اکیسویں صدی ، اقبال اور پاکستان
آج تہذیبوں کے ادغام میں ہر ملت کو نہ صرف اپنی ایک شناخت کو قائم رکھنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسری تہذیبوں کے بد اثرات سے بھی بچنا ہے اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب کوئی ملت اپنے اقدار ، رویات اور تمدن کے بارے میں آگاہی رکھتی ہو۔
آج امت مسلمہ ایک ایسے مرحلے سے گزر رہی ہے کہ صیہونی نظریاتی بنیادوں پر اسلام کے سیاسی تشخص کو تباہ کرنے کے خواہاں ہیں۔مسلم دشمن اقوام کی خارجہ پالیسی کا مقصد ہے مسلمانوں کو تباہ کرنا ہے کیونکہ اسلام کا سیاسی تصور ہی انکے لئے عذاب بنا ہوا ہے
تحریر:محمدالطاف گوہر
انسانیت ازل سے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے جبکہ تہذیبی ، مذہبی اور قومی عوامل میں افراد کو معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر بنیادی حقوق کی پاسداری،خود مختاری ، رواداری، اخوت و مساوات کو اولین اہمیت حاصل رہی ہے۔ زندگی کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کیلئے جدت کا سہارا لینے کو ایک لازمی جز کی حیثیت حاصل رہی ہے ۔ البتہ اگر اسکی بنیاد عقلیت پسندی اور سرما یے کا حصول ہوا تو اسکے باعث اقوم عالم نے اذیت کا مزہ ضرور چکھا ہے۔
اس کرہء ارض پر انسانیت کی نہج کو کرب سے نجات دلانے اور اسکو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اگر ایک طرف الہامی ذرائع بہت اہم ہیں تو دوسری طرف ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے انسانیت کے درد کو محسوس کیا اور اپنی زندگی کو فلاح کیلئے وقف کر دیا ۔ زندگی کو انکا احسان مند چاہئے جنہوں نے اسکو آشکار کرکے افراد کو کرب و اذیت کے گرداب سے نکلنے میں مدد دی۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان ازل سے قوت پر حکمرانی کا خواہاں رہا ہے جبکہ زندگیوں کو کنٹرول کرنے والی اس طاقت نے کئی روپ بدلے ہیں، جسمانی قوت، وراثت ، بادشاہت، صنعت، سرمایہ اور آج اس طاقت کا عظیم سرچشمہ صرف اور صرف علم ہے ۔
تہذیبوں کی ایک نئی روش اور جدت کے باعث ایک نیا ماورائی معاشرہ ، (سائبر سوسائٹی) معرض وجود میں آیا ہے جو کہ سیاسی ، سماجی ، قومی حد بندیوں سے آزاد اور اجتماعیت کی طرف گامزن ہے جبکہ اس دور کی قوت صرف علم کے مرہون منت ہے ۔ آج تہذیبوں کے ادغام میں ہر ملت کو نہ صرف اپنی ایک شناخت کو قائم رکھنا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسری تہذیبوں کے بد اثرات سے بھی بچنا ہے اور یہ صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب کوئی ملت اپنے اقدار ، رویات اور تمدن کے بارے میں آگاہی رکھتی ہو۔
ملت اسلام کو برصغیر میں اپنی ایک شناخت اور قائم رکھنے اور اسکی پرواخت کی آگاہی کا سہرا سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کو جاتا ہے جنہوں نے یہ واضع طور پر محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان اور ہندو دوعلیحدہ علیحدہ قومیں ہیں جنکا تہذیب و تمدن، معاشرت ، دین و مذہب سب جدا جدا ہیں اور اگر ہندوستان میں ہندوں کے منشاءکے مطابق متحدہ ہندوستانی حکومت ہو جاتی ہے تو ہندو اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرتے ہوئے مسلمانوں کا تشخص ختم کر دیں گے اور معاشی طور پربھی مسلمان ناآسودہ رہیں گے، لہذا انگریزوں کی غلامی کے بعد مسلمان ہندو اکثریت کی غلامی میں رہنے کی بجائے الگ مسلم ریاست میں اپنی حکمرانی قائم کریں ۔ جہاں وہ مذہبی آزادی اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور معاشی، تعلیمی،ثقافتی و معاشرتی ہرلحاظ سے ترقی کر سکیں ۔جو کہ دو قومی نظریہ کااساس بنا اور اس کے بدولت پاکستان معرض وجود میں آیا۔
