URDUSKY || NETWORK

پروین شاکر

167

پروین شاکر

26 دسمبر کو پروین شاکر کی پندرہویں برسی

پروین شاکر

اسلام آباد: محبت کی خوشبو کو شعروں میں سمونے والی شاعرہ پروین شاکر کی پندرہویں برسی ہفتے کے روز منائی گئی۔بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد نسائی شاعری کی ایک نئی شناخت طلوع ہوئی۔ پروین شاکر اس منظر نامے پر ماہِ تمام کی طرح چمکتی نظر آتی ہیں۔ پروین سے پہلے کسی شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اتنی نزاکت سے بیان نہیں کیا۔

پروین شاکر اردو کی منفرد لہجے کی شاعرہ تھیں۔ پروین شاکر استاد اور سرکاری ملازم بھی رہیں۔پروین شاکر چوبیس نومبر 1952ء میں کراچی، پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ انگلش لٹریچر اور زبانی دانی میں گریجوایشن کیا۔
آپ سرکاری ملازمت شروع کرنے سے پہلے نو سال شعبہ تدریس سے منسلک رہیں، اور 1986ء میں کسٹم ڈیپارٹمنٹ ، سی۔بی۔آر اسلام آباد میں سیکرٹری دوئم کے طور پر اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔
1990میں ٹرینٹی کالج جو کہ امریکہ سے تعلق رکھتا تھا تعلیم حاصل کی اور 1991ء میںہاورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ پروین کی شادی ایک ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی۔ جس سے بعد میں طلاق لے لی۔ 26دسمبر 1994 کو ٹریفک کے ایک حادثے میں اسلام آباد میں ، بیالیس سال کی عمر میں مالک حقیقی سے جا ملیں۔ ان کے بیٹے کا نام مراد علی ہے۔
شاعری:
انکی شاعری کا موضوع محبت اور عورت ہے۔
کتابیں:
خوشبو، صدبرگ، خودکلامی، انکار اور ماہ تمام مجموعہ کلام ہیں۔
ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
پروین نے الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں نسائی انا،خواہش اور انکار کو شعر کا روپ دیا۔ان کی شاعری میں روایت سے انکار اور بغاوت بھی نظر آتی ہے۔
ایک لمحے کی توجہ نہیں حاصل اس کی
اور یہ دل کہ اسے حد سے سوا چاہتا ہے
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی
پروین کی شاعری کلیوں کی مسکراہٹ، چڑیوں کی چہکار، بارش کی کن من، ہجر و فراق کے گیتوں اور بہار کی سرگرشیوں سے عبارت ہے۔انہوں نے اپنی شاعری میں صنف نازک کے جذبات کی تصویریں بنائیں اور اس کے دکھوں اور کرب کو نظموں میں ڈھالا۔
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
میری طلب تھا ایک شخص، وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
پروین شاکر جہاں زندگی،رنگ اور خوشبو سے اپنی تمام تر سچائیوں کے ساتھ محبت کرتی رہیں ،وہیں انہیں اپنی موت کا بھی یقین تھا اور بہت پختہ یقین۔
موت کی آہٹ سنائی دے رہی ہے دل میں کیوں
کیا محبت سے بہت خالی یہ گھر ہونے کو ہے
تیرے پیمانے میں گردش نہیں باقی ساقی
اور تری بزم سے اب کوئی اٹھا چاہتا ہے
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے
واقعی پروین شاکر نے ٹھیک کہا تھا۔ ان کو ہم سے بچھڑے پندرہ برس بیت گئے مگر ان کی شاعری خوشبو کی طرح کو بہ کو پھیل چکی ہے۔

بشکریہ آج