URDUSKY || NETWORK

یومِ عاشورہ کا دن تاریخ کے آئینے میں

108

یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے 30دن مقدس اور اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے ہیں اور ان دنوں میں کچھ مخصوص ایّام بھی ہیں جن کے بارے میں رب العزت نے کچھ خاص احکامات صادر فرمائے ہیں،اسی طرح اسلامی سالِ کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے‘جس کو اللہ و عزوجل نے قرآن ِمجید میں حرمت والا مہینہ قرار دیا ہے۔
محرم کی دسویں تاریخ کو ”عاشورہ“ کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ،”دسواں دن“،جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اس وقت تک عاشورہ کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض قرار دیا  گیا اور جب رمضان کے روزے فرض قرار دئیے گئے تو عاشورہ کے روزہ رکھنے کی فرضیت منسوخ کردی گئی لیکن آنحضرتﷺنے عاشورہ کے روزہ رکھنے کو سنّت اور مستحب قرار دیا ہے ایک حدیث میں حضور ِاکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :
”مجھے اللہ و عزوجل کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن روزہ رکھے اسکے پچھلے ایک سال کے تمام گناہوں کا کفّارہ ادا ہو جائے گا۔“
بعض لوگ کہتے ہیں کہ عاشورہ کے دن کی فضیلت یہ ہے کہ اس دن نبی پاک کے نواسے حضرت امام ِ عالی مقام حسین ؓ شہید ہوئے بلکہ اس شہادت کی وجہ سے یہ دن مزید حر مت والابن گیا ۔حضرت محمد ﷺ کے عہد میں عاشورہ کا دن مقدس سمجھا جاتا تھا جبکہ حضرت امام حسینؓ کی شہادت تو رسول ِاکرم کے وصال کے 60سال بعد ہوئی تھی۔لہٰذا ےہ بات صحیح نہیں کہ عاشورہ کی حرمت اس واقعہ کی وجہ سے ہے بلکہ یہ تو امام حسینؓ کی فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ نے آپؓ کو شہادت کا مرتبہ اس دن عطا فرمایا ،بہر حال عاشورہ کا دن ایک مقدس دن ہے۔
بعض لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ جب حضرت آدمؑ دنیا میں اترے تو وہ عاشورہ کا دن تھا۔حضرت ابراہیم ؑ کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو گل و گلزار بنا دیا گیا اورجب حضرت نوح ؑ کی کشتی طوفان سے خشکی میں اتری تو وہ بھی عاشورہ کا ہی دن تھا۔لیکن ان تمام باتوں کی کوئی صحیح روایت نہیں ہے کہ یہ واقعات عاشورہ کے دن ہی پیش آئے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کا مقابلہ فرعون سے ہوا تو حضرت موسیٰ دریا کے کنارے پر پہنچ گئے،لشکر ِ فرعون پیچھے آرہا تھاتب اللہ تعالیٰ نے اس وقت حضرت موسیٰ ؑکو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی دریا کے کنارے پر ماریں جس کے نتیجے میں دریا کے12راستے بن گئے اور ان راستوں کے ذریعے موسیٰ ؑکا لشکر دریا پار چلا گیا اور جب فرعون دریا کے پاس آیا تو وہ دریا میں خشک راستہ دیکھ کر دریا کے اندر چلا گیا ۔لیکن جب فرعون کا تمام لشکر دریا کے درمیان پہنچا تو حکم خداوندی سے دریا کا پانی آپس میں مل گیا یوں فرعون اپنے لشکر سمیت ڈوب گیا اس بارے میں روایت ہے کہ یہ واقعہ عاشورہ کے روز پیش آیا۔باقی تمام واقعات کا عاشورہ کے دن سے نسبت ہونے یا نہ ہونے کا اصل ثبوت موجود نہیں۔
عاشورہ کا روزہ
حضرت عبداللہ بن عبّاسؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ جب مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں ،آپ نے دریافت فرمایا کہ ” تم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہو؟“انہوں نے کہا کہ” یہ دن عظمت و بزرگی والا ہے ‘اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اسکے لشکر سے نجات دی۔ادائے شکر کے لئے حضرت موسیٰ ؑنے اس دن روزہ رکھا اس لئے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں“۔نبی اکرم نے فرمایا ” تمہاری نسبت ہم موسیٰ ؑ کی سنّت پر عمل کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔چنانچہ حضرت محمد ﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ “(بخاری ‘مشکوٰۃ جلد 1صفحہ446)