URDUSKY || NETWORK

معمول سے زیادہ بڑا اور روشن چاند

134

فلکیات کے ماہرین کاکہناہے کہ جن علاقوں میں بادلوں یا کسی اوروجہ سے لوگ سپر مون کا نظارہ نہیں کر سکے، اب انہیں اس کے لیے لگ بھگ 19 سال انتظار کرنا پڑے گا۔

معمول سے زیادہ بڑا اور روشن چاند

چوہودیں کاچاندشاعروں اور لطیف جذبات رکھنے  والوں کے لیے ہمیشہ سے دلچسپی کا باعث رہاہے۔رات کی خاموشی اور تاریکی میں جب پورا چاند اپنی سونے جیسی زرد کرنیں بکھیرتا ہے توگویا پورے ماحول پر ایک جادو سا چھا جاتا ہے۔

اگرچہ ہر قمری ماہ کی 14 تاریخ کو چاند اپنے پورے جوبن پر آتا ہے مگر کئی برسوں میں ایک بار 14 کا چاند ، دوسرے سارے برسوں کی چوہودیں  مختلف ہوتا ہے۔یعنی معمول سے بہت بڑا اور بہت زیادہ روشن، جسے سائنس کی اصطلاح میں سپر مون کہاجاتا ہے۔  اس بار بھی چوہودیں کا چاند سپر مون تھا۔ اور اس مرتبہ سپر مون طلوع ہوا ہے پورے اٹھارہ برسوں کے بعد۔

معمول سے بڑا پورا چاند دکھائی دینے کی وجہ اس  کا وہ  مدار جس پر وہ زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔ یہ مدار گول ہونے کی بجائے انڈے کی شکل کاہے۔ مارچ 1993 کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ چاند اپنے مدار میں گردش کرتا ہوا زمین کے بہت زیادہ  قریب سے گذرا۔ ظاہر ہے کہ چاند زمین کے جتنا قریب ہوگا ، وہ اتنا ہی زیادہ بڑا بھی دکھائی دے گا۔

زمین سے چاند کا فاصلہ اوسطاً دولاکھ 38 ہزار نو سو میل ہے،  جو اپنے مدار پر گردش کے دوران گھٹتا بڑھتا رہتا ہے ۔ لیکن ایسا موقع لگ بھگ 18 /19 برس میں آتا ہے کہ وہ اپنی مخصوص گردش کی بنا پر زمین کے بہت قریب آجائے۔ اس بار چوہودیں تاریخ کو  وہ زمین سے دو لاکھ 21 ہزار چھ سو میل کے فاصلے پر تھا۔

سپر مون عموماً مارچ میں ہی نمودار ہوتا ہے۔ چونکہ اکثر  علاقوں میں یہ فصلوں کی کٹائی اور بعدازاں بجائی کا موسم ہوتا ہے اس لیے قدیم امریکی قبائل سپر مون کواچھی فصل  کی ایک علامت سے تعبیر کرتے تھےاور وہ ا سے ایسی چیزوں اور پرندوں سے منسوب کرتے تھے جن کاتعلق فصلوں سے ہوتا ہے۔

زمین کے  گرد چاند کی گردش سے قمری ماہ و سال بنتے ہیں۔چاند  کا ایک ماہ تقریباً 29 دن اور آٹھ گھنٹوں کا ہوتاہے۔زمین کے گرد اس کے گھومنے کی رفتار 2300 میل فی گھنٹہ ہے۔ اپنے بیضوی مدار میں گردش کے دوران تقریباً 18 برس میں ایک موقع ایسا آتاہے کہ چاند زمین سے اپنے کم ترین فاصلے پر آجاتاہے۔ جس کی وجہ سے وہ  معمول کے پورے چاند سےزیادہ بڑا اور زیادہ روشن دکھائی دینے لگتاہے۔

امریکی خلائی ادارے ناسا کی ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ اس بار چاند 14 فی صد بڑا اور تقریباً 30 فی صد زیادہ روشن تھا۔ شاعر وں اور لطیف جذبات و احساسات رکھنے والوں نے  اس  غیر معمولی طورپر بڑے چوہودیں کے چاند کے یقیناً خوبصورت نام رکھے ہوں گے ، تاہم  ماہرین فلکیات اسے سپر مون کہہ کر پکارتے ہیں۔

یہ تصور عام ہے کہ پورا چاند انسان کی نفسیاتی کیفیات پر ہی نہیں بلکہ سمندر کی لہروں کو بھی اثرانداز ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کا کہناہے کہ چاند کے گھٹنے بڑھنے سے سمندر میں پیدا ہونے والے تلاطم کی وجہ چاند کی مقناطیسی کشش ہے، جو زمین پر موجود ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ زمین ٹھوس اجسام کو تو اپنی جگہ قائم رکھنے میں کامیاب رہتی ہے مگر وہ پانی  پر پوری طرح قابو نہیں پاسکتی جس کا نتیجہ چاند راتوں میں سمندر میں اونچی اونچی بے تاب لہروں کی شکل میں نکلتا ہے۔

تاہم سائنس دانوں کا کہناہے کہ حال  میں جاپان میں آنے والے سونامی کا چاند سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

چاند کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان  ہمیشہ  سےاس کا ایک ہی رخ دیکھتا آرہاہے ۔ وہ رخ جس میں بڑھیا چرغا کاتتی نظر آتی ہے۔مگر وہاں بڑھیا ہے نہ چرغا، جوکچھ ہمیں دکھائی دیتاہے وہ چاند کے لق ودق پہاڑوں اور کھائیوں کی پرچھائیاں ہیں۔

کئی مطالعاتی جائزوں سے ظاہر ہوا ہے کہ چوہودیں کا چاند انسانی مزاج اور صحت پر بھی اثرڈالتا ہے۔ 2007ء میں امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک سائنسی مطالعے سے معلوم ہواتھا کہ ریاست میں قتل اور جارحیت سے منسلک زیادہ تر جرائم چاند کے جوبن کے دنوں میں ہوئے۔ لیڈز یونیورسٹی کا ایک مطالعاتی جائزہ یہ بتاتا ہے کہ بڑھتے چاند کی تاریخوں میں ڈاکٹروں کے پاس زیادہ مریض جاتے ہیں جب کہ ایک طبی مطالعے میں یہ بتایا گیا تھا کہ چاندراتوں میں دمے  کے مریضوں کو زیادہ  دورے پڑتے ہیں۔تاہم 2005ء میں اسی سلسلے میں ریاست منی سوٹا کے مائیو کلینک میں کی جانے والی تحقیق اس کی نفی کرتی ہے۔

فلوریڈا میں ٹریفک حادثات  سے متعلق چار سال کے اعدادوشمار سے یہ ظاہر کرتے ہیں اندھیری راتوں کی نسبت  چاندراتوں میں حادثات کی شرح انتہائی کم رہی۔تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی وجہ چاند کی روشنی تھی یا اس کا مقناطیسی اثر۔

ان کا یہ بھی کہناہے کہ انسان چاند کے تابع نہیں ہے کیونکہ وہ اسے اپنے قدموں تلے روند چکاہے۔

فلکیات کے ماہرین کاکہناہے کہ جن علاقوں میں بادلوں یا کسی اوروجہ سے لوگ سپر مون کا نظارہ نہیں کر سکے، اب انہیں اس کے لیے لگ بھگ 19 سال انتظار کرنا پڑے گا۔

بشکریہVOA