URDUSKY || NETWORK

دنیا کی پہلی عالمی انسداد بدعنوانی اکیڈمی کا منصوبہ

140

UNO

بڑھتی ہوئی کرپشن پوری دنیا کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے اور اسی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اقوام ِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے دنیا کی پہلی ‘بین الاقوامی اکیڈمی برائے انسداد بدعنوانی’ کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ اکیڈمی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کے قریب بنائی جائے گی اور اس میں کرپشن کے خلاف تربیت، تعلیم اور ریسرچ کی سہولیات موجود ہونگی۔ یہ اکیڈمی دنیا کے بہترین ‘کرپشن فائٹرز’ تیار کرنے میں مدد دے گی۔
اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ بد عنوانی دنیا بھر میں ترقی، سلامتی اور انتخابات کے عمل میں رکاوٹ اور ان عوامل پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور اس کی وجہ سے مشکلات میں گھرے لوگوں پر ان عوامل کا مزید برا اثر پڑتا ہے۔’ بین الاقومی انسدادِ بدعنوانی اکیڈمی ‘ کو اقوامِ متحدہ کے جرائم اور منشیات کے پھیلاؤ پر نظر رکھنے والے ادارے، آسٹریا کی حکومت اور یورپی محمکہ برائے انسدادِ دھوکہ دہی کا بھی تعاون حاصل ہے۔
اس اکیڈمی کے طالب علموں میں دنیا کےمختلف ممالک کے جج، تفتیشی افسران اور پولیس کے محکمے سے تعلق رکھنے والے دیگر اہلکار شامل ہونگے۔ اس کے علاوہ دنیا کے معیشت،سیاست اور مالیاتی اداروں متعلق افراد جو جرائم اور دھوکہ دہی کی وجوہات اور اس سے بچاؤ کے طریقے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں، ان کی کوششوں کو بھی اس اکیڈمی سے منسلک کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
اس ادارے کے سربراہ مارٹن کریوٹنر کرپشن سے پاک ایک نئی نسل کی امید رکھتے ہیں۔ اس بارے میں ان کا کہنا ہے: ‘یہ اکیڈمی ‘سپر مین’ بنانے کا کوئی دعویٰ نہیں کر رہی بلکہ یہ ان دو گروہوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کی کوشش کرے گی جن میں سے ایک بدعنوانی کے خلاف سرگرم عمل ہے جبکہ دوسرا وہ جو اس سے نمٹنے کے طریقےکار تلاش کرنے میں مصروف ہے۔”
عالمی بینک کے تخمینوں کے مطابق کرپشن کی وجہ سے دنیا کی معشیت کو دو ہزار بلین امریکی ڈالر سالانہ نقصان پہنچتا ہے۔ ‘بین الاقوامی انسدادِ بدعنوانی کیڈمی’ کا قیام دریا میں قطرے کے برابر ہوگا مگر اس کو عالمی سطح پر اہم سیاسی حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔
واشنگٹن نے اس اکیڈمی کے قیام کا خیرمقدم کیا ہے۔ یورپ کی انسدادِ دھوکہ دہی کے محکمے کے سربراہ وولف گانگ ہٹسر کا کہنا ہے کہ بات صرف پیسوں یا رشوت کی نہیں ہے بلکہ بدعنوانی کے معاشرے پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: "لوگ اب اس امر پر یقین نہیں رکھتے،کہ دنیا میں مساوات نام کی کوئی چیز پائی جاتی ہے، یا قانون سب کے لئے برابر ہے۔ مساوات کی عدم موجودگی یا اداروں کے غیر مؤثر ہونے کی وجہ سے ان میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ انتخابات میں ووٹ ڈالنےکا کوئی فائدہ نہیں ہے۔”
انسدادِ بدعنوانی کی بین الاقوامی اکیڈمی کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خلاف نظریہ کُلیت کا استعمال کریں گے، یعنی ایسے نوجوانوں کو تعلیم اور تربیت دی جائے گی جو نظریات اور عملیت دونوں کے تحت کام کریں۔یعنی ایسے اہلکار جو بدعنوانی کو پہچان سکیں چاہے وہ کتنے ہی پردوں میں کیوں نہ ہو۔
ہٹسر نے مزید کہا: "لوگوں کا عام خیال یہ ہوتا ہے کہ غیرمہذب ، سخت کلامی کرنے یاپھر طاقت کا استعمال کرنے والے لوگ ہی جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، مگرضروری نہیں ہے کہ صرف ایسے ہی لوگ جرائم پیشہ ہوں۔”
اب تک 35 ممالک نے اس اکیڈمی کے بنیادی دستاویز پر دستخط کئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ممالک ہیں جن میں کرپشن کا ریکارڈ صحیح سے ترتیب نہیں دیا گیا۔ اکیڈمی میں سیمیناروں اور تعلیمی سلسلے باقاعدہ آغازاگلے سال سے ہونے کی امید ہے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو