URDUSKY || NETWORK

سینیٹر کا ’الزام‘ بے بنیاد قرار

60

پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’قومی ادارے کے سربراہ کے بارے میں سینیٹر میر حاصل بزنجو کا بیان سراسر بے بنیاد ہے‘۔

سینیٹ چیئرمین کے خلاف اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار حاصل بزنجو کے متنازع بیان پر پاک فوج کا ردِ عمل سامنے آگیا۔

ایوانِ بالا میں اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور حکومت کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کے جمع کروائی گئی تحریک عدم اعتماد پر گزشتہ روز (جمعرات کو) خفیہ رائے شماری کی گئی تھی۔

اس سے قبل سینیٹ میں اکثریت ہونے کے سبب اپوزیشن کی جانب سے ایوان میں 64 اراکین کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا جارہا تھا۔

تاہم خفیہ رائے شماری کے نتیجے میں چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، دونوں کے خلاف لائی گئیں تحاریک عدم اعتماد ناکامی سے دوچار ہوگئیں تھیں۔

حاصل بزنجو کا متنازع بیان

اجلاس کے بعد ایک صحافی نے سینیٹر حاصل بزنجو سے سوال کیا کہ ’رات عشائیے میں آپ نے کہا تھا کہ آپ کو 64 اراکین کی حمایت حاصل ہے تو خفیہ رائے شماری کی نتیجے میں کم ہونے والے 14 اراکین کون ہیں؟‘

جس کے جواب میں سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا تھا کہ ’یہ جنرل فیض کے لوگ ہیں، جنرل فیض آئی ایس آئی کے چیف ہیں اور یہ ان کے لوگ تھے’۔

یاد رہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ سیاستدانوں کی جانب سے جمہوری اداروں میں مداخلت کا ذمہ دار قومی اداروں کو قرار دیا گیا ہو، اس سے قبل 2018 کے انتخابات میں بھی قومی اسمبلی کی موجودہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنی شکست کا ذمہ دار قومی اداروں کو ہی قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) سمیت اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے دیگر جماعتوں نے نیشنل پارٹی پاکستان کے صدر اور بلوچستان کے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل بزنجو کو مشترکہ طور پر چیئرمین سینیٹ کے لیے نامزد کیا تھا۔

بعدازاں میر حاصل بزنجو نے ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’آج کا دن پاکستان کی جمہوری تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا‘۔

اپنے پیغام میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چاہے حکومتی یا اپوزیشن کی بینچز ہوں، یہ ہر اس فرد کا نقصان ہے جو جمہوری جدوجہد پر یقین رکھتا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہارس ٹریڈنگ کا یہ اقدام جس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی، آپ کو اور ہمیں مساوی طور پر خوفزدہ رکھے گا‘۔

تحریک عدم اعتماد پر کیا ہوا؟

خیال رہے کہ اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق کی جانب سے چیئرمین سینیٹ کے خلاف پیش کی گئی قرارداد پر 64 اراکین نے حمایت کی تھی جس کے بعد تحریک عدم اعتماد پر خفیہ رائے شماری کی گئی۔

سینیٹ میں جماعتوں کی نمائندگی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایوان میں 30 اراکین کے ساتھ اکثریت ہے، پی پی پی 20 اور پی ٹی آئی 17 اراکین کے ساتھ بالترتیب دوسری اور تیسری پوزیشن پر ہیں، جس کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے 11، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کے 6، نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے 5، 5 پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے 2، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے پاس ایک، ایک رکن ہے، اس کے علاوہ 5 اراکین آزاد حیثیت میں موجود ہیں۔

دوسری جانب صادق سنجرانی کی حمایت میں حکومتی اتحاد کے پاس 40 اراکین تھے جن میں بی این پی مینگل کا ایک رکن بھی شامل تھا جبکہ اپوزیشن اتحاد کو 64 اراکین کی صورت میں واضح برتری حاصل تھی۔

تاہم تحریک عدم اعتماد کے حق میں محض 50 ووٹ جبکہ مخالفت میں 45 ووٹ ڈالے گئے اور 5 ووٹ مسترد ہوئے لہٰذا منظوری کے لیے مطلوبہ 53 ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے قرارداد مسترد کردی گئی۔

اجلاس کے دوران 100 سینیٹرز ایوان میں موجود تھے جنہوں نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیا تھا جبکہ مسلم لیگ (ن) کے چوہدری تنویر ملک سے باہر ہونے کی وجہ سے ایوان میں حاضری یقینی نہ بناسکے۔

دوسری جانب جماعت اسلامی کی جانب سے ووٹنگ کے عمل پر غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کرنے کے بعد اس کے 2 سینیٹرز بھی ایوان میں نہیں آئے تھے۔

قبل ازیں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر میر حاصل خان بزنجو اس حوالے سے کہا تھا کہ ’میں اس ہی وقت جیت گیا تھا جب اپوزیشن نے مجھے نامزد کیا تھا۔۔

اپنی کامیابی کے لیے پُر امید میر حاصل خان بزنجو نے صادق سنجرانی کو ووٹنگ سے قبل چیئرمین سینیٹ کا عہدہ چھوڑنے کی بھی تجویز پیش کی تھی۔