URDUSKY || NETWORK

آزادی و انقلاب کے امام، حضرت امام حسین ؓ

140

آزادی و انقلاب کے امام، حضرت امام حسین ؓ

شاہ است حُسین، بادشاہ است حُسین
دیں است حُسین، دیں پناہ است حُسین
سر داد نداد دست در دستِ یزید
حقّا کہ بنائے لا الہ است حسین

یوں تو تاریخ کے پردے پر بے شمار شخصیتیں ابھریں اور ایک وقت میں تو اپنی شخصیت کی گھن گرج سے انہوں نے پوری دنیا کو لرزہ بر اندام کر دیا ، بعض وہ تھیں جو مسند علم کی وارث ٹھہریں ، کچھ طبعیات اور سائنس کی امام بنیں ، ایسی بھی جو اخلاق و تصوف کے حوالے سے دنیا کی مرشد قرار پائیں ، لیکن ان میں سے بہت سے تاریخ کے دھارے کے ساتھ بہہ گئیں ۔کچھ کو زمانے کی کروٹیں نگل گئیں۔بعض حوادث روزگار کی نذر ہو گئیں۔کئی ایک عالمی تبدیلیوں کی ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔چند نصابی کتابوں کی زینت بنیں اور اکثر یادِ ماضی کا حوالہ ،داستانِ پارینہ اور دلچسپ قصہ بن گئیں،اگرچہ ایک بڑی تعداد ایسے رجال کار کی ہے جنہوں نے تاریخ،سمت،وقت،سوچ،ذہن اور جذبات کو پوری طرح قبضے میں لیکر خود کو مقام امر پر فائز کرلیا انہیں میں ایک روشن نام جناب حسین کا ہے،چودہ صدیاں بیت چلیں مگر آپ کا نمایاں نام اور تاریخی کام بجاے گہنانے کے اور نکھرتا چلا جاتا ہے اور وقت کی رفتار بتاتی ہے کی مستقبل میں مزید نکھرے گا۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو!!
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ
جناب حسینؓ اب ایک فرد بشر، ایک آدم زاد، ایک خاندان کے روشن چراغ،ایک دور کی بہتر شخصیت ہی نہیں رہے بلکہ گردشِ زمانہ اب انہیں اس مقام پر لے آئی ہے کہ ان کا نام جذبہ حریت اور ان کی شخصیت بذاتِ خود تحریک اور انقلاب بن گئی ہے۔ریگ گرم پر بہنے والے ان کے خون کے چھینٹے کاروانِ شوق کے لئے نقوش منزل قرار پائے ہیں اور ان کا مقتل سجدہ گاہِ عاشقاں کا مرتبہ اختیار کرگیا ہے اور ان کی باتیں فلسفہ انقلاب کا درج پاچکی ہیں،ہمارے ہاں کے روایت پرستانہ مزاج اور شعبدہ پسند رجحان نے ان تاریخی شخصیتوں کو محض گرمئی تقریر،فنِ خطابت،مجادلہ و مناظرہ اور فرقہ وارانہ بحثوں کی نذر کردیا ہے، ورنہ ہماری تاریخ جہد و عمل،علم و فضل،عظیم شخصیتوں،نامور ہستیوں اورنادرِ روزگار افرد کے اعتبار سے جتنی مالدار، روشن نامدار اور وقیع ہے،اتنی کسی اور مذہب ،فلسفہ اور تہذیب کی تاریخ قابلِ رشک نہیں۔
ذرا ایک نظر ڈالئے حکمرانوں میں خلفاء راشدین،مجاہدہ و فقر میں خانوادہ اہل بیت،ایثار ووفا میں حضراتِ صحابہ،تفقہ وتدبہ میں ائمہ اربعہ ،روایت میں محدثین،فلسفہ و حکمت میں اما م غزالی ،رازی،بوعلی،ا بن رشد،فارابی،البیرونی اور کندی ؒزہد وتصوف میں شیخ جیلان،بایزید بسطامی،فضیل بن عیاض،فاتحین میں محمد بن قاسم،صلاح الدین ایوبی،اور نورالدین زنگی ، مصنفین میں ابن تیمیہ اور ابن القیم ،شعراء ادباء میں مولانا روم،شیخ سعدیؒعمر خیام،حافظ شیرازی،حکمتِ دین کے حوالے سے ابنِ خرم اور شاہ ولی اللہ ایسے نام محض نمایاں افراد نہیں بلکہ یہ گرامی قدر شخصیات ایک پوری تاریخ،بھرپور تہذیب،اور کامل فلسفہ ہیں۔اتنا عظیم سرمایہ رکھنے والی قوم اب بھی مناظروں،شعبدوں ،حکایتوں اور افسانوں میں گھری ہوئی ہے،سچ ہے کہ جب مذہب گورکھ دہندہ،تاریخ وتحقیق روایت،حقیقت افسانہ، اور علم فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ جائے تو جلیل اقدر شخصیتوں کے ساتھ ایسی ہی بے انصافی ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرے میں امام حسین کے کام کو اتنی توجہ نہیں مل رہی جتنی ان کے نام سے فرقہ بندی کو مل رہی ہے حالانکہ عظیم شخصیتیں کسی فرقے کا حوالہ نہیں بلکہ پوری قوم کا مقدس ورثہ ہوتی ہیں۔
