URDUSKY || NETWORK

اسلام

134

اسلام

تحریر: وکیپیڈیا
اسلام ایک توحیدی (monotheistic) مذہب ہے جو کہ اللہ کی طرف سے آخری رسول و نبی ، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخري الہامي کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسلام (اور مسلم نظریۓ کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصلاح) کا آغاز، 610ء تا 632ء تک 23 سال پر محیط عرصے میں محمد ﷺ پر اللہ کی طرف سے اترنے والے الہام (قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (براۓ وجہ : اللسان القرآن)[1] اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا کوئی 24% حصہ یعنی لگ بھگ 1.6 تا 1.8 ارب افراد[2] اس کو پڑھتے ہیں؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریباً 20 تا 30 کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ 70 تا 80 کروڑ ، غیر عرب یا عجمی[3] ہیں جن کی مادری زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں کے برعکس ، بوسیلۂ وحی ، فردِ واحد (محمد ﷺ) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراھم کرنے والی شریعت[1] ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسلام کی معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔
لغوي مطلب
لفظ اسلام لغوی اعتبار سے سلم سے ماخوذ ہے، جس کے معنی اطاعت اور امن ، دونوں کے ہوتے ہیں۔ ایسا فی الحقیقت عربی زبان میں اعراب کے نہایت حساس استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں کہ اردو و فارسی کے برعکس اعراب کے معمولی رد و بدل سے معنی میں نہایت فرق آجاتا ہے۔ اصل لفظ جس سے اسلام کا لفظ ماخوذ ہے ، یعنی سلم ، اپنے س پر زبر اور یا پھر زیر لگا کر دو انداز میں پڑھا جاتا ہے۔
* سَلم (salm) —– جس کے معنی امن و سلامتی کے آتے ہیں۔
* سِلم (silm) —– جس کے معنی اطاعت، داخل ہوجانے اور بندگی کے آتے ہیں۔
قرآنی حوالہ
* اسلام کا ماخذ سلم (salm) اپنے امن و صلح کے معنوں میں قرآن کی سورت الانفال کی آیت 61 میں ان الفاظ میں آیا ہے: وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللّهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (ترجمہ: اور اگر جھکیں وہ صلح (امن) کی طرف تو تم بھی جھک جاؤ اس کی طرف اور بھروسہ کرو اللہ پر۔ بے شک وہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے)[4]۔
* سلم (silm) کا لفظ اپنے اطاعت کے معنوں میں قرآن کی سورت البقرہ کی آیت 208 میں ان الفاظ میں آیا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِي السِّلْمِ كَآفَّةً وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (ترجمہ: اے ایمان والو! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے پورے اور نہ چلو شیطان کے نقشِ قدم پر بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے)۔ حوالے کے لیۓ دیکھیے حوالہ براۓ امن و صلح۔
اسلام ہے کیا؟
یہاں وضاحت ، اسلام کیا ہے؟ کو دوبارہ درج کرنے کی ضرورت اس لیۓ نہیں کہ اس کا جواب مضمون کے ابتدائیہ میں آچکا ہے۔ جہاں تک رہی بات اس سوال کی کہ اسلام ہے کیا؟ یعنی وہ کیا اجزاء ہیں کہ جو اسلام کی تشکیل کرتے ہیں؟ تو اس وضاحت کی الگ سے ضرورت مختلف خود ساختہ فرقوں کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیۓ ایک درکارِ لازم حیثیت رکھتی ہے۔ ماسواۓ چند (جیسے اھل القرآن)[5] تمام فرقے قرآن اور سیرت النبی (سنت) ہی کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد قرار دینے پر نا صرف اجتماع رکھتے ہیں بلکہ اپنے اپنے طور اس پر قائم ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں جیسے اھل سنت[6] اور اھل حدیث[7] وغیرہ۔ یہی دعویٰءِ اصلِ اسلام ، اھل تصوف سے متعلق کتب و دستاویزات میں بھی دیکھا جاتا ہے[8]۔ اھل تشیع فرقے والے سنت پر ایک خاص اور محتاط نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں اور سنیوں کے برعکس ان کے نزدیک جو سنت (حدیث) ، اھل بیت سے منحرف ہوتی ہو وہ مستند نہیں، مزید یہ کہ اس فرقے میں قرآن اور سنت کے بجاۓ قرآن اور اھل بیت کا تصور بھی ملتا ہے[9]۔
قرآن
* تفصیلی مقالہ : قرآن اور حفاظتِ قرآن
مذکورہ بالا قطعے میں متعدد الانواع — اھلوں — کے تذکرے کے بعد یہ بات اپنی جگہ ہے کہ اسلام ایک کتابی مذہب ہے یعنی اس پر عمل کرنے والے اھل کتاب کہلاۓ جاتے ہیں۔ قرآن خود اپنی حیثیت کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ یہ انسانوں کے لیۓ ایک راہنما (النساء 174) ، ایک ہدایت (البقرہ 2) اور اچھے برے کی تمیز بتانے والی (البقرہ 185) کتاب ہے[10]۔ محمد ﷺ پر وحی (610ء) کی صورت میں نازل ہونے سے لیکر عثمان کے زمانے میں کتاب کی شکل اختیار کرنے (653ء) سے قبل بھی قرآن اپنے لیۓ کتاب کا لفظ ہی استعمال کرتا ہے۔ قرآن کے ناقابلِ تحریف و فسخ ہونے اور اس کی ابتدائی زمانے میں کامل ترین طور پر حفاظت کیۓ جانے کے تاریخی شواہد موجود ہیں؛ مسلمانوں کا یہ غیر متزلزل ایمان ہے کہ قرآن کے ایک نقطے میں نا تو آج تک تحریف ہوئی ہے اور نا ہو سکتی ہے[11]۔
سنت
* تفصیلی مقالہ : سنت
سنت ، عربی کا لفظ ہے اور اس کے بنیادی معنی ، روش یا راہ کے ساتھ دیگر معنی بھی ہوتے ہیں لیکن اسلامی دستاویزات میں اس سے عام طور پر مراد حضرت محمد ﷺ کی اختیار کردہ روشِ حیات یا طریقۂ زندگی کی ہی لی جاتی ہے۔ 569ء سے 632ء تک جو عرصہ محمد ﷺنے اس دنیا میں انسانوں کے سامنے کتاب کا عملی نمونہ پیش کرنے کے لیۓ گذارہ وہ سنت کہلاتا ہے۔ خاتم الانبیا ہونے کی وجہ سے محمد ﷺ کی وفات نے آخری کتاب کے بعد ، اسلام کی تکمیل کرنے والے دوسرے منبع پر بھی اختتام کی مہر ثبت کردی۔ اس وقت سے لیکر آج تک مسلمان اسلام کے ان دو بنیادی ماخذ ، قرآن اور سنت ، کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
اجزاۓ ایمان
* تفصیلی مقالہ : اجزاۓ ایمان
اجزاۓ ایمان سے مراد ان عقائد کی ہوتی ہے کہ جن پر کامل اعتقاد اسلام میں ایمان (اللہ پر یقین) کی تکمیل کے لیۓ ضروری ہوتا ہے، عام طور ان میں چھ اجزا کا ذکر زیادہ ہوتا ہے[12] جن پر اھل سنی اور اھل تشیع اقرار رکھتے ہیں۔
1. اللہ پرایمان
2. فرشتوں پرایمان
3. الہامی کتب پرایمان
4. رسولوں پرایمان
5. یوم آخرت پرایمان
6. تقدیر پرایمان
بالائی جدول میں بیان کردہ ان اجزا کے لیۓ چھ کا عدد ناقابلِ تحریف نہیں ہے یعنی اجزاۓ ایمان میں وہ تمام اجزا شامل ہو سکتے ہیں جو کسی شخص کو دل اور زبان سے اللہ کا اقرار کرنے میں معاون ہوں[13]۔ مثال کے طور پر مشہور کلمہ ، ایمان مفصل (عکس 1) میں ان کی تعداد چھ کے بجاۓ سات ہو جاتی ہے۔
