URDUSKY || NETWORK

خبردار کرتا ہوں! اقوام متحدہ کشمیریوں کو ان کا حق خود ارادیت دلائے

30

PM Imran slams India’s Modi, warns UNGA of impending Kashmir ‘bloodbath’

وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں عالمی برادری کو کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلانے کے لیے بھرپور کردار ادا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر بھارت نے کچھ غلط کیا تو ہم آخر تک لڑیں گے اور اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوں گے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘جناب صدر! میں اس بات کو دوہرانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک نازک موقع ہے، اس صورت حال پر ردعمل ہوگا پھر پاکستان پر الزامات عائد کیے جائیں گے، دو جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک آمنے سامنے آئیں گے جس طرح ہم فروری میں ہم آئے تھے’۔

وزیراعظم نے کہا کہ ‘اس سے پہلے کہ ہم اس طرف جائیں اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے، اسی کے لیے 1945 میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا تھا، آپ اس کو روکنے کے مجاز ہیں’۔

‘اگر کچھ غلط ہوا تو آپ اچھے کی امید کریں گے لیکن ہم اس سے نمٹنے کی تیاری کریں گے، اگر دونوں ممالک کے درمیان روایتی جنگ شروع ہوئی اور کچھ ہوا تو سوچیے کہ ایک ملک جو اپنے ہمسایے سے سات گنا چھوٹا ہو تو اس کے پاس کیا موقع ہے، یا تو آپ ہتھیار ڈال دیں یا آخری سانس تک اپنی آزادی کے لیے لڑتے رہیں’۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘میں یہ سوال خود سے پوچھتا ہوں، میرا ایمان ہے کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں اور ہم لڑیں گے، اور جب ایک جوہری ہتھیاروں کا حامل ملک آخر تک لڑتا ہے تو اس کے نتائج سوچ سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں، اس کے نتائج دنیا پر ہوتے ہیں’۔

عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کہا کہ ‘میں خبردار کررہا ہوں، یہ دھمکی نہیں ہے، یہ خوف ، پریشانی ہے کہ ہم کہاں جارہے ہیں یہی بتانےمیں یہاں اقوام متحدہ میں ہوں کیونکہ صرف آپ ہیں جو کشمیر کے عوام کو ان کا حق خود ارادیت کی ضمانت دے سکتے ہیں جس کے لیے وہ مشکلات کا شکار ہیں’۔

انہوں نے کہا کہ ‘یہی موقع ہے کہ ایکشن لینے کا ہے، پہلا ایکشن یہ ہے کہ بھارت کرفیو کو ہٹادے جو 52 روز سے نافذ ہے، یہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرے اور خاص کر ان 13 ہزار نوجوانوں کو جنہیں اٹھایا گیا ہے اور ان کے والدین کو ان کی خبر نہیں ہے’۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘عالمی برادری کشمیر کو ہر صورت حق خود ارادیت دے’۔

‘صرف 8ہزار یہودی اس طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا کرے گی’

‘بھارت کے پاس اور کوئی بیانیہ نہیں رہا، جیسے ہی وہ کرفیو ہٹائیں گے جو کچھ ہوگا، وہ اس کا الزام پاکستان پر لگائیں گے اور ایک اور پلواما کا خطرہ موجود ہے، بمبار دوبارہ آسکتے ہیں جس سے نیا چکر شروع ہوسکتا ہے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مودی کو سمجھ ہے کہ 8 کروڑ مسلمان بھارت میں اس وقت کیا سوچ رہے ہیں کیا وہ نہیں دیکھ رہے ہیں کہ کشمیری 55 روز سے محصور ہیں، اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں کو اکسایا جائے گا، میں 180 ملین لوگوں کی بات کررہا ہوں، جب وہ شدت اختیار کریں گے تو پھر پاکستان پر الزام آئے گا’۔

انہوں نے کہا کہ ‘جناب صدر! ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اس چیز کو دیکھ رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں یہ صرف کشمیر میں ہورہا ہے کیونکہ کشمیری مسلمان ہیں، کشمیری ہندووں کے ساتھ ایسا نہیں ہورہا ہے، وہ جانتے ہیں کہ مذہب کی وجہ سے یہ ہورہا ہے تو پھر وہ کیا سوچتے ہوں گے’۔

