URDUSKY || NETWORK

23rd MARCH ‘ Pakistan Resolution Day | 23 مارچ یوم پاکستان

101

قرارداد پاکستان

23 مارچ کو لاھور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی گئی تھی جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے جدا وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی تھی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔Pakistan-240-animated-flag-gifs

برصغیر میں برطانوی راج کی طرف سے اقتدار عوام کو سونپنے کے عمل کے پہلے مرحلے میں 1936/1937 میں جو پہلے عام انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ کو بری طرح سے ہزیمت اٹھانی پڑی تھی اور اس کے اس دعوی کو شدید زک پہنچی تھی کہ وہ بر صغیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہے۔ اس وجہ سے مسلم لیگ کی قیادت اور کارکنوں کے حوصلے ٹوٹ گئے تھے اور ان پر ایک عجب بے بسی کا عالم تھا۔

کانگریس کو مدراس، یو پی، سی پی، بہار اور اڑیسہ میں واضح اکثریت حاصل ہوئی تھی، سرحد اور بمبئی میں اس نے دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی تھی اور سندھ اور آسام میں بھی جہاں مسلمان حاوی تھے کانگریس کو نمایاں کامیابی ملی تھی۔

پنجاب میں البتہ سر فضل حسین کی یونینسٹ پارٹی اور بنگال میں مولوی فضل الحق کی پرجا کرشک پارٹی کو جیت ہوئی تھی۔

غرض ہندوستان کے 11 صوبوں میں سے کسی ایک صوبہ میں بھی مسلم لیگ کو اقتدار حاصل نہ ہو سکا۔ ان حالات میں مسلم لیگ ایسا محسوس ہوتا تھا، برصغیر کے سیاسی دھارے سے الگ ہوتی جارہی ہے۔

اس دوران کانگریس نے جو پہلی بار اقتدار کے نشے میں کچھ زیادہ ہی سر شار تھی، ایسے اقدامات کیے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں خدشات اور خطرات نے جنم لینا شروع کردیا۔ مثلاً کانگریس نے ہندی کو قومی زبان قرار دے دیا، گاؤ کشی پر پابندی عائد کردی اور کانگریس کے ترنگے کو قومی پرچم کی حیثیت دی۔

اس صورت میں مسلم لیگ کی اقتدار سے محرومی کے ساتھ اس کی قیادت میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ مسلم لیگ اقتدار سے اس بناء پر محروم کر دی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت کہلاتی ہے۔ یہی نقطہ آغاز تھا مسلم لیگ کی قیادت میں دو جدا قوموں کے احساس کی بیداری ک۔

اسی دوران دوسری عالم گیر جنگ کی حمایت کے عوض اقتدار کی بھر پور منتقلی کے مسئلہ پر برطانوی راج اور کانگریس کے درمیان مناقشہ بھڑکا اور کانگریس اقتدار سے الگ ہوگئی تو مسلم لیگ کے لیے کچھ دروازے کھلتے دکھائی دئے۔ اور اسی پس منظر میں لاھور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ 3 روزہ اجلاس 22 مارچ کو شروع ہوا۔

اجلاس سے 4 روز قبل لاہور میں علامہ مشرقی کی خاکسار جماعت نے پابندی توڑتے ہوئے ایک عسکری پریڈ کی تھی جس کو روکنے کے لیے پولیس نے فائرنگ کی۔ 35 کے قریب خاکسار جاں بحق ہوئے۔ اس واقعہ کی وجہ سے لاہور میں زبردست کشیدگی تھی اور پنجاب میں مسلم لیگ کی اتحادی جماعت یونینسٹ پارٹی برسراقتدار تھی اور اس بات کا خطرہ تھا کہ خاکسار کے بیلچہ بردار کارکن، مسلم لیگ کا یہ اجلاس نہ ہونے دیں یا اس موقع پر ہنگامہ برپا کریں۔

موقع کی اسی نزاکت کے پیش نظر قائداعظم محمد علی جناح نے افتتاحی اجلاس سے خطاب کیا جس میں انہوں نے پہلی بار کہا کہ ہندوستان میں مسئلہ فرقہ ورارنہ نوعیت کا نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی ہے یعنی یہ دو قوموں کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق اتنا بڑا اور واضح ہے کہ ایک مرکزی حکومت کے تحت ان کا اتحاد خطرات سے بھر پور ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ایک ہی راہ ہے کہ ان کی علیحدہ مملکتیں ہوں۔

دوسرے دن انہی خطوط پر 23 مارچ کو اس زمانہ کے بنگال کے وزیر اعلی مولوی فضل الحق نے قرار داد لاہور پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس وقت تک کوئی آئینی پلان نہ تو قابل عمل ہوگا اور نہ مسلمانوں کو قبول ہوگا جب تک ایک دوسرے سے ملے ہوئے جغرافیائی یونٹوں کی جدا گانہ علاقوں میں حد بندی نہ ہو۔ قرار داد میں کہا گیا تھا کہ ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی عددی اکثریت ہے جیسے کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقے، انہیں یکجا کر کے ان میں آزاد مملکتیں قائم کی جائیں جن میں شامل یونٹوں کو خود مختاری اور حاکمیت اعلی حاصل ہو۔

مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ اس قرارداد کی تائید یوپی کے مسلم لیگی رہنماچوہدری خلیق الزماں ، پنجاب سے مولانا ظفر علی خان، سرحد سے سردار اورنگ زیب سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسی نے کی۔ قرارداد 23 مارچ کو اختتامی اجلاس میں منظور کی گئی۔

اپریل سن 1941 میں مدراس میں مسلم لیگ کے اجلاس میں قرارداد لاہور کو جماعت کے آئین میں شامل کر لیا گیا اور اسی کی بنیاد پر پاکستان کی تحریک شروع ہوئی۔ لیکن اس وقت بھی ان علاقوں کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی تھی جن پر مشتمل علیحدہ مسلم مملکتوں کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔

قرارداد لاہور میں ترمیم

پہلی بار پاکستان کے مطالبے کے لیے علاقوں کی نشاندہی 7 اپریل سن 1946 دلی کی تین روزہ کنونشن میں کی گئی جس میں مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے مسلم لیگی اراکین نے شرکت کی تھی۔ اس کنونشن میں برطانیہ سے آنے والے کیبنٹ مشن کے وفد کے سامنے مسلم لیگ کا مطالبہ پیش کرنے کے لیے ایک قرارداد منظور کی گئی تھی جس کا مسودہ مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے دو اراکین چوہدری خلیق الزماں اور حسن اصفہانی نے تیار کیا تھا۔ اس قراداد میں واضح طور پر پاکستان میں شامل کئے جانے والے علاقوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ شمال مشرق میں بنگال اور آسام اور شمال مغرب میں پنجاب ، سرحد ، سندھ اور بلوچستان۔ تعجب کی بات ہے کہ اس قرارداد میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں تھا حالانکہ شمال مغرب میں مسلم اکثریت والا علاقہ تھا اور پنجاب سے جڑا ہوا تھا۔

یہ بات بے حد اہم ہے کہ دلی کنونشن کی اس قرارداد میں دو مملکتوں کا ذکر یکسر حذف کر دیا گیا تھا جو قرارداد لاہور میں بہت واضح طور پر تھا اس کی جگہ پاکستان کی واحد مملکت کا مطالبہ پیش کیا گیا تھا۔

قراردادِ لاہور کے مسودہ کا خالق کون تھا؟

غالباً بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہے کہ قراردادِ لاہور کا اصل مسودہ اس زمانہ کے پنجاب کے یونینسٹ وزیر اعلی سر سکندر حیات خان نے تیار کیا تھا۔ یونینسٹ پارٹی اس زمانہ میں مسلم لیگ میں ضم ہو گئی تھی اور سر سکندر حیات خان پنجاب مسلم لیگ کے صدر تھے۔

سر سکندر حیات خان نے قرارداد کے اصل مسودہ میں بر صغیر میں ایک مرکزی حکومت کی بنیاد پر عملی طور پر کنفڈریشن کی تجویز پیش کی تھی لیکن جب اس مسودہ پر مسلم لیگ کی سبجیکٹ کمیٹی میں غور کیا گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود اس مسودہ میں واحد مرکزی حکومت کا ذکر یکسر کاٹ دیا۔

سر سکندر حیات خان اس بات پر سخت ناراض تھے اور انہوں نے 11 مارچ سن 1941 کو پنجاب کی اسمبلی میں صاف صاف کہا تھا کہ ان کا پاکستان کا نظریہ جناح صاحب کے نظریہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ہندوستان میں ایک طرف ہندؤ راج اور دوسری طرف مسلم راج کی بنیاد پر تقسیم کے سخت خلاف ہیں اور وہ ایسی بقول ان کے تباہ کن تقسیم کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ مگر ایسا نہ ھوا۔

سر سکندر حیات خان دوسرے سال سن 1942 میں 50 سال کی عمر میں انتقال کر گئے یوں پنجاب میں محمد علی جناح کو شدید مخالفت کے اٹھتے ہوئے حصار سے نجات مل گئی۔

سن 1946 کے دلی کنونشن میں پاکستان کے مطالبہ کی قرارداد حسین شہید سہروردی نے پیش کی اور یو پی کے مسلم لیگی رہنما چوہدری خلیق الزماں نے اس کی تائد کی تھی۔ قراردادِ لاہور پیش کرنے والے مولوی فضل الحق اس کنونشن میں شریک نہیں ہوئے کیونکہ انہیں سن 1941 میں مسلم لیگ سےخارج کردیا گیا تھا۔

