URDUSKY || NETWORK

خلائی اسٹیشن کی جانب قدم، چین کا آزمائشی ماڈیول روانہ

151

خلائی اسٹیشن کی جانب قدم، چین کا آزمائشی ماڈیول روانہ جمعرات کو چین نے خلا بازوں کے بغیر ایک آزمائشی ماڈیول خلاء میں روانہ کیا جسے ملک کے اپنے خلائی اسٹیشن کی تعمیر کی جانب پہلا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ تیان خلائی اسٹیشنگونگ ون یا Heavenly Palace نامی ماڈیول مقامی وقت کے مطابق رات سوا نو بجے چین کے شمال مغرب میں صحرائے گوبی سے چھوڑا گیا۔ ساڑھے آٹھ ٹن وزنی یہ ماڈیول خلاء میں مختلف تجربات کرے گا تاکہ 2020ء تک چین کا اپنا ایک خلائی اسٹیشن تیار ہو سکے۔ چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سنہوا کے مطابق خلائی ماڈیول کی روانگی کے موقع پر ملک کے وزیر اعظم وین جیاباؤ بھی موجود تھے جبکہ صدر ہو جن تاؤ نے یہ عمل بیجنگ کے ایک خلائی پرواز کنٹرول سینٹر سے دیکھا۔چین کا لانگ مارچ ٹو ایف راکٹ جو رواں برس غیر انسان بردار شنزہو VIII خلائی جہاز کو لے کر روانہ ہو گاچین کا لانگ مارچ ٹو ایف راکٹ جو رواں برس غیر انسان بردار شنزہو VIII خلائی جہاز کو لے کر روانہ ہو گا چھوڑے جانے کے دس منٹ بعد 200 کلومیٹر کی بلندی پر تیان گونگ ون اپنے راکٹ سے کامیابی سے الگ ہو گیا اور پھر اس کے دو شمسی پینل کھل گئے۔ چین اپنے خلائی پروگرام کو اپنی عالمی مرتبے کی علامت تصور کرتا ہے اور کئی سرکاری اخبارات نے اسے ملک کی تاریخ میں ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔ تاہم چینی اخبارات میں امریکی ماہرین کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے اس خلائی ماڈیول کی روانگی پر محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں خلائی پالیسی کے ماہر جون لوگسڈون نے سنہوا کو بتایا، ’’یہ بذات خود کوئی بڑا قدم نہیں ہے مگر اس سے چین کی خلائی ٹیکنالوجی میں پیشرفت کا اظہار ہوتا ہے۔‘‘ رواں برس کے اواخر میں ایک غیر انسان بردار شنزہو VIII خلائی جہاز اس ماڈیول سے جا کر جڑ جائے گا۔ اگر یہ مرحلہ کامیابی سے طے ہو گیا تو پھر خلائی ماڈیول 2012ء کے ساتھ جا کر جڑ جانے کے لیے مزید دو خلائی جہازوں شنزہو IX اور X بھی روانہ کیے جائیں گے۔ ان دونوں خلائی جہازوں میں کم از کم ایک خلا باز موجود ہو گا۔ چین کے انسان بردار خلائی پروگرام کا آغاز 1990ء میں روسی ٹیکنالوجی خریدنے کے بعد ہوا تھاچین کے انسان بردار خلائی پروگرام کا آغاز 1990ء میں روسی ٹیکنالوجی خریدنے کے بعد ہوا تھاخلاء میں ہوائی جہازو‌ں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی ٹیکنالوجی پر مہارت حاصل کرنا ایک دشوار کام ہے کیونکہ ایک ہی مدار میں موجود 28,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کے گرد گردش کر تے ہوئے دو خلائی جہازوں کو ایک نپی تلی رفتار سے ایک دوسرے کے قریب آنا ہوتا ہے ورنہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرا کر تباہ ہو سکتے ہیں۔ امریکہ اور روس کی تقلید میں چین بھی ایک ایسا خلائی اسٹیشن چاہتا ہے جہاں اس کے خلا باز مہینوں تک اپنے بل بوتے پر رہ سکیں۔ چین کے انسان بردار خلائی پروگرام کا آغاز 1990ء میں روسی ٹیکنالوجی خریدنے کے بعد ہوا تھا جس کے بعد وہ خلاء میں انسان بھیجنے والا تیسرا ملک بن گیا۔ گزشتہ سال چین نے اپنے قومی دن کے موقع پر Change 2 نامی اپنا دوسرا مشن چاند پر بھیجا تھا جبکہ رواں سال خزاں میں مریخ کے لیے پہلا چینی خلائی جہاز ایک روسی راکٹ کے ذریعے روانہ کیا جائے گا۔

Thanks dw-world.de