URDUSKY || NETWORK

بائیونک آئی، نابینا افراد کے لیے روشنی کی کرن

115
بائیونک آئی، نابینا افراد کے لیے روشنی کی کرن  

ایسے افراد جو آہستہ آہستہ بینائی سے محروم ہو رہے ہیں، اب ان کے لیے ایک ایسی مصنوعی آنکھ ایجاد کر لی گئی ہے، جس کی مدد سے وہ ایک مرتبہ پھر روشنی کو دیکھ سکیں گے۔

 

امریکی ریاست کیلی فورنیا کی ایک کمپنی نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے، جو ایک چشمے کی صورت میں ہے۔ بائیونک آئی کو، جو آرگس ٹو کے نام سے جانی جاتی ہے، ’سیکنڈ سائٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آلہ ایک کیمرے کے ذریعے کام کرتا ہے۔ یہ کیمرہ بنا کسی تار کے ایک چھوٹے سے آپریشن کی مدد سے آنکھ کے اندر  پردہ چشم سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ آلہ ایسے افراد کے لیے بنایا گیا ہے جو آنکھوں میں سوزش کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں۔

اگرچہ اس آلے کا کئی افراد پر کامیاب تجربہ کیا جا چکا ہے تاہم محققین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ آلہ ابتدائی مراحل میں ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں جدت پیدا کی جائے گی، تاکہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔

بنیادی طور پر یہ آلہ ایسے افراد کے لیے بنایا گیا ہے جو آنکھوں میں سوزش کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں بنیادی طور پر یہ آلہ ایسے افراد کے لیے بنایا گیا ہے جو آنکھوں میں سوزش کی وجہ سے آہستہ آہستہ اپنی بینائی سے محروم ہو جاتے ہیں

یونان سے امریکہ منتقل ہونے والے ایک الیکٹریشن Elias Konstantopoulos بھی ان چند افراد میں سے ہیں جن پر اس آلے کا تجربہ کیا گیا۔ وہ retinitis pigmentosa  نامی ایک ایسی بیماری کا شکار تھے، جو ناقابل علاج تصور کی جاتی ہے۔ اس بیماری میں مبتلا قریب ایک لاکھ افراد کا تعلق صرف امریکہ سے ہے۔ اب اس آلے کے کامیاب تجربے کے بعد حال ہی میں یورپ میں بھی اس کے استعمال کی اجازت دے دی گئی ہے۔ آپریشن کے ساتھ اس آلے کی قیمت قریب ایک لاکھ ڈالر بنتی ہے۔

پانچ برس قبل مکمل طور پر نابینا ہو جانے والے بہتر سالہ Konstantopoulos کہتے ہیں کہ وہ اس آلے کی مدد سے روشنی کے علاوہ مبہم انداز میں چیزیں بھی دیکھ سکتے ہیں۔ تین برس قبل ڈاکٹروں نے انہیں اس تجربے میں حصہ لینے کے لیے کہا تھا، جو انہوں نے خوشی سے قبول کر لیا تھا، ’اس آلے کے بغیر میں کچھ نہیں دیکھ سکتا تھا، لیکن اس کی مدد سے میں تھوڑا بہت دیکھ سکتا ہوں۔ میرے لیے یہ ایک امید ہے‘۔

امریکہ کی جان ہاپکن یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر Gislin Dagnelie کا کہنا ہے کہ جو افراد طویل عرصے سے نابینا ہیں، ان پر اس آلے کا کوئی زیادہ اثر نہیں ہو گا تاہم انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ پندرہ یا بیس برسوں کے بعد اس آلے کو مزید جدید بنا دیا جائے گا، جو شاید تمام نابینا افراد کے کام آ سکے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیوڈی