا تھا مگر نواز حسین اُسے ایسی باتیں سمجھایا کرتا تھا جو کہ سلطان کے ننھے منے دماغ میں نہیں سماتی تھی مگر نواز حسین کا تجربہ تھا کہ ایک دن یہ سبھی باتیں سلطان اپنی زندگی میں عمل کے انداز میں لائے گا ،نواز حسین سلطان کو بتایا کرتا تھا کہ پتر میں نے پاکستان بنتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے تیرے جیسے کئی ماؤں کے لال کو میں نے ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں کٹتے ہوئے دیکھے ہیں یہ پاکستان ایسے نہیں بن گیا اس کے لیے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں اور جب نواز حسین قائداعظم کے بارے میں بات کرتا تو سلطان اپنے دادا کے لہجے میں ایک عجیب سی سرشاری محسوس کرتا عقیدت اور فرط جذبات سے سلطان کے داد ا کی آنکھیں بھیگ جاتی اور کہتا پتر وہ انسان نہیں فرشتہ تھا اُس کا لباس تو فرنگیوں جیسا تھا پر اس کا دل ہم مسلمانوں کے لیے دھڑکتا تھا میں پانچویں جماعت میں تھا جب میں نے قائداعظم کو پہلی دفعہ دیکھا تھا اُس کے لہجے میں بلا کا اعتماد ہوتا تھا و ہ بات کرتا تو لگتا جیسے اُس کا لفظ لفظ سچائی سے بھرپور تھا پھر نواز حسین کچھ پل کے لیے ٹھہر جاتا اوراُس کی بوڑھی آنکھوں میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہو جاتا اور چہرے پر تجربات کی آگ میں جھلسی ہوئی لاتعداد جھریوں میں مزید اضافہ ہو جاتا اور پھر کہتا پتر اُس نے پاکستان لڑے جھگڑے بغیر اپنے علم اور قانون کے ذریعے حاصل کیا ۔
سلطان اپنے دادا کی باتیں بہت غور سے سنتا رہتا اور چھوٹی سی عمر میں سلطان اپنی عمر سے بڑی بڑی باتیں کرنے لگا اور نواز حسین نے سلطان کو پڑھنے اُس کے چاچا کے پاس شہر بھیج دیا اور جاتے ہوئے کہا پتر جب واپس آنا تو کچھ بن کر آنا اور یاد رکھنا منزل قریب ہو جائے تو میرے بلاوے پر بھی مت آنا میں تجھے تیری منزل پر دیکھنا چاہتا ہوں اوریاد درکھنا شہر کی رنگینیوں میں مت کھو جانا ،وہاں زندگی دوڑ رہی ہے ہر کوئی بھاگ رہا ہے یہاں اپنے( پینڈ ) گاؤں میں کوئی بیمار ہو جائے تو اسے پورا گاؤں پوچھنے والا ہوتا ہے وہاں کسی کو اپنے ہمسائیوں کا بھی نہیں پتا پتراور میں اپنے سوہنے رب سے تیری کامیابی کے لیے دعا کرتا رہوں گا
سلطان کو لگتا کون کہتا ہے اس کا دادا اپنے دور کی پانچ جماعتیں پاس ہے ،وقت ٹھہرتا نہیں اور وقت اپنی رفتار سے تیز موجوں کی طرح بہتا گیا اور سلطان اپنی زندگی کی اور جوانی کی خواہشوں کو کتابوں میں گھول کر پڑھتا گیا ۔