دلی کنونشن میں بنگال کے رہنما ابو الہاشم نے اس قرارداد کی پر زور مخالفت کی اور یہ دلیل پیش کی کہ یہ قرارداد لاہور کی قرارداد سے بالکل مختلف ہے جو مسلم لیگ کے آئین کا حصہ ہے- ان کا کہنا تھا کہ قرارداد لاہور میں واضح طور پر دو مملکتوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا لہذا دلی کنونشن کو مسلم لیگ کی اس بنیادی قرارداد میں ترمیم کا قطعی کوئی اختیار نہیں-

ابوالہاشم کے مطابق قائد اعظم نے اسی کنونشن میں اور بعد میں بمبئی میں ایک ملاقات میں یہ وضاحت کی تھی کہ اس وقت چونکہ برصغیر میں دو الگ الگ دستور ساز اسمبلیوں کے قیام کی بات ہو رہی ہے لہذا دلی کنونشن کی قرارداد میں ایک مملکت کا ذکر کیا گیا ہے۔

البتہ اس وقت جب پاکستان کی دستور ساز اسمبلی آئین مرتب کرے گی تو وہ اس مسئلہ کی حتمی ثالث ہوگی اور اسے دو علیحدہ مملکتوں کے قیام کے فیصلہ کا پورا اختیار ہوگا۔

لیکن پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے نہ تو قائد اعظم کی زندگی میں اور نہ اس وقت جب سن 1956 میں ملک کا پہلا آئین منظور ہو رہا تھا بر صغیر میں مسلمانوں کی دو آزاد اور خود مختار مملکتوں کے قیام پر غور کیا۔

25 سال کی سیاسی اتھل پتھل اور کشمکش اور سن 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کی تباہی کے بعد البتہ برصغیر میں مسلمانوں کی دو الگ الگ مملکتیں ابھریں جن کا مطالبہ قرارداد لاہور کی صورت میں آج بھی محفوظ ہے۔

بشکریہ وکیپیڈیا

Lahore Resolution

From Wikipedia, the free encyclopedia
Jump to: navigation, search

Minar-e-Pakistan, Lahore, where the Pakistan Resolution was passed

The Lahore Resolution (Qarardad-e-Lahore قرارداد لاھور), commonly known as the Pakistan Resolution (قرارداد پاکستان Qarardad-e-Pakistan),[1] was a formal political statement adopted by the Muslim League at the occasion of its three-day general session on 22–24 March 1940 that called for greater Muslim autonomy in British India. This has been largely interpreted as a demand for a separate Muslim state, Pakistan.[2] The resolution was presented by A. K. Fazlul Huq.

Although the name "Pakistan” had been proposed by Choudhary Rahmat Ali in his Pakistan Declaration[3] in 1933, Muhammad Ali Jinnah and other leaders had kept firm their belief in HinduMuslim unity.[4] However, the volatile political climate and religious hostilities gave the idea stronger backing.[5]

Background

With the beginning of the Second World War in September 1939, the Viceroy of India Lord Linlithgow declared India’s entrance into the war without consulting the provincial governments. In this situation, Jinnah called a general session of the All India Muslim League in Lahore to discuss the circumstances and also analyze the reasons for the defeat of Muslim League in the Indian general election of 1937 in some Muslim majority provinces. And After The War of independence he was disobeyed

Proceedings

Chaudhry Khaliquzzaman seconding the Resolution with Jinnah presiding the session

The session was held between 22 March and 24 March 1940, at Minto Park (now Iqbal Park), Lahore. The welcome address was made by Nawab Sir Shah Nawaz Mamdot President Punjab All India Muslim League, he was also Chairman of the reception committee and personally bore all the expenses for this august gathering. In his speech, Jinnah recounted the contemporary situation, stressing that the problem of India was no more of an inter-communal nature, but manifestly an international.[6] He criticised the Congress and the nationalist Muslims, and espoused the Two-Nation Theory and the reasons for the demand for separate Muslim homelands. According to Stanley Wolpert, this was the moment when Jinnah, the former ambassador of Hindu-Muslim unity, totally transformed himself into Pakistan’s great leader.[7]

