URDUSKY || NETWORK

پیغمبر امنﷺ کی تعلیمات امن

135

اللہ تعالیٰ نے پیغمبر امن حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو اپنے پسندیدہ ترین دین اسلام کا وارث بنا کر دنیا میں مبعوث فرمایا مگر !
زمانے کی ستم ظریفی دیکھیں:جو مذہب انسانیت کو تاریکیوں سے نکال کر دنیا کو بقعہ نور بنانے کیلئے آیا جو رسول کفر و شرک اور قتل و خونریزی کا خاتمہ کر کے دنیا کو امن و امان ،شانتی اور سلامتی کا گہوارہ بنانے کیلئے مبعوث ہوا اور انتہائی قلیل عرصے میں اپنے مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچا کر روئے زمین کو امن و حفاظت، اخوت و محبت اور عدل و انصاف کی آماجگاہ بنا دیا ۔آج اس مذہب کو ، اس رسولﷺ کو ،اس کی بتائی ہوئی تعلیمات کو ،اس پر اتارے گئے قرآن وپاک اور اس کے ماننے والے مسلمانوں کو ظلم و زیادتی ،تشدد و بربریت ،خوف و دہشت  اور نفرت و عداوت کا پلندہ قرار دیا جا رہا ہے ۔اس میں جہاں تعصب ،علاقائیت اور قومیت کا دخل ہے وہیں ایک  خاصی تعداد دین اسلام، پیغمبر اسلام اور تعلیمات اسلام سے ناواقف ہے ۔اس لئے ضرورت ہے کہ اس موضوع پر توجہ دی جائے اور شہنشاہ امن ﷺ کے ارشادات اور ان کی ہدایات کو منظرعام پر لایا جائے اور پورے ماحول کی منظر کشی کی جائے تاکہ سمجھنے والوں کے لئے سہولت اور ماننے والوں کے لئے آسانی پیدا ہو اور رحمت عالمﷺ کا امن و سلامتی کی عظیم شخصیت ہونا واضح ہو جائے ۔
بعثت نبویﷺ سے پہلے انسانیت کی حالت زار:چھٹی صدی عیسوی میں دنیا کے بڑے مذاہب ،قدیم مذہبی صحیفے اور ان کے احکام و قوانین جنہوں نے مذہب ،اخلاق اور علم کے میدان میں مختلف موقعوں پر اپنا مخصوص کردار ادا کیا تھا ۔بازیچہ اطفال بن چکے تھے اور پوری انسانیت تباہی و بربادی کے راستے پر تیزی کے ساتھ گامزن تھی ۔انسان اپنے خالق و مالک کو بھول چکا تھا اور روح و قلب کی غذا، اخروی فلاح ،انسانیت کی خدمت اور اصلاح حال کے لئے اس کے پاس ایک لمحہ باقی نہیں تھا ۔ مشرکین عرب جن کا دعویٰ تھا کہ ہم دین ابراہیم علیہ السلام پر ہیں ۔شریعت ابراہیمی علیہ السلام سے کوسوں دور تھے ۔ان میں گناہوں کی بھر مار تھی اور طول زمانہ کے سبب بت پرستی کی وہی عادات و رسوم پیدا ہو چکی تھیں جنہیں دینی خرافات کا درجہ حاصل ہے ۔جس نے ان کی اجتماعی ،سیاسی اور دینی زندگی پر گہرے اثرات ڈالے تھے ۔قبائلی اور نسلی ،خاندانی اور خونی عصبیت بے حد شدید تھی ۔جنگ ان کی گھٹی میں پڑی تھی ۔ایک دوسرے کو قتل کرنا ایک کھیل اور تفریح تھی ۔حاصل یہ کہ یہ زمانہ تاریخ کا بد ترین دور تھا اور انسانیت کے مستقبل اور ان کی بقاء و ترقی کے لحاظ سے انتہاء درجہ مایوس کن اور ظلمت و انحطاط کی اس آخری منزل پر تھا ۔جہاںاصلاح کی امید ختم ہو جاتی ہے ۔ایک انگریز مصنف سرولیم کہتا ہے کہ :’’ محمدﷺ کے شباب کے زمانے میں جزیرۂ نمائے عرب بالکل ناقابل تغیر تھا ۔شاید اس سے زیادہ ناامیدی کی حالت کسی اور زمانے میں نہ تھی۔‘‘
