URDUSKY || NETWORK

ایل این جی کیس: شاہد خاقان عباسی 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

42

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کیس میں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے نائب صدر شاہد خاقان عباسی کو 13 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

ایل این جی کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے شاہد خاقان عباسی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش کرکے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی۔

دوران سماعت نیب نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

عدالت میں سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘ میں نیب کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہوں پھر بھی گرفتار کیا گیا’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے پتہ ہے کہ یہ کیوں ریمانڈ مانگ رہے ہیں، آپ انہیں 90 روز کا ریمانڈ دے دیں’، جس پر جج محمد بشیر کا کہنا تھا کہ قانوں کے مطابق ایک بار میں 90 روز کا ریمانڈ نہیں دے سکتے۔

بعد ازاں عدالت نے شاہد خاقان عباسی کا 13 روزہ ریمانڈ منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ شاہد خاقان عباسی کو گزشتہ روز ایل این جی کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔

نیب کی جانب سے 16 جولائی کو شاہد خاقان عباسی کے ایل این جی کیس میں وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے تھے۔

نیب نے سابق وزیرپیٹرولیم شاہد خاقان عباسی کو تفتیش کے لیے طلب کر رکھا تھا لیکن وہ پیش نہیں ہوئے تھے اس سے قبل نیب نے انہیں 8 مرتبہ طلبی کے نوٹس جاری کیے جس میں سے وہ 5 نوٹسز پر تفتیش کے لیے پیش ہوئے۔

شاہد خاقان عباسی مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں وزیر پیٹرولیم تھے جبکہ پاناما کیس میں میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد انہیں وزیراعظم بنادیا گیا تھا۔

ایل این جی کیس

یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن کیس کمپنی لمیٹٰڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔

نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمنل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔

2016 میں مسلم لیگ (ن) کی دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی تھی۔

رواں برس 2 جنوری کو ای بی ایم نے اس وقت شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔

تاہم شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی برآمد وقت کی اہم ضرورت تھی۔

مارچ میں سابق وزیر اعظم ایل این جی کیس میں نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے، جس کے بعد احتساب کے ادارے نے ان پر سفری پابندی لگانے کی تجویز دی تھی۔

جس کے بعد رواں برس اپریل میں حکومت نے36 ارب 69 کروڑ 90 لاکھ روپے مالیت کے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل سمیت 5 افراد کے بیرونِ ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کی تھی۔

سابق وزیراعظم گزشتہ ماہ (جون ) میں بھی تفتیش کے لیے نیب میں پیش ہوئے تھے جس کے بعد نیب نے شاہد خاقان عباسی کو ان کے خلاف جاری تفتیش کے پیشِ نظر بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے وزارت داخلہ کو خط لکھا تھا۔

تاہم شاہد خاقان عباسی نے نیب کی جانب سے مزید ریکارڈ طلب کیے جانے پر مہلت طلب کی تھی اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ متعلقہ ریکارڈ ان کے پاس نہیں بلکہ وزارت پیٹرولیم کے پاس ہے۔