Sikandar Hayat Khan, the Chief Minister of the Punjab, was the sole author of the original Lahore Resolution, which was placed before the Subject Committee of the All India Muslim League for discussion and amendments. All claims to the contrary are spurious and due to political infighting and jealousy. Sir Sikander Hyat’s Unionist Party had swept the elections in the Punjab and provided support to The Quaid on the urging of Sir Mohammad Allama Iqbal resulting in the Sikander-Jinnah pact. Sir Sikander convinced his class fellow Sir Fazlul Haq, Premier of Bengal to support the Quaid as well. Sir Sikander supported the British in WWII on the request of Sir Winston Churchill after all Indias Political Parties had refused. The British promised Dominion Status to India after the war with Sir Sikander as the Governor General. After his suspicious death other players moved in. Sir Sikander did not envisage Partition of his Beloved Punjab o Bengal. Rather he envisioned a Confederation with Punjab and Bengal as whole sub units. When he learnt of the intended Partition of Punjab he rejected this outright. The strike by the Khaksaar Taireek and subsequent killing of their workers while Sir Sikander was Acting Governor of the Punjab was a spoiler and an attempt by their leader to hijack the Freedom Movement. The Taireek had supported the Germans and Japanese during the War. Due to Civil Unrest it was decided that Sir Fazlul Haq would present the Resolution. The Resolution text unanimously rejected the concept of a United India on the grounds of growing inter-communal violence[8] and recommended the creation of an independent Muslim state.[9]

After the presentation of the annual report by Liaquat Ali Khan, the Resolution was moved in the general session by A.K. Fazlul Huq, the Chief Minister of undivided Bengal and was seconded by Choudhury Khaliquzzaman who explained his views on the causes which led to the demand of a separate state. Subsequently, Maulana Zafar Ali Khan from Punjab, Sardar Aurangzeb from the North-West Frontier Province, Sir Abdullah Haroon from Sindh, and Qazi Esa from Baluchistan, and other leaders announced their support. In the same session, Jinnah also presented a resolution to condemn the Khaksar massacre of 19 March, owing to a clash between the Khaksars and the police, that had resulted in the loss of lives.[10]

The statement

The principle text of the Lahore Resolution was signed actually on 24 March,but officially 23th march is considered as signing date of that resolution. In 1941 it became part of the Muslim League’s constitution. In 1946, it formed the basis for the decision of Muslim League to struggle for one state for the Muslims.[11] The statement declared:

No constitutional plan would be workable or acceptable to the Muslims unless geographical contiguous units are demarcated into regions which should be so constituted with such territorial readjustments as may be necessary. That the areas in which the Muslims are numerically in majority as in the North-Western and Eastern zones of India should be grouped to constitute independent states in which the constituent units shall be autonomous and sovereign.[12]

Additionally, it stated:

That adequate, effective and mandatory safeguards shall be specifically provided in the constitution for minorities in the units and in the regions for the protection of their religious, cultural, economic, political, administrative and other rights of the minorities,

 

Pakistan resolution in the Sindh Assembly

The Sindh assembly was the first British Indian legislature to pass the resolution in favour of Pakistan. G. M. Syed, an influential Sindhi activist, revolutionary and Sufi and one of the important leaders to the forefront of the provincial autonomy movement joined the Muslim League in 1938 and presented the Pakistan resolution in the Sindh Assembly. This text was buried under the Minar-e-Pakistan during its building in the Ayub regime.

Commemoration

Muslim League Working Committee at the Lahore session

References

  1. ^ Francis Robinson (1997), The Muslims and Partition, History Today, Vol. 47, September
  2. ^ Christoph Jaffrelot (Ed.) (2005), A History of Pakistan and Its Origins, Anthem Press, ISBN 978-1843311492
  3. ^ Choudhary Rahmat Ali, (1933), Now or Never; Are We to Live or Perish Forever?, pamphlet, published 28 January. (Rehmat Ali at the time was an undergraduate at the University of Cambridge)
  4. ^ Ian Talbot (1999), Pakistan: a modern history, St. Martin’s Press, ISBN 0312216068
  5. ^ Reginald Coupland (1943), Indian Politics (1936-1942), Oxford university press, London
  6. ^ Lahore Resolution (1940), Story of Pakistan website, Retrieved on 23 April 2006
  7. ^ Stanley Wolpert (1984), Jinnah of Pakistan. Oxford University Press. ISBN 978-0195034127
  8. ^ Muhammad Aslam Malik (2001), The Making of the Pakistan Resolution, Oxford University Press, Delhi. ISBN 0-19-579538-5
  9. ^ Syed Iftikhar Ahmed (1983), Essays on Pakistan, Alpha Bravo Publishers, Lahore, OCLC 12811079
  10. ^ Nasim Yousaf (2004), Pakistan’s Freedom & Allama Mashriqi: Statements, Letters, Chronology of Khaksar Tehrik (Movement), Period Mashriqi’s birth to 1947. page 123. AMZ Publications. ISBN 0976033305
  11. ^ I H Qureshi, (1965), Struggle for Pakistan, Karachi
  12. ^ I H Qureshi, (1992), A Short History of Pakistan. University of Karachi, Reprint of 1967 edition. ISBN 969-404-008-6
  13. ^ Stanford M. Mirkin (1966), What Happened when: A Noted Researcher’s Almanac of Yesterdays, I. Washburn, New York. OCLC 390802 (First published in 1957 under title: When did it happen?)
  14. Wikipedia