URDUSKY || NETWORK

جب تک ہم خودمختار ہیں ملک کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی ۔افتخار محمد چوہدری

61

اسلام آباد(ثناء نیوز ) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ جب تک ہم خودمختار ہیں ملک کے خلاف کوئی سازش کامیاب نہیں ہوگی ۔ اگر معاہدوں کے دوران شرائط کی پابندی نہ کی جائے تو سٹریٹیجک نوعیت کے معاملات میں دخل اندازی ہو سکتی ہے۔ خود مختار ریاست ہونے کی حیثیت سے معاہدے کرتے وقت یہ باریکیاں سامنے رہنی چاہیں۔یہ ریمارکس چیف جسٹس آف پاکستان نے بلوچستان میں ریکوڈک ذخائر کی کان کنی کے ٹھیکے غیر ملکی کمپنی کو دیئے جانے کے خلاف دائر مقدمات کی سماعت کے دوران دیئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 4 جسٹس سائر علی، جسٹس غلام ربانی اور جسٹس خلیل الرحمن رمدے پر مشتمل چار رکنی بنچ نے بدھ کو ان مقدمات کی سماعت کی۔سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان صلاح الدین مینگل نے عدالت میں 1991 سے ابتک ریکوڈک معاہدے سے متعلق معاہدے کا ریکارڈ پیش کیااور کہا کہ بی ایچ پی کمپنی کے سربراہ مارکٹن ہنری 1993ء میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے تانبے اور سونے کے زخائر کی کان کنی کے لئے رابطہ کیاتھا انہوں نے کہاکہ اس وقت کے وزیراعلٰی بلوچستان نے بطور مجاز اتھارٹی اس کمپنی کو لائسنس کے اجراء کے لئے قوائد میں نرمی کی جبکہ بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین نے 13جولائی 1993ء کو جوائنٹ وینچر معاہدے کے لئے سمری بھجوائی اس موقع پر جسٹس خلیل رحمان رمدے نے کہا کہ اسchief-justice کمپنی کو لائسنسس کے لئے تمام قواعد میں نرمی کی گئی گویا عملاً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کمپنی پر قواعد وضوابط پر اطلاق ہی نہیں ہوتا ۔تاہم جب عدالت نے ان سے1994 کو ہونے والے جوائنٹ وینچر معاہدے میں قواعد کی نرمی سے متعلق سمری کا پوچھا تو انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ فائل غائب ہو گئی ہے۔بی ڈی اے اور وزارتِ معدنیات کی فائلیں چھان لی ہیں مگر ریکارڈ نہیں مل رہا۔ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ 1994 کے معاہدے میں اس وقت کے وزیرِ اعلٰی نے مجاز اتھارٹی کے طور پر قواعد میں نرمی کرتے ہوئے معاہدے کی منظوری دی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مجاز اتھارٹی بورڈ آف گورنر تھا یا وزیرِ اعلیٰ۔ جسٹس خلیل الرحمان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آغاز ہی سے اس معاہدے میں قواعد کی نرمی ہوئی۔ قائدہ 98کے تحت نرمی صرف انفرادی مشکل اور خصوصی حالات میں کی جاسکتی ہے۔ریکارڈ میں واضح نہیں ہے کہ لائسنس کے اجرا ء میں کیا مشکل تھی اور کن حالت کے تحت ان قواعد میں نرمی کی گئی۔جس پر صلاح الدین مینگل نے کہا کہ حکومت کو آئین کے آرٹیکل 56,57اور70کے تحت قواعد و ضوابط میں میں نرمی کا اختیار ہے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ سے یہ بات واضح ہورہی ہے کہ ریکوڈک معاہدے میں قواعد کی نرمی کے لیے کوئی سمری نہیں بھیجی گئی اور سیکرٹری صنعت نے خود ہی نوٹیفیکیشن جاری کر دیا۔مائننگ کمیٹی کے قواعد کی نرمی کے حوالے سے کوئی سمری نہیں بھیجی گئی۔سماعت کے دوران اپنے دلائل میں سنجرانی قبیلے کے وکیل احمد رضا قصوری نے کہا کہ ریکوڈک معاہدے میں پاکستان کی خودمختاری کے خلاف سازش ہو رہی ہے ۔ عدالت نے مقدمہ کی مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی۔