نواز حسین اپنے پوتے کو خط لکھتا رہتا اور ہر خط میں اُسے پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بننے کی نصیحت کرتا رہتا اور پھر ایک دن ایسا آیا جب سلطان کو اُس کی منزل قریب نظر آئی آج سلطان کا سی ایس ایس کے مقابلے کا امتحان تھا اور سلطان گھر سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ اچانک اُس کا چاچا تیز بھاگتا ہواآیا اور اُس کا سانس پھولا ہوا تھا اور بہت بدحواس نظر آ رہا تھا چاچا کیا ہوا خیریت تو ہے نا سلطان نے اپنے چاچا سے پوچھا ، پتر ابھی ابھی فون پر تیری ماں نے بتایا ہے کہ تیرا دادا اس دنیا میں نہیں رہا ،یہ کہتے ہوئے سلطان کا چاچا سلطان کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ،سلطان کو لگا جیسے اُس کی جان نکل گئی ہو سلطان دھاڑیں مار مارکر رونے لگا یہ کیسے ہو گیا میں کیسے رہ پاؤں گا اُن کے بغیر ،سلطان سسک سسک کر یہ کہے جا رہا تھا ،سلطان کی دنیا اندھیر ہو گئی تھی جس کی اُنگلی پکڑ کر چلنا سیکھا جس کی رہنمائی سلطان کو روشنی کی سمت لائی آ ج وہ روشنی زندگی سے اُکتا کر خاموش دنیا میں چلی گئی ،جانا تو سبھی کو ہے مگر سلطان تو اپنے دادا کو کچھ بن کر دکھانا چاہتا تھا اتنا بھی انتظار سلطان کا دادا نہ کر سکا ،سلطان اپنے دادا کا آخری دیدار کرنا چاہتا تھا مگر آج اُس کا امتحان بھی تھا جس کے لیے وہ شب و روز محنت کرتا رہا ،چاچا اپنے ساتھ سلطان کو لے جانے لگا مگر سلطان نے اپنے چاچا کو کہا ،چاچا تجھے اکیلا ہی گاؤں جانا پڑے گا مجھے دادا ابو نے کہا تھا کہ جب منزل قریب ہو تو میرے بلاوے پر بھی مت آنا بس میری طرف سے اُن کی پیشانی پر بوسہ دے دینا ،یہ کہہ کر اور اپنے اندر جذبات کا سمندر چھپا کر سلطان امتحان دینے چلا گیا
پھر جب رزلٹ آیا تو سلطان نے مقابلے کے امتحان میں امتیازی پوزیشن حاصل کی،سلطان کو منزل تو مل گئی مگر منزل پر لے جانے والا بیچ راہ میں چھوڑ گیا ،اب اے ایس پی سلطان اپنے گاؤں کو لوٹ رہا تھا ،سلطان کے دلوں و دماغ پر اپنے دادا کے ساتھ گزرے ہوئے مسحور کن لمحات گھوم رہے تھے جب سلطان کی پولیس جیپ گاؤں میں داخل ہوئی تو گاؤں میں کھلبلی مچ گئی ہر کوئی سلطان کی طرف اشارہ کر کے کہ رہا تھا وہ دیکھو نواز حسین کا پوتا جا رہا ،پورے گاؤں میں سلطان کی بلے بلے ہو گئی ،علاقے کا تھانیدار جسے گاؤں والے زمین کا خدا سمجھتے تھے وہ سلطان کے پیچھے باڈی گارڈ کی طرح چل رہا تھا ،جب سلطان اپنے گھر داخل ہونے لگا تو شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ کاش اس کا دادا استقبال کرتا تو کیا بات تھی ایک آہ سلطان کے سینے سے نکلی اور پھر سلطان کی اماں شمع نے اپنے کلیجے کو سینے سے لگایا اور سلطان اپنی اماں کا لمس محسوس کر کے دیوانہ وار رونے لگا اور کہنے لگا ،اماں دادا کو تو نے روکا کیوں نہیں کچھ دن کے لیے تو روک لیتی ،پتر صبر کر سلطان کی اماں نے سلطان کو دلاسا دیا اور کہا ،تو نے اپنے دادا کی لاج رکھی آج تو اس کے خوابوں کی تعبیر بن گیا ہے یہی ان کے روح کے لیے سکون ہو گا اگر تو روئے گا تو ان کی روح کو دکھ ہو گا ،سلطان نے بمشکل اپنے آنسوؤں کو ضبط کیا ،دور دور سے رشتہ دار اور برادری والے سلطان کے گھر ا ٓ رہے تھے کیسا سماں تھا کہ سلطان کے اتنا بڑا افسر بن جانے کی خوشی بھی تھی اور سلطان کے دادا کی وفات کا دکھ بھی تھا ۔علاقے کا ایم این اے اور چودھری فلک شیر خود چل کر سلطان کے گھر مبارک باد دینے آئے تھے ،ایم این اے نے جاتے ہوئے سلطان کو کہا مجھے خدمت کا موقعہ ضرور دیجئے گا تو سلطان نے کہا ،بس آپ اتنی مہربانی کر دیں یہاں سکول بنوا دیں وہ میری خدمت سے بڑھ کر گاؤں والوں کی خدمت ہو گئی ۔ایم این اے نے سلطان سے وعدہ کیا وہ ضرور سکول بنوائے گا ،چودھری فلک شیر نے آتے ہی سلطان کو جھک کر سلام کیا اور کہا ،پتر مبارک ہو تیرا دادا ہوتا تو کتنا خوش ہوتا ،سلطان کے ذ ہن میں فورا ماضی کی وہ فلم چلنے لگی جب سلطان کا دادا اس چودھری کو جھک کر سلام کرتا تھا آج وہی چودھری نواز حسین کے پوتے کو جھک کر سلام کر رہا تھا ،قدرت اپنے مکافات عمل ضرور دکھاتی ہے اُن کے لیے جو سمجھ رکھتے ہوں ۔سلطان نے چودھری کو کہا،چاچا خدارا مجھے جھک کر سلام مت کرو میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں اور میری تعلیم و تربیت اور میر ا مذہب مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میرے بڑے میرے آگے جھکیں ۔چودھری کے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات پھیل گئے ۔ تعلیم ا نسان کو کتنا نکھار دیتی ہے،سچ ہے جو چیز علم سے جیتی جا سکتی ہے وہ طاقت سے نہیں ۔
علم کتنا اُجالا پھیلا دیتا ہے یہ آج سب گاؤں والوں کو پتا چل گیا تھا گاؤں کا ہر باسی ہر مکین سلطان کے دادا کی تعریف کرتے نظر آتے اور یہ کہتے نظر آتے کہ نواز حسین ہم سب پر بازی لے گیا ہم نے اپنے وارثوں کو زمینوں کے لیے لڑنا جھگڑنا سکھایا ہے مگر اُس نے علم سیکھنا سکھایا، سلطان ان سب لوگوں سے فارغ ہو کر اپنے دادا کی قبر پر چل پڑا ،داد ا کی قبر پر بھینی بھینی اگر بتیوں کی خشبو ا ٓ رہی تھی ،سلطان نے دعا کے لیے ہا تھ اُٹھائے تو نا جانے کتنے آنسو سلطان کے گالوں پر لڑکھنے لگے اور ہاتھوں میں قطروں کی طرح گرنے لگے ،شدت جذبات سے آواز بھرا گئی کتنا ہی وقت ایسے گزر گیا کہ شام ڈھلنے لگی اور تاریکیوں کے سائے شام کو اپنے دامن میں چھپانے لگے پھر سلطان جانے لگا تو سلطان کو اپنے دادا کی بوڑھی سانسیں اپنے بالکل قریب محسوس ہونے لگی اور سلطان کو ایسا لگا کہ جیسے سلطان کے دادا ابو نے سلطان کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہوا اور کہا ہو کہ پتر جسم ضرور دفن ہو جاتا ہے مگر کسی کا خوبصورت احساس کبھی دفن نہیں ہوتا اور سلطان کو یقین ہو گیا کہ احساس کبھی دفن نہیں ہوتا احساس تو ہمیشہ زندہ رہتا ہے