URDUSKY || NETWORK

پاک، بھارت امن مذاکرات بحال

79
پاکستانی خارجہ سکریٹری سلمان بشیر اپنی بھارتی ہم منصب کے ساتھ Pak-India relations- aman ki asah

ممبئی دہشت گردانہ حملے کی وجہ سے نومبر 2008 سے تعطل کا شکار پاکستان، بھارت جامع مذاکرات دوبارہ پٹڑی پر لوٹ آئے ہیں۔ دونوں ملک مسئلہ کشمیر اور انسداد دہشت گردی سمیت آٹھ نکاتی امور پر بات چیت کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔

بھارتی خارجہ سکریٹری نروپما راؤ اور پاکستان کے خارجہ سکریٹری سلمان بشیر کے درمیان چھ فروری کو بھوٹان کے دارالحکومت تھمپو میں سارک خارجہ سکریٹری کانفرنس کے موقع پر ہونے والی بات چیت سے ان دونوں پڑوسیوں کے درمیان گذشتہ 26 ماہ سے جاری تعطل ختم ہوا اور جامع مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کا راستہ ہموار ہوگیا۔

یہاں بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے جمعرات کو جاری ایک بیان میں دونوں خارجہ سکریٹریوں کے درمیان ملاقات کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک تمام امور پر بات چیت کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر‘ انسداد دہشت گردی‘ اعتمادسازی کے اقدامات بشمول امن و سلامتی‘ دوستانہ وفود کے تبادلے کے فروغ‘ سیاچین‘ اقتصادی امور ‘ وولر بیراج ، تل بل نیوی گیشن پروجیکٹ اور سرکریک جیسے امور شامل ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس سال جولائی تک بھارت کا دورہ کریں گے

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اس سال جولائی تک بھارت کا دورہ کریں گے اور اپنے بھارتی ہم منصب ایس ایم کرشنا کے ساتھ مختلف سطحوں پر ہونے والی بات چیت میں پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔ خیال رہے کہ ممبئی میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بھارت نے امن مذاکرات معطل کر دیے تھے حالانکہ گذشتہ سال جولائی میں ایس ایم کرشنا نے اسلام آباد کا دورہ کیا تھا لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آیا تھا۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے کئی وجوہات کی بنا پر پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس دھماکہ معاملے میں شدت پسند ہندو تنظیموں کے ملوث ہونے کی بات تقریباﹰ ثابت ہوجانے سے نئی دہلی حکومت دہشت گردی کے حوالے سے دفاعی پوزیشن میں آگئی ہے۔

دوسری طرف بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ اس وقت جموں و کشمیر میں نسبتاﹰ امن کی جو صورت حال ہے وہ برقرار رہے، کیوں کہ اگر وہاں گذشتہ سال کی طرح شورش میں شدت آگئی تو حالات کو قابو میں کرنا مشکل ہوگا۔ اس کے علاوہ بھارت دنیا کو یہ پیغام بھی دینا چاہتا ہے کہ وہ بہر حال قیام امن کا داعی ہے۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ بھارت کے رویے میں یہ تبدیلی بڑی حد تک امریکی دباؤ کا نتیجہ ہے ۔ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر امیتابھ مٹو کہتے ہیں کہ ”میں ان مذاکرات کے حوالے سے بہت زیادہ پرامید نہیں ہوں۔‘‘

بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی