بحرین: ہلاک ہونے والوں کے جنازے میں ہزاروں کی شرکت
بحرین میں جمعرات کو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے مظاہرین کی نمازِ جنازہ میں جمعہ کو ہزاروں افراد نے شرکت کی اور حکمران خاندان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔
لیبیا، بحرین اور یمن میں سرکاری مشینری اُن مظاہرین پر قابو پانے کی کوشش کر رہی ہے جو تیونس اور مصر کے عوام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، اقتدار کی تبدیلی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں۔اب تک ان تینوں ممالک میں مظاہروں کے دوران کئی افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
بحرین میں جمعرات کو سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے چار مظاہرین کی نمازِ جنازہ جمعہ کو ادا کی گئی۔
ہزاروں افراد نے جمعہ کی نماز کے بعد نماز جنازہ میں شرکت کی اور حکام کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کیا اور حکمران خاندان کی برطرفی کا مطالبہ کیا۔
ایک شیعہ رہنما نے سکیورٹی فورسز کی کارروائی کو ’قتل عام‘ قرار دیا اور کہا کہ حکومت نے بات چیت کا دروازہ بند کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ ملک میں حکومت کے حامی افراد کی جانب سے بھی ریلیوں کی اطلاعات ہیں۔ نامہ نگاروں کے مطابق اس ریلی میں کئی غیر ملکیوں نے بھی شرکت کی جن میں دوسری عرب ریاستوں اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے سنی مسلمان بھی شامل تھے۔
بحرینی حکومت اور فوج نے ملک میں مظاہروں پر پابندی لگائی ہوئی ہے تاہم حکومت مخالف مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ نمازِ جمعہ کے بعد سڑکوں پر نکلیں گے۔
ادھر امریکہ نے بحرین سے کہا ہے کہ وہ مظاہرین سے نمٹنے میں تحمل اور برداشت سے کام لے اور ریاست میں بامعنی اصلاحات کی جائیں۔
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب بحرینی سکیورٹی فورسز نے دارالحکومت مناما کے ’پرل سکوائر‘ میں تین دن سے موجود سینکڑوں مظاہرین کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے منتشر کر دیا ہے۔
سرکاری ٹی وی کے مطابق فوج سے کہا گیا ہے کہ وہ حالات پر قابو پائے۔ بحرینی وزارتِ داخلہ کے مطابق فوج سکیورٹی قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔
مظاہرین حکومت سے وسیع پیمانے پر سیاسی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور منگل سے دارالحکومت مناما میں موجود ہیں۔ اب تک بحرین میں حکومت مخالف مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں میں چار افراد ہلاک اور دو سو تیس سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
بحرین کے سڑکوں پر ٹینک بھی گشت کر رہے ہیں
بحرین کی اکثر آبادی کا تعلق شیعہ فرقے سے ہے لیکن یہاں سنی اقلیت برسرِ اقتدار ہے اور حکومت ان مظاہروں کو فرقہ واریت سے جوڑ رہی ہے۔
بحرینی وزیرِ خارجہ شیخ خالد بن احمد الخلیفہ نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ ملک، فرقہ واریت کی نہج پر کھڑا تھا اس لیے ایسا کرنا بہت ضروری تھا۔ پولیس نے بڑی احتیاط سے کام لیا لیکن یہ گارنٹی دینا مشکل تھا کہ کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہو گا۔ بدقسمتی سے اس دوران اموات بھی ہو گئیں‘۔
لیکن بین الاقوامی سطح پر بحرین کی حکومت کے اس جواز کو تائید نہیں مل سکی ہے اور امریکی وزیرِ خارجہ ہِیلری کلنٹن نے کہا ے کہ ’ امریکہ، تشدد کی پرزور مخالفت کرتا ہے اور، معاشی آزادی اور اداروں میں جمہوریت کے لیے اصلاحات کی بھرپور حمایت کرتا ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے آج صبح بحرین میں اپنے ہم منصب سے رابطہ کیا اور ان کی سکیورٹی فورسز کے اقدامات پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ میں نے زور دیا کہ کل جمعہ کی نماز بھی ہوگی اور جنازے بھی ہوں گے، اس دوران اہم ہو گا کہ یہ دن دوبارہ تشدد کی لپیٹ میں نہ آئے‘۔
یاد رہے کہ بحرین امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے کا اڈہ ہے اور جغرافیائی اعتبار سے سعودی عرب کے پڑوس میں واقع ہے۔
بشکریہ بی بی سی