URDUSKY || NETWORK

مسجد

84

مسجد

قرآن مجید میں ارشاد بار ی تعالیٰ ہے ؛
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا اللَّهَ ۖ فَعَسَى أُولَئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ (9:18)
خدا کی مسجدوں کو تو وہ لوگ آباد کرتے ہیں جو خدا پر اور روز قیامت پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے اور زکواة دیتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہی لوگ امید ہے کہ ہدایت یافتہ لوگوں میں (داخل) ہوں (9:18)

مسلمانوں کی عبادت گاہ کو مسجد کہتے ہیں۔ عموماً اسے نماز کے لیے استعمال کیا جاتا ہے مگر تاریخی طور پر یہ کئی حوالوں سے اہم ہیں مثلاً عبادت کرنے کے لیے، مسلمانوں کے اجتماع کے لیے، تعلیمی مقاصد کے لیے حتیٰ کہ مسلمانوں کے ابتدائی زمانے میں مسجدِ نبوی کو غیر ممالک سے آنے والے وفود سے ملاقات اور تبادلہ خیال کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ مساجد (مسجد کی جمع) سے مسلمانوں کی اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے بھی جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی طرزِ تعمیر بھی بنیادی طور پر مساجد سے فروغ پایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔مسجد کا مطلب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لفظ ‘مسجد’ کا لغوی مطلب ہے ‘ سجدہ کرنے کی جگہ’۔ اردو سمیت مسلمانوں کی اکثر زبانوں میں یہی لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہ عربی الاصل لفظ ہے۔ انگریزی اور یورپی زبانوں میں اس کے لیے موسک (Mosque) کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اگرچہ بعض مسلمان اب انگریزی اور دوسری یورپی زبانوں میں بھی ‘مسجد’ (Masjid) استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ ہسپانوی لفظ موسکا (Moska) بمعنی مچھر سے نکلا ہے۔ البتہ بعض لوگوں کے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے۔ اہلِ اسلام کے نزدیک ‘مسجد’ سے وہ عمارت مراد ہے جہان نمازِ جماعت ادا کی جاتی ہے۔ اگر مسجد میں نمازِ جمعہ بھی ہوتی ہو تو اسے جامع مسجد کہتے ہیں۔ مسجد کا لفظ قرآن میں بھی آیا ہے مثلاً مسجد الحرام کے ذکر میں بے شمار آیات میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعض دانشوروں کے خیال میں تمام مساجد اصل میں مسجد الحرام ہی کی تمثیل ہیں اگرچہ بعد میں بہت شاندار اور مختلف الانواع طرز ہائے تعمیر پیدا ہوئے جس سے ایک الگ اسلامی طرزِ تعمیر نے جنم لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اولین مساجد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلی مسجد کعبہ تھی۔ کعبۃ اللہ کے ارد گرد مسجد الحرام کی تعمیر ہوئی۔ ایک روایت کے مطابق کعبہ وہ جگہ ہے جہاں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام نے زمین پر عبادت کی تھی۔ اسی جگہ پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہی جگہ مسجد الحرام کہلائی۔ کئی روایات کے مطابق یہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے پہل نمازیں ادا کیں اگرچہ وہاں کعبہ میں اس وقت بت موجود تھے۔ دوسری مسجد ‘مسجد قباء’ تھی جس کی بنیاد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ سے کچھ باہر اس وقت رکھی جب وہ مکہ سے مدینہ ہجرت فرما رہے تھے۔ تیسری مسجد ‘مسجد نبوی’ تھی جس کی بنیاد بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ میں ہجرت کے بعد رکھی اور اس کی تعمیر میں خود بھی حصہ لیا۔ مسجدِ نبوی مسلمانوں کا مذہبی، معاشرتی اور سیاسی مرکز تھا۔ آج مسجد الحرام اور مسجد نبوی مسلمانوں کی مقدس ترین جگہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایشیاء کی مساجد۔۔۔۔۔۔۔
دنیائے عرب سے باہر اسلام کے پھیلنے کے ساتھ ہی مساجد تعمیر ہو گئیں۔ ان میں سے بعض مساجد تیرہ سو سال سے قدیم ہیں۔ 640ء میں مصر کی فتح کے ساتھ ہی مساجد کی تعمیر ہوئی۔ بعد میں وہاں جامعہ الازہر جیسی مساجد تعمیر ہوئیں۔ مصر بعد میں خود ایک عرب علاقہ بن گیا۔ چین، ایران اور ہندوستان میں آٹھویں صدی عیسوی میں ہی مساجد تعمیر ہو چکی تھیں۔ چین میں ژیان کی عظیم مسجد (چینی زبان میں: 西安大清真寺) اور ہوائشنگ کی مسجد (چینی زبان میں: 懷聖寺) تیرہ سو سال پرانی ہیں اور موجودہ چین کے مرکزی علاقے میں واقع ہیں۔ ہوائشنگ کی مسجد چین کا دورہ کرنے والے اسلامی وفد نے630ء کی دہائی میں بنوائی تھی جو اسلام کا عرب میں بھی بالکل ابتدائی دور تھا۔ ایران کی فتح کے بعد ایران، عراق اور موجودہ افغانستان میں اسلام پھیلا تو وہاں مساجد تعمیر ہوئیں جن میں سے کچھ تیرہ سو سال قدیم ہیں۔ ہندوستان میں پہلے سندھ اور بعد میں دیگر علاقوں میں آٹھویں صدی عیسوی سے مساجد تعمیر ہوئیں۔ بعد میں مغلوں نے بڑی عالیشان مساجد کی تعمیر کی جن میں سے بہت سی آج موجود ہیں مثلاً جامع مسجد دہلی (دہلی، بھارت) اور بادشاہی مسجد (لاہور، پاکستان) وغیرہ۔ ترکی میں پہلی مساجد گیارہویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افریقہ کی مساجد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقہ میں سب سے پہلے اسلام غالباً حبشہ (موجودہ ایتھوپیا) میں پھیلا مگر جلد ہی اسلام شمالی افریقہ کے ممالک مصر، تیونس، الجزائر، مراکش وغیرہ میں بھی پھیل گیا۔ تیونس اور مراکش میں قدیم ترین مساجد آج بھی موجود ہیں مثلاً جامعہ الازہر، جامع القیروان الاکبر، مسجد جینے وغیرہ۔ مسجد جینے کچی اینٹوں سے تعمیر کردہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے اور مالی کے شہر جینے میں ہے۔ اسی طرح مسجد کتبیہ جو مراکش کی بڑی مساجد میں سے ایک ہے، اپنے مینار کی وجہ سے مشہور ہے جو مخصوص مراکشی طرز کا ہے۔ اس مسجد کے نیچے ایک زمانے میں کتابوں کی ڈھائی سو دکانیں تھیں۔ افریقہ کی دیگر مساجد میں مسجد حسین ( قاہرہ، مصر) جو راس الحسین کے نام سے مشہور ہے، مراکش کی مسجد حسن ثانی (دنیا کی دوسری بڑی مسجد اور دنیا کے بلند ترین مینار والی مسجد)، موریطانیہ کی مسجد شنقیط یا مسجد جمعہ، شنقیط (مساجد میں دوسرا قدیم ترین مینار)، نائیجیریا کی ابوجا قومی مسجد اور دیگر بے شمار مساجد شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یورپ میں مساجد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یورپ میں ہسپانیہ کی فتح کے ساتھ ہی مساجد تعمیر ہوئیں جن میں سے مسجد قرطبہ آثارِ قدیمہ کے طور پر مشہور ہے۔ ہسپانیہ کے مسلمانوں کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد یورپی اقوام نے انتہائی تنگ نظری سے وہاں اسلام کے آثار مٹانے کی بھرپور کوشش کی۔ تمام مساجد کو یا تو ڈھا دیا گیا یا کلیساؤں میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسجد قرطبہ میں اس وقت (1492ء) سے نماز کی کبھی اجازت نہیں دی گئی۔ یورپ کی بیشتر موجودہ مساجد جدید دور میں بنی ہیں اگرچہ البانیا، رومانیہ، قبرص اور بوسنیا میں کچھ پرانی مساجد موجود ہیں۔ قبرص کی مسجد لالہ مصطفےٰ پاشا (1298ء) اس کی ایک مثال ہے۔ بوسنیا و ہرزیگووینا کی کئی قدیم مساجد کو 1990ء کی دہائی میں تباہ کر دیا گیا ہے۔ یورپ میں ترکی اثرات کے بعد کافی مساجد کی تعمیر ہوئی۔ یورپ میں سولہویں صدی عیسوی میں بننے والی مساجد کی کچھ مثالیں یہ ہیں:
