URDUSKY || NETWORK

’دوسری زمین‘ کی تلاش غالباً کامیاب، ناسا

135

خلائی سفر کے امریکی ادارے ناسا نے اُمید ظاہر کی ہے کہ اُس نے ہماری کہکشاں میں زمین سے کم از کم سائز کے اعتبار سے ملتا جُلتا ایک سیارہ دریافت کر لیا ہے۔ اِس دریافت کا سہرا ’کیپلر‘ نامی خلائی دوربین کے سر ہے۔

امریکی سائنسدانوں نے جمعرات کو بتایا کہ ’کیپلر‘ نے اپنی پرواز شروع کرنے کے ڈیڑھ برس بعد سیاروں کے ایک ہنگامہ خیز نظام کا سراغ لگایا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اِس نظام کے اندر غالباً ایک ایسا سیارہ بھی ہے، جو ہماری زمین سے تقریباً ڈیڑھ گنا بڑا ہے تاہم اُس پر اتنی زیادہ گرمی ہے کہ وہاں زندگی کے آثار کا کوئی امکان نہیں ہے۔
اِس دریافت پر ابھی ایک سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔ ابھی اِس بات کو جانچا جا رہا ہے کہ جو کچھ دریافت ہوا ہے، آیا واقعی اُسے ایک سیارہ کہا جا سکتا ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ یہ ایک سیارہ ہے۔ محققین میں سے ایک میتھیو ہولمان نے، جن کا تعلق ہارورڈ اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس سے ہے، کہا کہ اِس سیارے کی دریافت کا مکمل یقین کرنے کے لئے پہلے اِس بات کو خارج از امکان قرار دینا ہو گا کہ کہیں یہ کوئی فریبِ نظر تو نہیں ہے، جس کا باعث کوئی اور سیارہ ہو!
ایک سے زیادہ سیاروں کا حامل یہ پہلا نظام ہے، جس سے اب تک سائنسدان ناواقف تھے اور جس کے وجود کی تصدیق ’کیپلر‘ خلائی ٹیلی اسکوپ نے کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اِس نظام میں ہمارے نظامِ شمسی کے سیارے زحل کے سائز کے دو انتہائی گرم سیارے موجود ہیں۔ محققین نے اِنہیں ’کیپلر 9b‘ اور ’کیپلر 9c‘ کے نام دئے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق یہ دونوں سیارے ہمارے سورج سے ملتے جُلتے ایک سیارے ’کیپلر 9‘ کے گرد تیز رفتاری سے گردش میں ہیں اور ہماری زمین سے تقریباً دو ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہیں اِسی نو دریافت نظام میں تیسرا سیارہ وہ ہے، جسے ابھی سائنسدان پوری طرح سے شناخت نہیں کر پائے اور جو غالباً ہماری زمین سے مماثل ہو سکتا ہے تاہم ہولمان کے مطابق یہ سیارہ اپنے ’سورج‘ کے اس قدر قریب رہتے ہوئے اُس کے گرد گردش کر رہا ہے کہ وہاں زندگی کا امکان ہو ہی نہیں سکتا۔ اِس نئی دریافت کی تفصیلات جمعرات کو جریدے ’سائنس‘ کے تازہ ترین شمارے میں دی گئی ہیں۔
’کیپلر‘ نامی امریکی ٹیلی اسکوپ گزشتہ برس خلا میں روانہ کی گئی تھی اور اِس کا ایک اہم مقصد ہمارے نظام شمسی سے باہر ایک ’دوسری زمین‘ دریافت کرنا تھا۔ یہ خلائی دوربین کم از کم ساڑھے تین برس تک سفر میں رہے گی اور اِس دوران کہکشاں کے ایک لاکھ سے زیادہ ستاروں اور سیاروں کو دیکھتے ہوئے ایسے چٹانی سیاروں کا سراغ لگانے کی کوشش کرے گی، جن پر زندگی کا امکان ہو سکتا ہو۔
اِس سے پہلے اِسی ہفتے منگل کو خلائی تحقیق کے یورپی ادارے ESO نے خبر دی تھی کہ ماہرینِ فلکیات نے زمین سے 127 نوری سال کی دوری پر ایک اور نظامِ شمسی کا سراغ لگایا ہے، جہاں HD 10180 نامی سورج کے اردگرد کم از کم پانچ سے سات سیارے گردش کرتے ہیں۔
بشکریہ DW