عکس 1۔ ایمان کے اجزا (بالائی سرخ لکیر) کو بیان کرنے والا ایک مشہور کلمہ جسے ایمان مفصل کہا جاتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کلمۂِ طیّب سمیت چھ بنیادی کلمات کی طرح ایمان مفصل اور ایمان مجمل[14] بھی ایسے کلمات ہیں کہ جو ایمان کے بنیادی اجزاۓ ترکیبی کو آسانی سے یاد رکھنے میں مدد دے سکیں اور یہ کسی ایک عبارت کی صورت میں قرآن یا حدیث میں نہیں ملتے۔
ارکانِ اسلام
* تفصیلی مقالہ : ارکانِ اسلام
ارکان اسلام کو اعتقاداتِ دین یا دیانہ (creed) سمجھا جاسکتا ہے، یعنی وہ اطوار کہ جو عملی زندگی میں ظاہر ہوں؛ بعض اوقات ان کو دین کے پانچ ستون بھی کہا جاتا ہے کیونکہ بشری شماریات (demography) کے اندازوں کے مطابق 85 فیصد[15] (اور بعض ذرائع کے مطابق اس سے بھی زیادہ)[16] مسلم افراد ، پانچ (5) ارکانِ اسلام پر ہی یقین رکھتے ہیں[17] جبکہ 15% (اور بعض ذرائع کے مطابق اس سے بھی کم) ایسے ہیں جو اس 5 کے عدد سے انحراف کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا سطور میں شماریاتی تناسب سے حوالۂ مقصود بالترتیب ، سنی اور شیعہ تفرقوں کی جانب ہے۔
پانچ_ارکانِ_اسلام: تعارفی_کلمات
کلمۂ شہادت مسلمان کی جانب سے بنیادی اقرار؛ خالق اور رسول پر یقین کی گواہی دینا شہادت کہلاتا ہے۔
صلوٰۃ معینہ اوقات پر دن میں پانچ بار عبادت (نماز) فرض ہے؛ جو انفرادی یا اجتماعی طور پر ادا کی جاسکتی ہے۔
زکواۃ اپنی ضروریات پوری ہوجانے کے بعد مفلسوں کی امداد میں اپنے مال سے چالیسواں حصہ ادا کرنا۔
روزہ ماہ رمضان میں طلوع تا غروبِ آفتاب ، خرد و نوش سے پرہیز رکھنا۔ بعض حالتوں میں غیرلازم یا ملتوی ہو جاتا ہے۔
حج اگر استطاعت اور اہلِ خانہ کی کفالت کا سامان ہو تو زندگی میں ایک بار، مکہ (کعبہ) کی جانب سفر و عبادت کرنا۔
شیعہ تفرقے والوں میں پھر ان ارکان کی مختلف تعداد اور تعریفیں ذیلی تفرقات الشعیہ میں ملتی ہیں۔ اثنا عشریہ والے، فروع دین ، کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں جن کی تعداد 5 ارکان سے کلمۂ شہادت نکال کر اور خمس ، جہاد ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، تولّى و تبَرّا شامل کرنے پر 10 ہوجاتی ہے۔ جبکہ ان لوگوں میں توحید ، عدل ، نبوت ، امامت اور قیامت کو اصول الدین کی اصطلاح کے تحت بیان کیا جاتا ہے[18]۔ اسماعیلی شیعاؤں میں ان کی تعداد 5 ارکان میں سے شہادت نکال کر اور ولایۃ (اماموں کی جانثاری و سرپرستی) اور طھارت جمع کر کہ 7 اپنا لی جاتی ہے[19]۔ شیعوں ہی سے نکلنے والا ایک اور تفرقے ، دروز ، والے اسماعیلیوں کی ولایۃ کو تسلیم کہتے ہیں جبکہ نماز کو صدق اللسان کہہ کر عام مسلمانوں کی طرح نماز اور روزے کو ترک عبادت الاثوان قرار دے کر عام مسلمانوں کی طرح روزہ ادا نہیں کرتے، ان لوگوں میں زکواۃ بھی مختلف اور انفرادی طور پر ہوتی ہے جبکہ حج نہیں ہوتا[20]۔
تاریخِ اسلام
* تفصیلی مقالہ : تاریخ اسلام
610ء میں قرآن کی پہلی صدا کی بازگشت ایک صدی سے کم عرصے میں بحر اوقیانوس سے وسط ایشیا تک سنائی دینے لگی تھی اور پیغمبرِ اسلام کی وفات (632ء) کے عین سو سال بعد ہی اسلام 732ء میں فرانس کے شہر تور (tours) کی حدود تک پہنچ چکا تھا۔
خلافت راشدہ