بعثت نبویﷺ اور انقلاب عظیم:تو کیا اس عالمی ظلمت ،اس عالمگیر تاریکی ،اس وسیع و ہمہ گیر تیرگی میں ایک آفتاب عالم تاب کی حاجت نہ تھی کہ جاہلیت کے مشرکانہ وبت پرستانہ اور انسانیت کے اس مہلک اور تباہ کن ملبہ کو ہٹایا اور صاف کیا جائے ۔پھر اس کی جگہ وہ نئی مستحکم عظیم الشان اور بلند و بالا عمارت قائم کی جائے ۔جس کے سایۂ رحمت میں ساری انسانیت کو پناہ مل سکے ۔ رحمت عالم ﷺ کے احسان کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو ارشاد فرمایا ہے اس سے بڑھ کر اس صورتحال کی کوئی تصویر اور ترجمانی نہیں ہو سکتی ہے ۔ارشاد ربانی ہے :ترجمہ’’ اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو۔ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ۔تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگے کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا ۔‘‘(آل عمران 103)
بنی نو انسان کو پوری تاریخ میں ہمیں اس سے زیادہ نازک کام اور اس سے بڑی ذمہ داری نظر نہیں آتی جو ایک نبی کی حیثیت سے رحمت عالم ﷺ پر ڈالی گئی اور نہ کوئی کھیتی اتنی زر خیز ثابت ہوئی جیسے آپ ﷺ کی ،اور نہ کوئی محنت و کوشش اتنی بار آور ثابت ہوئی جتنا آپ ﷺ کی محنت انسانیت عامہ کے حق میں نفع بخش ثابت ہوئی ۔یہ عجائبات تاریخ کا سب سے بڑا عجوبہ اور دنیا کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ لیمر ٹائن نبوت  محمدی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ’’ انتہائی نامساعد حالات میں اپنے عقائد کو ایک تہائی دنیا سے تسلیم کرالینا بیشک آپ ﷺ کا معجزہ تھا ۔محمد ﷺ کی زبان سے جیسے ہی عقیدۂ توحید کا اعلان ہو ا بتوں کے تمام قدیم معبدوں میں خاک اڑنے لگی اور ایک تہائی دنیا ایمانی حرارت سے لبریز ہو گئی ۔‘‘
رحمت للعالمین ﷺ کا کرشمہ:غرض آپﷺ کی بعثت کے بعد دنیا کی رت بدل گئی ۔انسانوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ۔دلوں میں خدا کی محبت کا شعلہ بھڑکا اور خدا طلبی کا ذوق عام ہوا ۔عرب و عجم ،مصر و شام ،ترکستان و ایران ،عراق و خراسان ،شمالی افریقہ اور اسپین اور بالآخر ہمارا ملک پاک و ہنداور جزائر شرق الہند سب اسی صہبا ئے محبت کے متوالے اور اسی مقصد کے دیوانے نظر آنے لگے ۔انہوں نے دلوں کی سرد انگیٹھیاں گرما دیں ۔ عشق الہٰی کی شمع فروزاں کر دی ۔علوم و فنون کے دریا بہا دئیے۔ جہالت ووحشت اور ظلم و عداوت سے نفرت پیدا کر دی ۔ مساوات کا سبق پڑھایا اور دکھوں کے مارے سماج کے ستائے ہوئے انسانوں کو گلے سے لگالیا ۔آئندہ سطور میں بعض قرآنی ہدایات اور رحمت عالمﷺ کی چند تعلیمات کی روشنی میں مختصر و ضاحت کے ساتھ کچھ انقلاب انگیز اصول پیش کئے جاتے ہیں جو عالمی صلح و امن اور خیرو بہبود کے زبر دست اصول ہیں ۔جس سے معلوم ہو جائے گا کہ پیغمبر اسلام ﷺنے امن و سلامتی کا جو فارمولہ دنیا کے سامنے رکھا ہے اور منفی عناصر کے ازالہ کی خاطر انسانیت کا احترام ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جو پالیسی تیار کی ہے وہ کس قدر جامع اور امن و سلامتی کی ضامن ہے ۔
مساوات:بین الاقوامی اصلاح و امن کے سلسلے میں سب سے پہلا اور بنیادی امر یہ ہے کہ روئے زمین پر بسنے والے تمام انسانی گروہوں ،جماعتوں اور قوموں کو اصولی اعتبار سے مساوی تسلیم کیاجائے اور اس مساوات کو عملی لباس پہنانے میں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی جائے ۔اگر چہ کسی کا عقیدہ کچھ ہو ۔جو کتاب حق رحمت دو عالم ﷺ پر نازل ہوئی اس میں انسانی مساوات کا اعلان موجود ہے :ترجمہ’’ لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم پہچان لئے جائو ۔ یقینا تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی اور پرہیزگار ہو ، بے شک خدا دانا اور واقف کار ہے ۔‘‘(حجرات 13)
پیغمبر امن رحمت عالم ﷺ نے فتح مکہ کے بعد حرم پاک میں جو خطبہ ارشاد فرمایا تھا ان میں مخاطب وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف اکیس برس تک ظلم و تعدی کا کوئی بڑے سے بڑا طوفان بپا کرنے میں کسر نہیں اٹھا رکھی تھی اور شاید ہی کوئی سینہ یا چہرہ ہو جو مخاطبین کی برچھیوں ،تلواروں اور تیروں سے جراحت زا ر نہیں بن چکا تھا ۔تاہم رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:’’آج تم پر کوئی الزام نہیں ۔تم سب آزاد ہو ۔‘‘ نیز فرمایا:’’ اے قریش!جاہلیت کا غرور اور نسب کا افتخار خدا نے مٹا دیا۔ تمام لوگ آدم کی نسل سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے ۔پھر مذکورہ آیت تلاوت فرمائی ۔اس سے مزید توثیق ہوتی ہے کہ یہ آیت مساوات انسانی کی بنیاد ہے ۔‘‘
اکرامیت کی بنیاد:پھر دیکھیں کہ انسانوں کی عزت و اکرامیت کی اساس دولت ،رنگ ،خون ،نسل ،قوم یا کوئی خاص جغرافیائی خطہ نہیں ،بلکہ صرف تقویٰ اور حسن عمل ہے ۔محض نیکوکاری ،حق پرستی اور خلق دوستی درکار ہے ۔جس کی فراوانی سے روئے زمین امن و سلامتی کا بہشت زار بن جائے گی ۔
دین میں کوئی جبر نہیں ہے :ایک انقلاب انگیز اصول یہ ہے ’’لا اکراہ فی الدین ‘‘(سورہ بقرہ 256)دین کے بارے میں کوئی جبر نہیں ۔انسانی ظلم و ستم کے جو خونچکاں واقعات تاریخ کے صفحات پر منقوش ہیں ۔ان میں سے تین چوتھائی صرف جبر و تشدد کا نتیجہ ہے جو ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے بے دریغ روارکھے ۔یہ حقیقت بالکل عیاں ہے کہ جبر و اکراہ سے انسانی جسم کو اپنی مرضی کے مطابق جھکایا جا سکتا ہے ۔مگر دل میں اعتقاد و ایمان کا چراغ روشن نہیں کیا جا سکتا ۔جبر و تشدد سے تو دلوں میں نفرت و کراہت کی آگ مشتعل ہوتی ہے ۔
عدل پر ستی:ایک انقلاب انگیز اصول یہ ہے :ترجمہ’’ اے ایمان والو! اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے کو مضبوطی سے کھڑے ہو جائو اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ اس سے انصاف نہ کرو۔ہر حال میں انصاف کرو۔ یہی تقویٰ سے لگتی ہوئی بات ہے اور اللہ کی نافرمانی کے نتائج سے ڈرو ۔ اللہ کو خوب خبر ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔‘‘(سورۃ المائدہ8)