وزیراعظم نے کہا کہ ‘آپ کیا سمجھتے ہیں 80 لاکھ کو بھول جائے جب 8 ہزار یہودی اس طرح محصور ہوں تو یہودی برادری کیا سوچے گی، یورپی کیا سوچیں گے، اگر کسی برادری کے لوگ اس طرح محصور ہوں تو وہ کیا کریں گے کیا انہیں درد نہیں ہوگا’۔

اقوام متحدہ کو خبردار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘پھر اس کے بعد کیا ہوگا میں بتاتا ہوں، ایک ارب 30 کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی ہتھیار اٹھائے گا، میں مغربی فملوں میں دیکھ چکا ہوں جس میں ایک سمجھدار لڑے کو انصاف نہیں ملتا ہے اور بندوق اٹھانے کا فیصلہ کرتا ہے اور انصاف کی تلاش شروع کرتا ہے، نیویارک کی مشہور فلم ڈیتھ وش میں ڈاکو ایک لڑکے کی بیوی یا اہل خانہ کو مارتے ہیں اور اس کو انصاف نہیں ملتا اور وہ بندوق اٹھاتا ہے اور ڈاکووں کو مارنے نکلتا ہے پھر پورا سنیما تالیاں بجاتا ہے’۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ‘تو آپ کیا سمجھتے ہیں مسلمان اس وقت کیا سوچتے ہیں، اگر کوئی خون ریزی ہوئی تو مسلمان شدت پسند ہوں گے وہ اسلام کی وجہ سے نہیں بلکہ جو کچھ وہ دیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کو انصاف نہیں ملتا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ایک روہنگیا مسلمان ہیں، میانمار سے تقریباً 10 لاکھ مسلمان باہر ہیں اور وہ شدت پسندی کا شکار ہیں، اس پر عالمی برادری کا کیا جواب تھا تو آپ کیا سجھتے ہیں کہ ایک ارب 30 کروڑ مسلمان کیا سوچتے ہوں گے’۔

وزیراعظم عمران خان نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ‘میں خود کو مثال بناتا ہوں، میں کشمیر میں ہوں اور مجھے 55 روز سے محصور کیاگیا ہے، میں سنتا ہوں ریپ کے حوالے سے، بھارتی فوج گھروں میں گھس رہی ہے تو کیا میں اس ذلت میں رہنا چاہوں گا، کیا میں اس طرح رہنا چاہوں گا، میں ہتھیار اٹھاؤں گا، آپ لوگوں کو انتہاپسندی کے لیے مجبور کررہے ہیں، جب لوگ امید کھو دے دیتے ہیں’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر آپ انسانوں کے ساتھ ایسا کرسکتے ہیں تو درحقیقت آپ لوگوں کو انتہا پسند بنارہے ہیں’۔

موسمیاتی تبدیلی

وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ مجھے خوشی ہے آج ہم یہاں مسائل پر بات کرنے کے لیے جمع ہیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ میں سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی سے اپنے خطاب کا آغاز کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں تیزی سے گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق 5ہزار گلیشیئر پگھل چکے ہیں اور اگر ہم نے اس مسئلے کی طرف ہنگامی بنیادوں پر توجہ نہ دی تو دنیا ایک بڑی تباہی سے دوچار ہو جائے گی۔

وزیراعظم نے کہا کہ جب ہماری جماعت خیبر پختونخوا میں اقتدار میں آئی تو ہم نے ایک ارب درخخت لگائے لیکن ایک ملک کچھ نہیں کر سکتا اور اقوام متحدہ اور دنیا کے امیر ممالک کو فوری طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

دوسرا مسئلہ زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ ہر سال غریب ملکوں سے اربوں ڈالر نکل کر امیر ملکوں کے بینکوں میں پہنچ جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک تباہ ہو رہے ہیں، منی لانڈرنگ اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ پیسے امیر ملکوں سے نکل کر امیر ملکوں میں پہنچ جاتے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ ہماری حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل ہمارے قرضے گزشتہ 60سال میں لیے گئے قرضوں کے مقابلے میں 4گنا بڑھ گئے تھے اور ایسے میں ہم 22کروڑ لوگوں کی خدمت کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں چند خاندان حکمران تھے جو کرپشن کر کے اپنے پیسے باہر بھیج دیتے تھے۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امید ہے کہ اس حوالے سے اقوام متحدہ قیادت کرے گی۔