1. مسجد قل شریف، کازان، تاتارستان، روس (1552ء)۔ یورپ کی سب سے بڑی مسجد سمجھی جاتی ہے
2. بجراکلی مسجد، بلغراد، سربیا (1575ء) 2004ء میں اسے شدید نقصان پہنچایا گیا
3. منگالیہ مسجد، رومانیہ (1525ء)
4. غازی خسرو بیگ مسجد، سراجیوو، بوسنیا (1531ء)
5. بنواباشی مسجد، صوفیہ، بلغاریہ (1576ء)
اٹھارویں صدی میں تعمیر ہونے والی مساجد میں تیرانا، البانیا کی ‘مسجد ادھم بے’ (1789ء) شامل ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں یورپ میں بے شمار مساجد کی تعمیر ہوئی جس کی بنیادی وجوہات یورپ کا مسلمان ممالک پر قبضہ اور نتیجہ کے طور پر مسلمانوں اور ان کا میل جول اور مسلمانوں کی مغربی ممالک کی طرف ہجرت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جدید دور کی مساجد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیسویں صدی میں بڑی شاندار مساجد تعمیر ہوئی ہیں جن کا طرزِ تعمیر مخلوط ہے۔ یہ نہ صرف مسلمان ممالک میں تعمیر ہوئیں ہیں بلکہ یورپی ممالک میں بھی بے شمار مساجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ ان مساجد کی مثالیں ڈھاکہ کی بیت المکرم، برونائی دارالسلام کی سلطان عمر علی سیف الدین مسجد، انڈونیشیا کی مسجد استقلال (جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد)، جاپان میں پہلی مسجد ‘مسجد کوبے’، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں شاہ فیصل مسجد، فلپائن کے شہر منیلا کی مسجد الذہب(سنہری مسجد کے نام سے مشہور ہے)، سنگاپور کی المسجد الاستقامۃ، امریکہ میں اسلامی مرکز واشنگٹن اور دیگر بے شمار مساجد شامل ہیں۔
۔۔۔مساجد کا کردار۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مذہبی کردار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مساجد مسلمانوں کا مذہبی مرکز ہیں۔ اس میں بنیادی طور پر نمازِ جماعت کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں پنجگانہ نمازیں، نمازِ جمعہ اور عید کی نمازیں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ رمضان کے اعمال بھی ہوتے ہیں۔ کسی زمانے میں مساجد کو خیرات اور زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا جس کا رواج اب کم ہے۔ مسجدیں اکثر قرآن کی تدریس کے لیے بھی ایک مرکز کا کام دیتی ہیں۔ کئی مساجد میں مدارس بھی قائم ہیں جن سے مذہبی تعلیم کا فریضہ سرانجام دیا جاتا ہے۔
معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی کردار۔
مساجد مسلمانوں کا مرکز ہیں جس کا مقصد صرف مذہبی نہیں رہا بلکہ مسلمانوں کا معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی مرکز بھی مسجدیں رہی ہیں۔ باجماعت نمازیں مسلمانوں کے آپس کے تعلقات، میل جول اور حالات سے آگاہی کے لیے بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ مساجد جنگوں اور دیگر ہنگامی حالات میں ایک پناہ گاہ کا کام بھی کرتی رہی ہیں۔ یہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ غیر مسلمین کو پناہ دینے کے لیے بھی استعمال ہوتی رہی ہیں مثلاً مسجدِ پیرس دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کے لیے پناہ گاہ رہی ہے۔
مساجد وہ جگہ ہیں جہاں سے اولین جامعات (یونیورسٹیوں) نے جنم لیا مثلاً جامعہ الازہر، جامعہ قرویین، جامعہ زیتونیہ وغیرہ۔ بیشتر مساجد میں مدارس قائم ہیں جن میں قرآن اور مذہب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ ابتدائی تعلیم بھی دی جاتی رہی ہے۔ مشرقی ممالک کے دیہات میں کئی مساجد میں عمومی مدارس بھی قائم ہیں۔ بعض مساجد کے ساتھ اسلامی مراکز موجود ہیں جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیقی مراکز قائم ہیں۔
مساجد کا سیاسی کردار بھی تاریخی طور پر شروع سے جاری رہا ہے۔ مسجد نبوی صرف نماز کے لیے استعمال نہیں ہوتی رہی بلکہ اس میں غیر ممالک سے آنے والے وفود سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ مختلف غزوات اور سرایہ کے منصوبے زیرِ بحث لائے گئے۔ صدیوں تک مساجد میں انقلابی تحریکوں نے جنم لیا کیونکہ وہ مسلمانوں کے رابطہ کا ایک اہم ذریعہ رہی ہیں۔ جدید دور میں بھی مساجد کا سیاسی کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کی واضح مثال لال مسجد اسلام آباد کی ہے۔ حکومتیں بھی مساجد اور مساجد کے ذمہ داران کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔
طرزِ تعمیر۔۔۔۔۔
ابتدائی مساجد بہت سادہ تھیں اور ایک منزلہ سادہ عمارت پر بھی مشتمل ہوتی تھیں جس کے ساتھ کوئی مینار یا گنبد ضروری نہیں تھا۔ اسلام میں مسجد کے لیے صرف جگہ مخصوص ہوتی ہے مگر اس کے طرزِ تعمیر پر کوئی قدغن نہیں۔ ابتداء میں مسجد نبوی کھجور کے تنوں کے ستونوں اور اُس کے پتوں کی چھت سے تعمیر ہوئی تھی۔ کعبہ پتھروں سے بنی ایک چوکور عمارت تھی جس کے اردگرد کھلے احاطے میں عبادت ہوتی تھی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے وسائل پڑھتے چلے گئے اور انہوں نے اپنی ضرورت اور علاقے کی ثقافت کے مطابق مساجد تعمیر کیں۔ مساجد میں مہنگے کام اور بلند مینار اور گنبد بعد میں بننا شروع ہوئے۔ مینار کی وجہ یہ تھی کہ مسجد دور سے نظر آئے، اس پر چڑھ کر اذان دی جائے تو آواز دور دور تک آئے اور علاقے کی ثقافت و فن کی عکاسی بھی تھی۔ گنبد سے مسجد کے خطیب کی تقریر اور نماز کی آواز ایک گونج اور خوبصورتی کے ساتھ پوری مسجد میں پھیلتی تھی۔ اسلام میں چونکہ زندہ چیزوں کی تصاویر کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی اس لیے مساجد کی تزئین کے لیے قرآنی آیات کا مختلف خوبصورت طریقوں سے استعمال کیا گیا اور مختلف جیومیٹرک ڈیزائن بھی استعمال کیے گئے۔
وقت، ضرورت اور ثقافت کی عکاسی کی وجہ سے مساجد میں کئی چیزیں تقریباً ضروری ہو گئیں جیسے مینار، گنبد، مسجد میں ایک صحن، وضو کے فوارے (یا تالاب یا نلکوں والی جگہ)، نماز کے لیے ہال (بڑا کمرہ) وغیرہ۔ اس کے علاوہ اکثر مساجد کے ساتھ حمام ( یا کم از کم بیت الخلاء)، کتب خانے، مطب (کلینک) اور بعض مساجد کے ساتھ مدارس، تحقیقی مراکز یا باقاعدہ جامعات (یونیورسٹیاں) شامل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مینار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مینار مسجد کی بنیادی پہچان ہے جس سے مسجد دور ہی سے نظر آسکتی ہے۔ بنیادی طور پر مینار پر چڑھ کر اذان دی جاتی تھی جس سے آواز دور تک جاتی تھی مگر اب اذان مسجد کے اندر سے دی جاتی ہے کیونکہ لاوڈ سپیکر سے آواز کو دور دور تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ مسجد کے مینار کی اونچائی پر کوئی قدغن نہیں۔ یہ بہت چھوٹا بھی ہوسکتا ہے اور بہت اونچا بھی۔ یورپ میں چھوٹی مساجد میں تو مینار ہی نہیں ہوتے کیونکہ وہ اکثر ایک یا دو کمروں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ سب سے لمبا مینار مسجد حسن ثانی، کاسابلانکا، مراکش کا سمجھا جاتا ہے جو 210 میٹر(689 فٹ) بلند ہے۔ [1]
شروع میں مساجد کے مینار نہیں تھے اور وہ بہت سادہ تھیں مگر جلد ہی مینار مساجد کا تقریباً لازمی حصہ بن گئے۔ مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ مینار کلیساووں کے مینار دیکھ کر بنائے گئے مگر یہ درست نہیں ہے کیونکہ عرب تعمیرات میں پہلے ہی سے مینار بنتے تھے خصوصاً مختلف دفاعی قلعوں کے ساتھ مینار دور تک دیکھنے کے لیے بنائے جاتے تھے۔ مساجد میں میناروں کی تعداد ایک سے لے کر چھ تک ہوتی ہے۔ اکثر مساجد میں چار مینار ملتے ہیں۔ ترکی کی کئی مساجد میں چھ مینار ہیں۔ مسجد الحرام میں کل نو مینار ہیں جو مختلف اوقات میں تعمیر ہوئے ہیں۔ مسجد نبوی کے دس مینار ہیں جن میں سے چھ 99 میٹر اونچے ہیں۔[2]۔ بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان کے مینار 53.8 میٹر ( 176.3 فٹ) لمبے ہیں۔ مینار کے اوپر جانے کے لیے دو سو چار سیڑھیاں ہیں۔ [3]۔ مسجد الحضر، تریم، یمن کے مینار کی لمبائی 53 میٹر ( 175 فٹ) ہے۔ مسجد حسن ثانی کا مینار، بادشاہی مسجد کا مینار اور مسجد الحضر کا مینار دنیا کے لمبے ترین میناروں میں سے کچھ ہیں۔
میناروں کی اشکال مختلف ممالک میں مختلف ہیں۔ پاکستان، بھارت اور ایران میں مینار عموماً گول ہوتے ہیں اور کافی موٹائی رکھتے ہیں۔ ترکی میں عموماً مینار گول مگر کم موٹائی والے ہوتے ہیں۔ شام اور مصر میں بہت سے مینار چورس(مربع شکل کے) ہوتے ہیں۔ مصر میں ہشت پہلو مینار بھی ملتے ہیں۔ مگر ان تمام مذکورہ ممالک میں دوسری اقسام کے مینار بھی ملتے ہیں۔ میناروں کے اوپر سرخ، فیروزی یا دیگر نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں جن سے ان کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایران اور عراق میں بعض مینار سنہری رنگ کے بنے ہوئے ہیں جن کے اوپری حصے میں اصلی سونے سے ملمع کاری کی گئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گنبد۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنبد آج کل کی مساجد کا تقریباً جزوِ لازم ہیں۔ گنبد کا بنیادی مقصد صرف خوبصورتی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے خطیبِ مسجد کی آواز پوری مسجد میں گونجتی ہے۔ اس کے علاوہ اب گنبد مساجد کی پہچان بن چکی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا روضہ مبارک مسجدِ نبوی میں ہے جس کا سبز گنبد بہت مشہور ہے۔ روضہ مبارک کی تصاویر میں سب سے نمایاں یہی گنبد ہے۔
فلسطین میں حرم قدسی الشریف میں واقع قبۃ الصخرہ بھی تحریکِ آزادیِ فلسطین کی پہچان ہے۔ یہ مسلمانوں کا شاید سب سے پرانا قائم گنبد ہے۔ بعض لوگ اسے مسجد الاقصیٰ سمجھتے ہیں جو غلط ہے۔ ایران میں مساجد کے بہت ہی خوبصورت گنبد تعمیر ہوئے ہیں۔ مثلاً مسجدِ امام، اصفہان کا گنبد یا مسجد گوہر شاد، مشہد کا گنبد۔ برصغیر پاک و ہند کے گنبد بھی قابلِ دید ہیں۔ سندھ میں عربوں کی آمد کے بعد کئی مساجد تعمیر ہوئیں جن کے ساتھ سادہ مگر بڑے بڑے گنبد تھے مگر بعد میں مغل بادشاہوں نے بڑی شاندار مساجد تعمیر کیں مثلاً بادشاہی مسجد لاہور، پاکستان کے سفید گنبد بہت ہی خوبصورت اور بڑے ہیں۔ مغلوں کی تعمیر کردہ بابری مسجد کے گنبد بھی بہت بڑے تھے جن کو ہندو انتہا پسندوں نے شہید کر دیا۔ جدید دور میں تعمیر ہونے والی کراچی، پاکستان کی مسجد طوبیٰ کا گنبد یک گنبدی مساجد میں سب سے بڑا ہے جو 72 میٹر (236 فٹ) قطر کا ہے اور بغیر کسی ستون کے تعمیر ہوا ہے۔ 1557ء میں تعمیر ہونے والی سلیمیہ مسجد، ادرنہ، ترکی کا گنبد 27.2 میٹر قطر کا ہے اور یہ بھی دنیا کے بڑے گنبدوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ گنبد پرانا ہونے کے باوجود اس قدر مضبوط ہے کہ 1915ء کی بلغاریہ کی توپوں کی بمباری سے بھی نہیں ٹوٹا اور اس کی صرف اندرونی تہہ کو نقصان پہنچا۔ دنیا میں بڑے گنبدوں میں مسجد سلطان صلاح الدین عبدالعزیز (نیلی مسجد)، ملائیشیا کا گنبد بھی شامل ہے جو170 فٹ قطر کا ہے۔ یاد رہے کہ گنبد صرف مساجد پر نہیں ہوتے بلکہ یہ کلیسا، جامعات اور کچھ تحقیقاتی مراکز پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔
گنبدوں کے اندرونی حصوں پر بڑی خوبصورت نقاشی بھی ہوتی ہے اور اکثر قرآنی آیات بھی لکھی جاتی ہیں۔ بعض گنبدوں میں شیشے لگے ہوتے ہیں جس سے روشنی بھی اندر آسکتی ہے۔ گنبد کی اندرونی نقاشی زیادہ تر گہرے نیلے، فیروزی یا سرخ رنگ میں کی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ رنگ اونچے گنبدوں میں بھی گنبد کے نیچے کھڑے افراد کو بخوبی نظر آ سکتے ہیں۔
قدیم مساجد کے بڑے بڑے صحن ہیں مثلاً مسجد الحرام اور مسجدِ نبوی کے صحن بہت بڑے بڑے ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ وسعت آئی ہے۔ ان صحنوں میں بلاشبہ لاکھوں افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کا صحن بھی بہت بڑا ہے جس میں ایک وقت میں ایک لاکھ کے قریب افراد نماز پڑھ سکتے ہیں۔ نماز کے علاوہ قدیم زمانے کی مساجد میں حوض (تالاب) ضرور ہوتے تھے جو وضو کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ [4] بعض تالاب ایسے بنے ہوتے تھے جن میں بارش کا پانی نتھر کر (فلٹر ہو کر) جاتا تھا۔ اس کی ایک مثال تیونس کی قدیم مسجد جامع القیروان الاکبر کی ہے۔ بڑے بڑے صحنوں اور ان کے درمیان حوض کی ایک اور مثال جامع مسجد اصفہان ، ایران کی ہے۔ سلطانی مسجد بروجرد، ایران کا صحن بھی بہت بڑا ہے جس کے تین اطراف میں عمارتیں ہیں۔ سمرقند میں امیر تیمور کی بنائی ہوئی مسجد بی بی خانم کا صحن بھی بڑے صحنوں کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ جامعہ الازہر اور مصر ہی کی ایک اور مسجد حاکم کے صحن بھی بہت بڑے بڑے ہیں۔ غرض یہ فہرست بہت طویل ہے۔ ان تمام صحنوں میں حوض ہیں اور بعض میں فوارے بھی لگے ہوئے ہیں۔ بعض مساجد مثلاً مسجدِ پیرس کے ساتھ حمام بھی موجود ہیں۔
مسجد میں نماز کے لیے عموماً ایک بڑا کمرہ یا ہال مخصوص ہوتا ہے جس میں بہت سازوسامان نہیں ہوتا مگر خوبصورت اور آرام دہ قالین بچھے ہوتے ہیں تاکہ اس زیادہ سے زیادہ میں آسانی سے نماز ادا کر سکیں۔ [5]۔ اس میں عموماً محراب و منبر بھی ہوتے ہیں۔ محراب وہ جگہ ہے جس میں پیش امام نمازِ جماعت کرواتا ہے اور منبر پر خطیب خطبہ دیتے ہیں۔[6]۔ منبر عموماً لکڑی کے بنائے جاتے تھے۔ سب سے پرانا لکڑی کا منبر جامع القیروان الاکبر، تیونس میں ہے جس کا تعلق پہلی صدی ہجری سے ہے۔ آج کل لکڑی کے علاوہ سیمنٹ اور کنکریٹ سے بھی منبر بنائے جاتے ہیں جن کے اوپر سنگِ مرمر لگا ہوتا ہے۔
مساجد میں مرکزی بڑا کمرہ جو نماز کے لیے مخصوص ہوتا ہے، عموماً بے شمار ستونوں سے آراستہ ہوتا ہے کیونکہ بہت ہی بڑے کمرے کی چھت کو سہارا دینے کے لیے ستونوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ مگر ستونوں کا مقصد صرف چھت کو سہارا دینا نہیں رہا بلکہ اس سے مسجد کی خوبصورتی میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ بعض مساجد مثلاً مسجد قرطبہ اپنے ستونوں کی وجہ سے مشہور ہو جاتی ہیں۔ ستونوں کی تعمیر میں مسلمانوں نے علم الہندسہ کے عظیم شاہکار جنم دیے ہیں۔ بعض مساجد مثلاً جامع القیروان الاکبر میں چار سو سے زیادہ ستون ہیں۔ مسجدِ نبوی کے بعض ستون تو ایسے ہیں جو پرانے ہیں اور وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مسجدِ نبوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دورِ مبارک میں کہاں تک تھی۔ بعض ستون نئے ہیں۔ مسجدِ نبوی اور مسجد الحرام کے ستون بھی ان گنت ہیں۔ نماز کے ہال کا عمومی منظر دیکھا جائے تو بہت سے ستونوں اور خوبصورت محراب و منبر ساتھ پورے کمرے میں قالین بچھے نظر آئیں گے جو عموماً گہرے سرخ یا سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔ ہال میں مختلف کونوں میں ٹوپیوں کی جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ دیواروں کے ساتھ مختلف الماریوں میں قرآن اور دیگر مذہبی کتب پڑی ہوں گی۔ جدید مساجد میں اور بعض قدیم بڑی مساجد میں کچھ کرسیاں بھی نظر آتی ہیں جن پر ایسے لوگ بیٹھتے ہیں جو ضعیفی یا دیگر مسائل کی وجہ سے زمین پر نہیں بیٹھ سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسجد کی تزئین و آرائش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان اپنی اللہ سے محبت کو مساجد کی تزئین سے نمایاں کرتے ہیں۔ صدیوں سے مساجد قرآنی آیات اور دیگر نقاشی کا شاہکار بنتی رہی ہیں۔ چونکہ اسلام زندہ اشیاء کی تصاویر بنانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا اس لیے مساجد کی آرائش کے دیگر طریقے اختیار کیے گئے۔ مساجد پر نقاشی کے لیے گاڑھے رنگ استعمال کیے جاتے ہیں جن میں فیروزی، گہرا نیلا، سنہرا اور سرخ رنگ زیادہ ملتے ہیں۔
مساجد میں مثلاً برصغیر میں مغلوں کی تعمیر کردہ مساجد، ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا میں منگولوں اور صفویوں کی تعمیر کردہ مساجد ، مراکش، تیونس، مصر وغیرہ میں تعمیر کردہ مساجد اور عراق اور دیگر عرب علاقوں کی مساجد سب ہی کے نقش و نگار ایسے ہیں جو صدیوں سے آب و تاب سے قائم ہیں۔ صحراء کی گرم ریتلی ہوا یا بارش ان رنگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ بگاڑا تو حملہ آور افواج نے خصوصاً صلیبی افواج نے۔ جدید دور میں 1993ء کے لگ بھگ بوسنیا میں سینکڑوں خوبصورت مساجد کو تباہ کیا گیا جن میں سے کئی فنِ تعمیر کا شاہکار تھیں مگر اتنی قدیم مساجد کی تباہی پر مغربی اداروں نے ذرہ برابر بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا۔ حالانکہ یہی اقوام افغانستان میں مہاتما بدھ کے مجسمے کی تباہی پر بہت سیخ پا ہوئی تھیں۔ ترکی کی کئی مساجد کو عجائب گھروں میں تبدیل کر دیا گیا ہے مثلاً سابقہ مسجد ایا صوفیہ کی یہاں جو تصویر دی گئی ہے اس میں بظاہر گنبد کی تعمیرِ نو کی جا رہی ہے مگر حقیقت میں اس میں سے مسلمانوں کے نقاشی اور خطاطی کو ہٹا کر اس کے نیچے پرانے آثار تلاش کیے جا رہے ہیں (مثلاً انجیل سے متعلقہ مصوری) کیونکہ ترکی میں اسلام پھیلنے سے پہلے یہ ایک کلیسا تھی۔ وسطی ایشیا کی بہت سی مساجد روسی قبضہ کے دوران بند کی گئیں اور دنیا نے ان مساجد کو اس وقت آثارِ قدیمہ کا درجہ بھی نہیں دیا اس لیے وہ تباہ ہو گئیں۔ اب ان کی حفاظت پر کچھ کام ہو رہا ہے۔ جدید مساجد پر ایسی خطاطی، نقاشی اور محنت نہیں ملتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مساجد کو استعمال کرنے کے آداب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمانوں کے نزدیک مسجد میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اطلاق غیر مسلمین پر بھی ہوتا ہے جو مسجد میں داخل ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔طہارت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام میں طہارت کی بہت اہمیت ہے اور ایک حدیث کے مطابق یہ نصف ایمان ہے اس لیے مسجد میں آنے کے لیے پاک و صاف ہونا شرط ہے البتہ وضو آپ مسجد میں بھی آ کر کر سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے اکثر مکاتبِ فکر میں مساجد میں حالتِ جنابت میں ٹھہرنا جائز نہیں اور مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں ایسی حالت میں داخلہ بھی جائز نہیں۔ لباس کے ساتھ ساتھ جسم بھی پاک ہونا چاہئیے۔ ذہن کی طہارت بھی اپنے بس کے مطابق ضروری ہے یعنی برے خیالات سے پرہیز کرنا چاہئیے۔[7]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔تہذیب و شائستگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسلمان مسجد کو اللہ کا گھر سمجھتے ہیں چاہے اس کا تعلق مسلمانوں کے کسی بھی فرقہ سے ہو۔ مسجد میں خاموشی اور تہذیب و شائستگی کی تاکید کی جاتی ہے تاکہ نماز اور قرآن پڑھنے والے تنگ نہ ہوں۔ مساجد میں لڑائی جھگڑا کرنا یا بلا ضرورت دنیاوی باتوں سے بھی پرہیز کرنا چاہئے اگرچہ اجتماعی معاملات پر بحث کی جا سکتی ہے۔ مسجد میں دوڑنا یا زور سے قدم رکھنا اور اونچی آواز میں بات کرنا تہذیب و شائستگی کے خلاف ہے۔ اسی طرح کوئی بھی ایسا کام کرنا جس سے نمازی تنگ ہوں، اچھا نہیں سمجھا جاتا مثلاً پیاز، لہسن، مولی یا کوئی اور بو دار چیز کھا کر جانے سے بھی منع کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں احادیث مبارکہ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ [8]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔لباس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسجد میں صاف ستھرا لباس پہن کر آنا چاہئیے۔ خواتین ایسا لباس پہن کر آئیں جس سے وہ با پردہ ہوں۔ اسی طرح مرد مناسب لباس پہن کر آئیں۔ عموماً مسلمان علاقائی لباس کے علاوہ عربی لباس بھی پہننا اچھا اور ثواب سمجھتے ہیں مگر اسلام میں لباس پر ایسی کوئی قدغن نہیں ہے مگر لباس اسلام کے اصولوں کے مطابق ہو۔[9]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مرد و زن مسجد میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابتدائے اسلام سے مردوں اور عورتوں دونوں کو مساجد میں آنے کی اجازت ہے مگر ان کو علیحدہ علیحدہ جگہ دی جاتی ہے۔ شرعِ اسلام کے مطابق نماز کے دوران عورتوں کی صفیں مردوں سے پیچھے ہوتی ہیں تاکہ مردوں کی نظر عورتوں پر نہ پڑے۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں مرد و زن دونوں مسجد میں نماز ادا کرتے تھے اگرچہ عورتوں کے احترام اور حفاظت کے لیے بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گھر ہی میں نماز ادا کریں۔ آج کل اکثر مساجد میں عورتوں کے لیے علیحدہ جگہ بنی ہوتی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں عورتوں کے مسجد میں آنے کا رواج نہ ہونے کے برابر ہے مگر اس کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ ہندوستانی معاشرت سے ہے۔ عرب ممالک میں اور جدید مغربی مساجد میں عورتیں مساجد میں آتی ہیں، نماز پڑھتی ہیں اور مختلف تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔حوالہ جات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1. ^ والٹر برائن (2004-05-17). "The Prophet’s People”, Call to Prayer: My Travels in Spain, Portugal and Morocco. Virtualbookworm Publishing, 14. ISBN 1-58939-592-1.
2. ^ مدینہ کی مسجد
3. ^ بادشاہی مسجد لاہور
4. ^ مذہبی طرزِتعمیر اور اسلامی ثقافت (Religious Architecture and Islamic Cultures. MIT)
5. ^ مسجد کے بارے میں حقائق (بزبان انگریزی) (جامعہ تلسہ، امریکہ)
6. ^ مسجد کے بارے میں حقائق (بزبان انگریزی) (جامعہ ٹوکیو، جاپان)
7. ^ دیکھئیے آداب المسجد ، بزبان عربی
8. ^ بخاری ، رقم 815۔ مسلم، رقم 563،564۔ موطا، رقم 30۔ ترمذی ، رقم 1806۔ ابن ماجہ ، رقم 1016،1015۔ ابوداود، رقم 3824۔ نسائی، رقم 707۔ احمد بن حنبل، رقم 4619 ، 4715 ، 7573، 7599، 9540 ، 12960، 15056 ،15111، 15198،15334۔
9. ^ مقصود, رقیہ وارث (2003-04-22). خود کو اسلام سکھائیے ( Teach Yourself Islam), دوسری طباعت, شکاگو: McGraw-Hill, ISBN 0-07-141963-2.
بشکریہ: وکیپیڈیا

ا