علامہ محمد اقبال اپنے عہد کے ایک معروف شاعر، مصنف،قانون دان ،سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی ایک اہم ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ جبکہ انکی شاعری اردو اور فارسی زبان میں ہے اور یہی انکی بنیادی وجہء شہرت ہے۔شاعری میں بنیادی رحجان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف ہے جبکہ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے ، بحیثیت سیاستدان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریہ ءپاکستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930 ءمیں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔
اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، انکے نظریات اور تصورات کے روح رواں موضوع ، خودی ، عقل و عشق، مرد مومن، وطنیت و قومیت ، تصورِ تعلیم، تصورِ عورت ،مغربی تہذیب، تصورِ ابلیس اور عشق رسول اللہ ﷺ ہیں جو کہ ہر دور میں اپنی مثال آپ رہے ہیں۔اقبال نے اسلام کی عالمگیریت کو اجاگر کیا ؛
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخا کاشغرُ
اسلام بنیادی طور پر عالمگیر پیام ہے اور تمام نوع انسانی کو اخوت کی لڑی میں پرو ئے ایک وسیع تر ملت اسلامیہ کے قیام کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان کی ہوس کا علاج ہوسکے۔ لیکن اس کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسلمان ممالک ایک لڑی میں پرو ئے جائیں۔اقبال کی بھی یہی تمنا ہے کہ ان کے نزدیک اسلام ایک ازلی، ابدی ، آفاقی اور عالمگیر نوعیت کا پیغام ہے،یہ ہر زمانہ ، ہر قوم اور ہر ملک کیلئے راہِ ہدایت ہے۔ اس لئے اس کے پیروکاروں کو رنگ و نسل اور ملک و وطن کے امتیازات مٹا کر یکجا ہو جانا اور دنیائے انسانیت کیلئے ایک عالمگیر برادری کی مثال پیش کرنی چاہئے ۔ لہذا انسانوں کے درمیان اخوت کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے نہ کہ قوموں کا ایک جگہ اکٹھا ہو جانا۔
آج امت مسلمہ ایک ایسے مرحلے سے گزر رہی ہے کہ صیہونی نظریاتی بنیادوں پر اسلام کے سیاسی تشخص کو تباہ کرنے کے خواہاں ہیں۔مسلم دشمن اقوام کی خارجہ پالیسی کا مقصد ہے مسلمانوں کو تباہ کرنا ہے کیونکہ اسلام کا سیاسی تصور ہی انکے لئے عذاب بنا ہوا ہے۔جسکے باعث ایک ایسی سلامی ریاست وجود میں آئے جو اسلام کی سیاسی باگ دوڑ کو سنبھال لے اور اپنی خارجہ پالیسی اسلامی اصولوں ہر مرتب کرے ۔ اسی لئے مسلم دشمن عناصر ، مسلمان ممالک پر قبضہ اور تقسیم کے دونکاتی طریقہ پر کاربند ہیں۔جسکے نتیجہ میں اسلامی ممالک کا ایک دوسرے سے جنگ و جدل (ایران وعراق کی جنگ)، اور فرقہ وارانہ فسادات وجود میں آئے۔ مسلمانوں کو اپنے اندر اختلاف کو کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا ، آج پوری امت مسلمہ کو اپنی سالمیت اور بقا کیلئے اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے ۔