اسلامو فوبیا

اپنے تیسرے خطاب میں انہوں نے کہا کہ یہ اسلاموفوبیا ہے جو نائن الیون کے بعد بڑھا اس حوالے سے عالمی برادری کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چند ممالک مین حجاب کو ہتھیار سمجھا جاتا ہے یہ اس لیے کیونکہ اسلاموفوبیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامو فوبیا سے تقسیم ہو رہی ہے، خواتین حجاب پہن رہی ہیں لیکن چند ملکوں میں اس پر پابندی ہے اور انہیں اس سے مسئلہ ہے، کچھ ملکوںمیں کپڑے اتارنے کی تو اجازت ہے لیکن پہننے کی نہیں، اس اسلاموفوبیا کا آغاز 9/11 کے بعد ہوا۔

عمران خان نے کہا کہ دنیا میں کوئی ریڈیکل اسلام نہیں، اسلامی دہشت گردی نام کی کوئی چیز نہیں، صرف ایک اسلام ہے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے، دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔

وزیراعظم نے کہا کہ چند مغربی ممالک کے رہنما اس حوالے سے متضاد باتیں کرتے ہیں جس سے غلط فہمیاں بڑھ جاتی ہیں حالانکہ اسلام صرف ایک ہے اس میں کوئی درجے نہیں ہیں۔

انہوں نے بدقسمتی سے اسلامو فوبیا متعدد رہنماؤں کی وجہ سے پھیل رہا اور اس کی وجہ سے مسلمانوں میں مایوسی ہے اور دہشت گردی کو اسلام سے جوڑا جاتا ہے۔

عمران خان نے کہا کہ نائن الیون کے بعد چند وجوہات کے باعث دہشت گردی کو مسلمانوں سے جوڑا گیا حالانکہ نائن الیون سے قبل اکثر خود کش حملوں کا تعلق تامل ٹائیگرز کرتے تھے لیکن کسی نے اس کو ہندووں سے نہیں جوڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ 9/11 حملوں کے بعد یہ سمجھ لیا گیا کہ خودکش بمبار مسلمان ہوتے ہیں لیکن دنیا میں کسی نے بھی یہ تحقیق نہیں کی کہ خود کش حملے سری لنکا میں تامل نے کیے جن کا مذہب ہندو تھا لیکن اس کے لیے ہندو مذہب کو بنیاد قرار نہیں دیا جا سکتا اور اسی اسی طرح جنگ عظیم میں جاپان کے طیاروں نے خودکش حملے کیے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے کیریئر کے دوران انگلینڈ میں وقت گزارا ہے اور مغربی ممالک ان معاملات کو نہیں سمجھتے، مغرب میں مذہب کو بالکل الگ نظر سے دیکھا جاتا ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ ہمارے لیے مذہب کیا حیثیت رکھتا ہے لہٰذا جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی تو اس کا ردعمل سامنے آیا اور اس کے نتیجے میں یہ تصور کر لیا گیا کہ اسلام عدم برداشت پر مبنی مذہب ہے۔

عمران خان نے کہا کہ دنیا میں پہلی فلاحی ریاست کی بنیاد مدینہ میں دالی گئی جس میں کمزوروں کے حقوق خیال رکھا گیا اور امیروں پر ٹیکس عائد کر کے غریبوں کو سہولیات فراہم کی گئیں، اس مذہب میں سب برابر ہیں اور غلاموں نے بادشاہت کی۔

انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آزادی اظہار کو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک اور توہین کے لیے استعمال نہ کیا جائےے کیونکہ اس سے ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔

مقبوضہ کشمیر

وزیراعظم نے کہا کہ یہ معاملہ بہت سنجیدہ ہے اور یہ میرا اہم مقصد ہے لیکن پہلے میں واضح کرنا چاہتاہوں کہ میں جنگ کے خلاف ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور فوج نے مجاہدین کی مدد کی جس کی معاونت دیگر ممالک نے کی جن میں خاص کر امریکا شامل ہے اور ان مجاہدین کو روس نے دہشت گرد کہا لیکن ہمارے لیے وہ فریڈم فائٹر تھے اور جب امریکا افغانستان میں آیا تو ہم اس کے اتحادی تھے۔

انہوں نے کہا کہ اس جنگ میں ہمارے 70 ہزار افراد جاں بحق ہوئے اور معاشی حوالے سے اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔

بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ باہمی مسائل پر بات کرنے کے لیے تیار تھے اور میں نے وزیراعظم نریندر مودی سے بھی کہا لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی شدت پسند تنظیم نہیں لیکن بھارت ہم پر الزام لگا رہا ہے، ہم نے حکومت میں آنے کے بعد ان گروپس کے خلاف کارروائی کی اور اب وہاں اس طرح کے کوئی گروپس نہیں اور اس بات کو ثابت کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے مبصر گروپ کو دعوت دی تھی، یہ دہشت گرد گروپس کسی کے حق میں نہیں کیونکہ اس سے ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ اور کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

عمران خان نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ پاکستان سے ان پر حملے ہو رہے ہیں لیکن میں نے کہا کہ آپ کی سرزمین سے ہمارے بلوچستان میں حملے کیے جا رہے ہیں جس کا ثبوت بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مبقوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں اور 5 اگست سے مقبوضہ کشمیرمیں 80 لاکھ لوگوں کو محصور کردیاگیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے بھارت میں آر ایس ایس کی حکمرانی ہے جو ہٹلر کے نظریے کی حامی ہے اور مودی کی وزارت اعلیٰ کے نیچے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں جب کرفیو ہٹالیا جائے گا اور لوگ باہر آئیں گے جہاں 9 لاکھ فوجی تعینات ہیں اس صورت میں خون ریزی کا خطرہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں سیکڑوں سیاسی رہنماؤں اور نوجوانوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور کشمیر میں لوگوں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جارہا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کے دورے کا سب سے اہم مقصد مشن کشمیر ہے کیونکہ بھارت نے 5 اگست سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں کرفیو نافذ کیا ہوا ہے۔

بھارت نے 5 اگست کو مقبوضی کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا، ساتھ ہی اس اقدام سے کچھ گھنٹوں قبل وہاں پہلے سے موجود لاکھوں کی تعداد میں فوج میں بھی اضافہ کردیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ بھارت نے وادی میں کرفیو اور مکمل لاک ڈاؤن کردیا تھا جو تاحال جاری ہے جبکہ موبائل، انٹرنیٹ سمیت تمام مواصلاتی نظام معطل کردیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ بھارت نے ہزاروں مقبوضہ کشمیر کے عوام کو گرفتار کیا تھا جبکہ حریت قیادت سمیت مقبوضہ وادی کے سابق وزرائے اعلیٰ کو بھی نظر بند و گرفتار کرلیا تھا۔

وزیراعظم کی مصروفیات

7 روزہ دورے پر امریکا جانے والے عمران خان نے صرف مسئلہ کشمیر ہی نہیں بلکہ اپنے دورے میں بہت سے اہم معاملات جیسے افغان امن عمل، ایران اور امریکا تنازع، خلیج کی صورتحال، اسلاموفوبیا و دیگر اہم امور پر عالمی فورمز سے خطاب اور رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

وزیراعظم امریکی قانون سازوں، اسکالرز، انسانی حقوق کے کارکنوں، میڈیا نمائندوں، عالمی سربراہان سمیت دیگر اہم شخصیات سے مل چکے ہیں جبکہ میڈیا کو بھی مختلف انٹرویوز دیے ہیں۔

اگر ان کے اب تک کے شیڈول پر نظرڈالیں تو 21 ستمبر کو وزیراعظم امریکا پہنچے تھے، جہاں انہوں نے کشمیر اسٹڈی گروپ کے بانی کاتھواری سے ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے ان پر زور دیا تھا کہ وہ دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے غیر قانونی قبضے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق آگاہ کرتے رہیں تاکہ وہ مودی حکومت کا اصل چہرہ دیکھ سکیں۔

بعد ازاں ہفتے کو عمران خان نے افغان امن عمل کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد سے ملاقات کی تھی، اس کے علاوہ وزیراعظم نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکریٹری جنرل کومی نائیڈو سے بھی تبادلہ خیال کیا تھا اور ان سے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بات چیت کی گئی تھی۔

اپنے دورے کے دوسرے روز وزیراعظم نے امریکی قانون سازوں، اسکالرز، انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا نمائندگان سے ملاقاتیں کیں تھیں اور انہیں متنازع وادی کشمیر سے متعلق بھارتی اقدامات کے نقصانات سے آگاہ کیا تھا۔

23 ستمبر کو وزیراعظم کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہوئی تھی، یہ ملاقات وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد دوسری ملاقات تھی۔

اس ملاقات کے بعد دونوں شخصیات نے پریس کانفرنس بھی کی تھی اور امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر ثالثی کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسئلہ کشمیر طویل عرصے سے حل طلب ہے اور اگر دونوں ممالک چاہیں تو ثالثی کے لیے تیار ہوں۔

اسی روز وزیراعظم نے برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن سے بھی ملاقات کی تھی، دونوں رہنماﺅں نے باہمی، علاقائی اور دوطرفہ دلچسپی کے کئی امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

عمران خان نے برطانوی وزیراعظم کو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے آگاہ کیا تھا اور اس بات پر زور دیا تھا کہ عالمی برادری انسانی حقوق اور انسانی صورتحال کی سنگینی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔

اپنے دورے میں وزیراعظم نے امریکی تھنک ٹینک فار فارن ریلیشنز میں بھی گفتگو کی تھی اور نائن الیون کے بعد امریکا کا اتحادی بننا پاکستان کی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس جنگ میں 70 ہزار پاکستانی جاں بحق ہوئے اور معیشت کو 200 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔

بعد ازاں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزیراعظم نے ہمسایہ ملک ایران کے صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کی تھی اور علاقائی صورتحال سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران مسلم دنیا کے اہم سربراہان ترک صدر رجب طیب اردوان اور ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے بھی ملاقات کی تھی۔

ملاقات میں وزیراعظم نے ترک صدر کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی عوام کو درپیش صورتحال کی جانب مبذول کروائی، ترک صدر نے اس موقع پر وزیراعظم کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا تھا۔

بعد ازاں ترک صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسئلہ کشمیر کا معاملہ اٹھایا تھا اور کہا تھا کہ 80 لاکھ لوگ وہاں محصور ہیں۔

اپنے دورے میں وزیراعظم عمران خان سے چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی نے بھی ملاقات کی اور تنازع کشمیر سمیت پاکستان کے اہم مفادات کے تحفظ و فروغ کے لئے چین کی مکمل حمایت کے عزم کا اعادہ کیا۔

23 اور 24 اگست کے درمیان ہی عمران خان نے نیویارک میں عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ میلپس سے بھی ملاقات کی تھی اور پاکستان کے معاشی ترقی کے امور پر تبادلہ خیال کیا تھا جبکہ سوئس کنفیڈریشن کے صدر اولی مارر سے بھی وزیراعظم نے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں 50 روز سے جاری کرفیو اور دیگرپابندیاں فوری طورپر ختم کرنے کی ضرورت پر زوردیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ وزیراعظم نے 25 ستمبر کو نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن سے بھی ملاقات کی تھی، جس میں دونوں رہنماؤں نے دنیا بھر میں ابھرتے ہوئے مسلمان مخالف جذبات اور اسلاموفوبیا جیسے مسائل پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا تھا۔

اسی روز رات کو وزیراعظم نے نیویارک میں وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی کے ساتھ نیوز کانفرنس کی تھی اور کہا تھا کہ ‘بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کررکھا ہے جہاں 9 لاکھ فوج تعینات ہے اور کرفیو کے خاتمے کے بعد قتل عام کا خدشہ ہے’۔

علاوہ ازیں وزیراعظم نے بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن کے سربراہ بل گیٹس سمیت وفد سے ملاقات کی تھی اور فاؤنڈیشن نے پاکستان کو آئندہ برس ‘احساس پروگرام’ پر عملدرآمد کے لیے 20 کروڑ ڈالر فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے وال اسٹریٹ جنرل کے ادارتی بورڈ اور ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کینتھ روتھ سے بھی نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس کے موقع پر ملاقات کی تھی۔

اسی روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے دوران ترکی اور پاکستان کے تعاون سے منعقدہ ’نفرت انگیز گفتگو‘ کے خلاف کانفرنس بھی منعقد کی گئی تھی، جس میں وزیراعظم نے ہشت گردی اور خود کش حملوں کو مذہب سے جوڑنے کو بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ مغربی ممالک توہین رسالت اور دہشت گردی سے اچھی طرح آگاہ نہیں ہیں اور ہر چند سال بعد پیغمبراسلام ﷺ کے حوالے سے کوئی گستاخی کی جاتی ہے۔

مزید براں پاکستان سمیت مسلم دنیا کے دو اہم ممالک ترکی اور ملائیشیا نے ایک ساتھ مل کر اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے انگریزی چینل شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

26 ستمبر کو عمران خان نے اپنے دورے میں اقوام متحدہ کے تحت ترقی کے لیے فنڈنگ اور نیویارک میں ایشیا سوسائٹی سے بھی خطاب کیا تھا۔