’’قوانین‘‘میں حقوق اللہ کی طرف اور’’شھداء بالقسط‘‘ میں حقوق العباد کی طرف اشارہ ہے اور عدل کا مطلب ہے کسی کے ساتھ بدون افراط و تفریط وہ معاملہ کرنا جس کا وہ واقعی مستحق ہے ۔عدل و انصاف کی ترازو ایسی صحیح اور برابر ہونی چاہئیے کہ عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑے کو جھکانہ سکے ۔فتح خیبر کے بعد وہاں کی زمین نصف پیداوار کی بناء پر یہودیوں کے حوالے کر دی گئی تھی اورحضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو تقسیم کیلئے بھیجا جاتا وہ پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دو انبار لگوادیتے اور یہودیوں سے کہتے کہ جو حصہ چاہوا ٹھا لو ۔تو یہودی کہتے ’’زمین و آسمان ایسے ہی عدل سے قائم ہیں ۔‘‘ جی ہاں مسلمانوں کا وظیفۂ حیات روئے زمین پر یہی ہے اور ایسے ہی اصول حیات عالمی امن کے ضامن ہو سکتے ہیں ۔
نیکی میں تعاون اور بدی سے گریز:ایک انقلاب انگیز اصول یہ ہے :ترجمہ’’جس گروہ نے تمہیں مسجد حرام سے روک دیا تھا اس کی دشمنی تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ اس کے ساتھ زیادتی کرنے لگو۔ (تمہارا دستور العمل تویہ ہونا چاہئے کہ) نیکی اور پرہیز گاری کی ہر ایک بات میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ گناہ اور ظلم کی کسی بات پر تعاون نہ کرو اور اللہ کی نافرمانی کے نتائج سے ڈرو۔ وہ پاداش عمل میں سخت سزا دینے والا ہے ۔‘‘(المائدہ 2)
قریش مکہ نے حدیبیہ میں مسلمانوں کو ادائے عمرہ سے روک دیا تھا ۔جب اختیار کی باغ ڈور مسلمانوں کے ہاتھ میں آئی تو ان پر یہ واضح کر دینا ضروری تھا کہ قریش کی سابقہ زیادتیاں تمہارے لئے زیادتی کا باعث نہ بن جائیں ۔اگر چہ تمہارے خیال میں وہ ان کی زیادتی کا جواب ہی ہو ۔مسلمانوں کا دستور العمل یہ ہے کہ جہاں نیکی اور اچھائی دیکھتا ہے ۔اس کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھاتا ہے اور ظلم و گناہ سے دور رہتا ہے ۔اب سوچیں اور غور کریں ۔اگر دنیا کی تمام قومیں اور جماعتیں یہ دستور العمل اپنا لیں ،نیکی اور خدا ترسی کیلئے مل جل کر کام کریں ،گناہ اور ظلم کو فروغ نہ پانے دیں تو کیا دنیا جلد سے جلد امن و سلامتی کا گہوارہ نہ بن جائے گی؟
راست بازی:ایک انقلاب انگیز اصول یہ ہے:ترجمہ’’ اے ایمان والو! تم انتہائی مضبوطی اور پختگی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لئے سچی گواہی دینے والے ہو جائو کہ اگر وہ گواہی خود تمہارے خلاف یا تمہارے ماں باپ اور قرابت داروں کے بھی خلاف ہو تو ہرگز نہ جھجکو ۔اگر کوئی مالدار یا مفلس ہے تو اللہ تم سے زیادہ ان پر مہربانی رکھنے والا ہے ۔ایسا نہ ہو کہ ہوائے نفس کی پیروی تمہیں انصاف سے باز رکھے ۔اگر تم پوری طرح آگاہ ہو ۔(سورۃ النساء 135)
امن عالم کے ضامن وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو اپنے خلاف یا اپنے انتہائی قریبی رشتہ داروں کے خلاف بھی سچ کہتے ہوئے نہ جھجکیں اور حق و انصاف کے معاملہ میں راست بازی کے اس انتہائی بلند  مقام پر فائز رہیں ۔
بھائیوں کے درمیان مصالحت:ترجمہ’’اور اگر مسلمانوں کے دو فریق آپس میں لڑ پڑھیں تو ان میں صلح کرادو ۔پس اگر ان میں سے ایک زیادتی پر تلا رہے تو اس سے جنگ کرو جو زیادتی کا مرتکب ہے ۔یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو دونوں فریق کے درمیان عدل کے ساتھ صلح کرادو اور انصاف پر استوار ہو ۔ یقینا اللہ کو پسند آتے ہیں انصاف کرنے والے ۔مؤمن باہم بھائی بھائی ہیں ۔پس اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘(سورۃ الحجرات1masjid-nabvi0,9)
دیکھئے قتل و خونریزی کو روکنے کی کتنی عمدہ ،منصفانہ اور مؤثر عملی تدابیر ہیں ۔رحمت عالم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم ۔عرض کیا گیا کہ مظلوم کی مدد تو کی جاسکتی ہے ۔ظالم کی مدد کیونکر ہو سکتی ہے ۔فرمایا اس کا ہاتھ پکڑ کر ظلم سے روکو۔ یہ امن و سلامتی کی پائیداری کے اصول و ضوابط ہیں ۔ان سے جتنا انحراف کیا جائے گا یا ان پر عمل کی زیادہ اچھی صورت اختیار کرنے میں جتنا تامل ہو گا اتنا ہی امن عالم میں اختلال کا دروازہ کھلا رہے گا۔
موجبات اختلال کا انسداد:پھر قوموں اور جماعتوں کے خوشگوار تعلقات میں خلل ڈالنے والا ایک ایک رخنہ بند کیا گیا ۔ مثلاً:’’ ہنسی نہ اڑائیں ایک قوم کے لوگ دوسری قوم کے لوگوں کی۔شاید یہ ان سے بہتر ہوں ۔عیب نہ لگائو ایک دوسرے کو ۔ ‘‘(سورۃ الحجرات 11)چڑانے کی غرض سے ایک دوسرے کے نام نہ رکھو ۔:’’اے ایمان والو! بہت بدگمانیوں سے اجتناب کرو۔ کیونکہ بعض بدگمانیاں گناہ ہیں ۔‘‘(سورۃ الحجرات 12)۔’’اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس خبر لائے تو اسے صحیح سمجھنے سے پیشتر تحقیق کر لیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ خبر سنتے ہی تم نادانی سے دوسری قوم پر جاپڑو ۔پھر کل اپنے کئے پر پچھتانے لگو۔(سورۃ الحجرات 6)
رحمت و شفقت کا ابر گہر بار:پیغمبر امن رحمت عالم ﷺ کے فرمودات کی اساس اور بنیاد معاشرے میں رحمت و محبت کے فیضان عام پر ہے تاکہ رحمت و شفقت اور اخوت و محبت کے فروغ و عمومیت میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو اور تمام افراد بشر کے درمیان اخوت ،خلوص ہمدردی اور یکجہتی کے روابط زیادہ مستحکم ہوں اور امن و امان اور سلامتی و حفاظت کی صورتحال پائیدار ہواس حوالے سے صرف چند ارشادات ذکر کئے جاتے ہیں ۔انہیں پڑھیں اور غو ر کریں کہ بین الاقوامی امن و امان کے تقاضے کی تکمیل کی طرف کتنی بے مثال اور کامیاب ہدایتیں موجود ہیں ۔حضور پر نور شافع یوم النشور ﷺ نے فرمایا:
٭………تمام مخلوق اللہ کا کنبہ اور اس کی عیال ہے ۔لہٰذا سب سے بڑا محبوب اللہ کے نزدیک وہ شخص ہے جو اس کے عیال اور کنبوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے ۔
٭………تم مؤمنوں کو باہم رحم ،محبت اور مہربانیوں میں ایک جسم کے اعضاء کی طرح دیکھو گے ۔جب ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے پورا جسم بے خوابی اور بخار کی صورت بن جاتا ہے ۔
٭……… آپس میں بغض نہ رکھو ۔باہم حسد نہ کرو۔ آپس کے تعلقات نہ توڑو اور اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جائو ۔
٭………کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ اپنے بھائی کے ساتھ تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے ۔(بخاری شریف)
ایک مرتبہ پڑوسیوں کے حقوق کی نشاندہی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ :
٭……..اگر پڑوسی بیمار ہو تو اس کی عیادت اور خبر گیری کی جائے ۔
٭………اگر وہ انتقال کر جائے تو اس کے جنازے کا ساتھ دو یعنی تدفین میں ہاتھ بٹائو ۔
٭……اگر وہ ضرورتمند ہو اور تم میں استطاعت ہو تو اسے قرض دو۔
٭……… اگر وہ برا کام کر بیٹھے تو اس کی پردہ پوشی کرو۔
٭……… اگر اسے کوئی نعمت یا مال ملے تو مبارک باددو۔
٭……… اگر اسے کوئی مصیبت آپڑے تو ہمدردی کا اظہار کرو۔
٭……… اپنے گھر کی عمارت اس طرح بلند نہ کرو کہ پڑوسی کے گھر کی ہوارک جائے ۔
٭……… جب تمہارے گھر میں کوئی اچھا کھانا پکے تو کوشش کرو کہ تمہاری ہنڈیا کی مہک پڑوسی (اور اس کے بال بچوں) تک نہ پہنچے ۔ یہ ان کے لئے باعث ایذا ہو گی یا اپنے اوپر لازم کر لو کہ اس کھانے کا کچھ حصہ پڑوسی کے گھر بھی بھیجیں گے ۔پھر پڑوسیوں کی قسمیں بھی بتائیں۔٭…..غیرمسلم جس کے ساتھ رشتہ داری بھی نہیں کم درجے کا پڑوسی ہے ۔یعنی اس کے بھی حقوق ہیں ۔مگر دوسروں سے کم۔
٭……… مسلم پڑوسی جس کے ساتھ رشتہ داری نہ ہو اس کا درجہ پہلے کے مقابلے میں بلند ہے ۔
٭……… رشتہ دار مسلم پڑوسی یعنی پڑوسی بھی ،مسلم بھی اور رشتہ دار بھی یہ سب سے اونچے درجے پر فائز ہے ۔
اب آپ ارشادات مصطفوی ﷺکی عملی صورت پر غور کریں تو اس کی وسعت اور اثر خیزی کا اندازہ کرنا مشکل ہو جائے گا۔ کیا اب بھی کسی کو داعی اسلام رحمت عالم ﷺ کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔؟کیا اب بھی کوئی پیغمبر امن ﷺ کی تعلیمات کو شدت پسندی سے تعبیر کرے گا؟کیا اب بھی احکاماتِ اسلام کو قتل انسانیت کے مترادف گردانے گا؟ تو پھر کیا ہے ؟ یہی کہ ایسی سوچ رکھنے والے کی عقل چرنے گئی ہو گی ۔ایسے نظریات کا حامل فرد معاشرے میں فتنہ و فساد کا موجب بنے گا۔ کیونکہ امن کی ضامن صرف اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی تعلیمات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں عالمی امن کے لئے دین امن ’’اسلام ‘‘ اور پیغمبر امن ’’حضرت محمد مصطفیٰﷺ‘ سے راہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے)سجادہ نشین مرکزاویسیاں نارووال