انہیں مختلف خانوں میں رکھ کر نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں اپنے عمل و اخلاق کا پیمانہ بنایا جانا چاہیے۔یومِ عاشورہ اور واقعہ کربلا ایک دن ایک حادثہ نہیں بلکہ ایک بھر پور تاریخ اور حیات آفرین جزبہ ہے جسے محض فضائل ومصائب میں الجھا دیا گیا ہے۔جناب امام حسین نے اپنے دور میں سیاست کو فرعونی،معیشت کو قارونی اور معاشرت کو یزیدی بنتے دیکھا تو آپ نے پوری طاقت اور جرات سے صدأے احتجاج اور نوائے انقلاب بلند کی کی خدا کی اس دھرتی پر خلافت و امارت کے نام پر شخصی آمریت کا تسلط ناقابلِ برداشت ہے وہ حکومت میں احتساب،معاشرت میں اخلاق اور معیشت میں انصاف کے علمبردار تھے کیونکہ ان کے نزدیک سیاست محمدیؐ منافقت سے پاک ،معیشت محمدیؐ استحصال سے منزہ اور معاشرت محمدیؐ لاقانونیت سے مبرا تھی۔ وہ حکمِ حاکم کے نہیں حکم ِ خدا اور رسولؐ کے قائل تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ خدا کی زمین پر خدا کے بس سے پیارے بندے حضور محمد رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے ذریعے خدائی احکام کی پیروی کرنے والے لوگوں کی پیروی کرنے والے لوگوں کی حکومت ہونی چاہیے نہ کہ جاہلی جذبوں کے ساتھ قومی حکومت قائم کرکے شخصی اطاعت کو رائج کیا جائے۔یہی وہ جذبہ حریت اور نظریہ انقلاب تھا جو جناب امام کو مدینہ منورہ کے پرسکون ماحول اور مسجد نبوی کی پرنور فضاؤں اور روضہ رسول ﷺ کی پرکیف قربتوں سے نکال کر لق و دق اور بے آب وگیاہ وادی کی طرف کشاں کشاں لے آیا اور زندگی بھر کی پونجی چٹیل میدان کی نذر کر دی۔
آج تک دنیاکے باطل نظاموں کے ترجمان اس دستور کو رائج کرنے اور اس کے فلسفے کو منوانے پر تلے ہوئے ہیں کہ طاقت ہی حق ہے مگر جناب امامِ حسین نے اس روش کے خلاف چلتے ہوئے نعرہ انقلاب بلند کیا کہ طاقت نہیں دراصل حق طاقت ہے اور دنیا نے دیکھ لیا کہ تلواروں کی جنگ جیتنے والے مقدر کی بازی ہار گئے اور بنجر زمین پر گھر کا گھر لٹا دینے والے انسانیت کی آبرو بن گئے۔
مدینہ منورہ میں قیام، مسجد نبوی کی امامت ، روضہ رسولﷺ کی مجاورت اور روحانی سیادت کوئی معمولی اعزاز نہ تھا جس سے جناب حسین دستبردار ہوگئے بلکہ یہ سب کچھ اس بات کا حتمی اور بڑا ثبوت ہے کہ یہ ایک عظیم اور تاریخی مشن تھا جس کی تکمیل کے لیے یہ صدمے گوارا کرنا لازم تھے ورنہ کون گوشہئ عافیت چھوڑ کر میدان رزم کا رُخ کرتا ہے اور کون روح پرور فضاؤں کو ترک کر کے لو کے تھپیڑے سہتا ہے ۔ہمارے مذہبی حلقوں نے واقعہ کربلا کی جزیات تک کو تو نگاہ میں رکھا ، مجالس مصائب پر توجہ دی مگر امام پاک کی انقلابی روح اپنے اندر جذب نہیں کی۔
ہو کا عالم ہو،جبر کا دور دورہ ہو،ہوسِ زر نے لوگوں کو مصلحت کیش بنا رکھا ہو،آمریت نے رعایا کو بے دست وپا کردیا ہو،جاہ طلبی زندگی کا مشن اور قربتِ اقتدار معاشرے کامجموعی مزاج بن چکا ہو ،ایسے میں جناب امام کا نعرہِ قلندرانہ بلند کرنا اور کاخ و ایوان حکومت سے جاٹکرانا آپ کے تاریخی کردار کی بلند مثالی ہے۔جناب امام کے کردار کی اس تاریخی عظمت کے حوالے سے جب ہم اپنے معاشرے کا مجموعی چلن دیکھتے ہیں اور بالخصوص مذہبی گروہ بندی پر نظر ڈالتے ہیں تو اپنی کج فہمی پر ندامت ہوتی ہے۔
امام حسین نے اپنے بے مثال مجاہدانہ کردار کے ذریعے دنیائے جبر میں ہر خطہِ زمین کو کربلا اور ہر دن کو یومِ عاشورہ بنا دیا۔ اب قیامت تک آنے دو کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے رہیں گے۔ ایک کردار یزیدی ہوگا جو جبر کی نمائندگی کرتا ہے اور دوسرا کردار حسینی ہےجو صبر اور ایثار کی مثال بنا رہے گا ،ظاہر ہے اب ہر مسلمان خواہ کسی مسلک کا ہو اپنے لیے حسینی کردار کا انتخاب کرئے گا،یعنی جبر کے مقابلہ میں صبر ،جفا کے مقابلے میں وفا،استکبار کے مقابلہ میں ایثار،طاقت کے مقابلہ میں استقامت اور مطلق العنانی کے مقابلہ میں جرأت ایمانی کا مظاہرہ اور یہی اسوہ حسین اور درس کربلا ہے۔
ازخورشید احمد گیلانی مرحوم
بشکریہ الف نظامی – اردو ویب

Bookmark and Share