URDUSKY || NETWORK

گوگل کی نئی سہولت ’پلس ون‘

124
گوگل کی نئی سہولت ’پلس ون‘  

گوگل اپنے صارفیں کے لیے ایک نیا فیچر متعارف کروا رہا ہے، جس کا نام ’پلس ون‘ رکھا گیا ہے۔ گوگل کی اس نئی سروس کا مقصد انٹرنیٹ دنیا کی بے تاج بادشاہ سوشل ویب سائٹ فیس بک کو مات دینا ہوسکتا ہے۔

 

دنیا کے نمبر ایک سرچ انجن گوگل پر جب کوئی صارف اپنی مطلوبہ معلومات تلاش کرے گا تو سرچ رزلٹ کے ساتھ اب ایک نیا بٹن دکھائی دیا کرے گا، جس کا نام ’+1‘ رکھا گیا ہے۔ اس نئی سہولت کی بدولت اب گوگل صارفین کسی بھی ویب سائٹ کی ریٹنگ پر  اثر انداز بھی ہو سکتے ہیں۔

اس نئے فیچر کا مقصد نہ صرف حریف ویب سائٹ فیس بک کو مات دینا ہے بلکہ گوگل صارفین کے لیے یہ سہولت پیدا کرنا بھی ہے کہ وہ جان سکیں کہ کونسی ویب سائٹ کس قدر فائدہ مند ہے اور لوگ اسے کس قدر پسند کرتے ہیں۔  فیس بک کے اس وقت پانچ سو ملین صارفین ہیں

اس نئے فیچر کی مدد سے گوگل صارفین مخصوص نتائج سے اپنے دوستوں کو بھی فوری طور آگاہ کر سکیں گے۔ تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس فیچر کی مدد سے گوگل ویب سائٹ رینکنگ پر بھی اثر پڑے گا۔ اس فیچر کی مدد سے گوگل سرچ انجن میں وہی ویب سائٹس ٹاپ پر آنے میں کامیاب ہو سکیں گی، جن کی شہرت اچھی ہوگی اور صارفین نے ان کے حق میں ووٹ دیا ہو گا۔ ابھی تک گوگل سرچ انجن میں ویب سائٹس کی درجہ بندی ایک مخصوص طریقے سے کی جاتی ہے۔اس سے پہلے دنیا کے مشہور امریکی انٹرنیٹ کمپنی گوگل نے اپنے اکاؤنٹس کے حامل افراد کے لیے ایک نیا سوشل نیٹ ورکنگ ٹول ’بز‘ بھی متعارف کروایا تھا۔  ’بز‘ نامی اس سروس کا مقصد فیس بک اور ٹوئیٹر اور دیگر نیٹ ورکنگ سائٹس کی طرز پر صارفین کو معلومات کے فوری تبادلے کی سہولت فراہم کرنا تھا۔

انٹر نیٹ دنیا کی دنیا کی دو معروف ترین سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس فیس بک اور ٹوئیٹر بھی صارفین کو اپنی طرف مائل کرنے کی بھر پور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ 2004ء میں شروع ہونے والی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک کے اس وقت پانچ سو ملین صارفین ہیں۔ گوگل کی حالیہ سروس کو اس کمپنی کے حریفوں کی مقبولیت میں تیزی سے اضافے کے بعد گوگل کی جانب سے اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

معلومات کے دروازے کے طور پر مشہور گوگل انجن کو گزشتہ برس 29 بلین ڈالر کی آمدنی حاصل ہوئی تھی۔ اس آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ اشتہارات تھے۔ اب ایڈورٹائزمنٹ کمپنیوں کی ایک بڑی تعداد فیس بک کا رخ کررہی ہے، جس سے گوگل سرچ انجن کی آمدنی میں کمی کا خدشہ ہے۔

 

بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی۔