632ء میں ابو بکررضی اللہ عنہ کے انتخاب پر خلافت راشدہ کا آغاز ہوا، انہوں نے حروب الردہ کے بعد سلطنت ساسانیان اور سلطنت بازنطینی کی جانب پیشقدمیاں کیں۔ 634ء میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ خلیفۂ دوم ہوۓ ، کچھ لوگ اس انتخاب پر علی رضی اللہ عنہ کے حق میں تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ساسانیوں سے عراق (بین النہرین)، ایران کے علاقے اور رومیوں سے مصر، فلسطین، سوریا اور آرمینیا کے علاقے لیکر اسلامی خلافت میں داخل کیۓ اور عملی طور پر دونوں بڑی سلطنتوں کا خاتمہ ہوا۔ 638ء میں مسلمان بیت المقدس میں داخل ہو چکے تھے۔ 644ء میں ابولولو فیروز کے خنجر سے عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ خلیفۂ سوم منتخب ہوۓ اور 652ء تک اسلامی خلافت، مغرب کی حدوں (جزیرۃ الاندلس) میں پہنچ گئی۔ اگر تفصیل سے تاریخ کا مطالعہ کیا جاۓ تو یہ وہ عرصہ تھا کہ گو ابھی شیعہ و سنی تفرقے بازی کھل کر تو سامنے نہیں آئی تھی لیکن تیسرے خلیفہ عثمان رضی اللہ عنہ کے انتخاب (644ء تا 656ء) پر بہرحال ایک جماعت اپنی وضع قطع اختیار کر چکی تھی جس کا خیال تھا کہ علی رضی اللہ عنہ کو ناانصافی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، اس جماعت سے ہی اس تفرقے نے جنم لیا جسے شيعة علی اور مختصراً شیعہ کہا جاتا ہے۔ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد اب خلافت راشدہ کا اختتام قریب قریب تھا کہ جب علی رضی اللہ عنہ خلیفہ کے منصب پر آۓ (656ء تا 661ء)۔ لوگ فتنۂ مقتلِ عثمان رضی اللہ عنہ پر نالاں تھے اور علی رضی اللہ عنہ پر شدید دباؤ ان کے قاتلوں کی گرفتاری کے لیۓ ڈال رہے تھے جس میں ناکامی کا ایک خمیازہ امت کو 656ء کے اواخر میں جنگ جمل کی صورت میں دیکھا نصیب ہوا؛ پھر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حامیوں کی شکست کے بعد دمشق کے حاکم، امیر معاویہ نے علی رضی اللہ عنہ کی بیت سے انکار اور عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کا مطالبہ کر دیا، فیصلے کے لیۓ میدان جنگ چنا گیا اور 657ء میں جنگ صفین کا واقعہ ہوا جس میں علی رضی اللہ عنہ کو فتح نہیں ہوئی۔ معاویہ کی حاکمیت (660ء) مصر ، حجاز اور یمن کے علاقوں پر قائم رہی۔ 661ء میں عبد الرحمن بن ملجم کی تلوار سے حملے میں علی رضی اللہ عنہ شہید ہوۓ۔ یہاں سے ، علی رضی اللہ عنہ کے حامیوں اور ابتدائی سنی تاریخ دانوں کے مطابق ، خلافت راشدہ کے بعد خلیفۂ پنجم حسن رضی اللہ عنہ کا عہد شروع ہوا۔
661ء تا 1258ء
حسن رضی اللہ عنہ کی دستبرداری پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے 661ء میں خلافت بنو امیہ کی بنیاد ڈالی اور ایک بار پھر قبل از اسلام کے امرائی و اعیانی عربوں کا سا اندازِ حکمرانی لوٹ آیا[21]۔ پھر ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے، یزید (679ء) نے محمد ﷺ کے نواسے حسین رضی اللہ عنہ کو 680ء میں جنگ کربلا میں شہید کر دیا اور سنی ، شیعہ تفرقوں کی واضح بنیاد ڈالی۔ 699ء میں فقہی امام ابو حنیفہ کی پیدائش ہوئی۔ بنو امیہ کو 710ء میں محمد بن قاسم کی فتح سندھ اور 711ء میں طارق بن زیاد کی فتح اندلس (یہی امام مالک کی پیدائش کا سال بھی ہے) کے بعد 750ء میں عباسی خلافت کے قیام نے گو ختم تو کر دیا لیکن بنو امیہ کا ایک شہزادہ عبدالرحمٰن الداخل فرار ہو کر 756ء میں اندلس جا پہنچا اور وہاں خلافت قرطبہ کی بنیاد رکھی، یوں بنو امیہ کی خلافت 1031ء تک قائم رہی۔ ادھر عباسی خلافت میں کاغذ کی صنعت ، بغداد کے بیت الحکمۃ (762ء) جیسے شاہکار نظر آۓ تو ادھر اندلس میں بچی ہوئی خلافت امیہ میں جامع مسجد قرطبہ جیسی عمارات تعمیر ہوئیں۔ 767ء میں فقہی امام شافعی اور 780ء امام حنبل کی پیدائش ہوئی۔ 1258ء میں شیعیوں کی حمایت سے[22] ہلاکو کے بغداد پر حملے سے آخری خلیفہ ، موسیقی و شاعری کے دلدادہ ، معتصم باللہ کو قالین میں لپیٹ کر گھوڑوں سے روندا گیا اور خلیفۃ المسلمین و امیرالمومنین کی صاحبزادی کو منگولیا ، چنگیز خان کے پوتے مونکو خان کے حرم بھیج دیا گیا، مصلحت اندیشی سے کام لیتے ہوۓ ہلاکو نے اھم شیعہ عبادت گاہوں کو اپنے سپاہیوں سے بچانے کی خاطر پہرے دار مقرر کر دیۓ تھے ؛ یوں خلافت عباسیہ کا خاتمہ ہوا۔ عباسیہ عہد ہی میں اسلامی تاریخ کو کوئی 700ء سے شروع ہونے والے[23] اسلامی عہدِ زریں کا دیکھنا نصیب ہوا اور مسلم سائنسدانوں کی متعدد عظیم کتب اسی زمانے میں تخلیق ہوئیں اور اسی زمانے میں ان کی سیاہی کو دجلہ کا پانی کالا کرنے کے لیۓ استعمال کیا گیا[22]۔
خلافت تا خلافتیں
کہنے کو 1924ء تک گھسٹنے والی خلافت ، لغوی معنوں میں 632ء تا 1258ء تک ہی قائم سمجھی جاسکتی ہے[24] جبکہ فی الحقیقت اس کا عملی طور پر خاتمہ 945ء میں بنی بویہ کے ہاتھوں ہو چکا تھا[25]۔ ادھر ایران میں سامانیان (819ء تا 999ء) والے اور ایران کے متعدد حصوں سمیت ماوراء النہر و موجودہ ہندوستان کے علاقوں پر پھیلی غزنوی سلطنت (963ء تا 1187ء) والے ، عباسی خلافت کو دکھاوے کے طور براۓ نام ہی نمائندگی دیتے تھے۔ فاطمیون (909ء تا 1171ء) ، تیونس میں عباسی خلافت کو غاصب قرار دے کر اپنی الگ خلافت (920ء) کا دعویٰ کر چکے تھے[26] اور اسپین میں عبد الرحمن سوم ، 928ء میں اپنے لیۓ خلیفہ کا لقب استعمال کر رہا تھا[25]۔ یہ وہ سماں تھا کہ ایک ہی وقت میں دنیا میں کم از کم تین بڑی خلافتیں موجود تھیں ، اور ہر جانب سے خلیفہ بازی اپنے زوروں پر تھی ، یہ بیک وقت موجود خلافتیں ؛ خلافت عباسیہ ، خلافت فاطمیہ اور خلافت قرطبہ (اندلسی امیہ) کی تھیں۔ 1169ء میں نور الدین زنگی نے شیر کوہ کے زریعے مصر اپنے تسلط میں لے کر فاطمیہ خلافت کا خاتمہ کیا۔ صلاح الدین ایوبی (1138ء تا 1193ء) نے 1174ء میں ایوبی سلطنت کی بنیاد ڈالی[27] اور 1187ء میں عیسائیوں کی قائم کردہ مملکت بیت المقدس سے بیت المقدس کو آزاد کروا لیا۔ 1342ء میں ایوبی سلطنت کے خاتمے اور مملوک (1250ء تا 1517ء) حکومت کے قیام سے قبل اس سلطنت میں ایک خاتون سلطانہ ، شجر الدر (1249ء تا 1250ء) نے بھی ساتویں صلیبی جنگوں کے دوران قیادت کی[28]۔
طوائف الملوک تا استعماریت
1258ء میں چنگیز کے پوتے سے بچ نکلنے والے عباسیوں نے مصر میں مملوکوں کی سلطنت (1250ء تا 1517ء) میں خلفیہ کا لقب اختیار کر کے عباسی (فرار ہوجانے والی) خلافت کو مملوکوں کی عثمانیوں کے سلیم اول کے ہاتھوں شکست ہونے تک (1517ء) نام دکھاوے کی طرح قائم رکھا اور پھر سلیم اول نے آخری مصری عباسی خلیفہ، محمد المتوکل ثانی (1509ء تا 1517ء) کے بعد خلیفہ کا لقب اس سے اپنے لیۓ حاصل کر لیا۔ ھاشم ثانی کے بعد خلافت قرطبہ (756ء تا 1031ء) ختم ہوئی اور الاندلس چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ گیا۔ دولت مرابطین کے یوسف بن تاشفین نے 1094ء میں اسے پھر متحد کیا لیکن اس کے بعد دولت موحدون آئی اور معرکہ العقاب (1212ء) میں ان کی شکست پر دوبارہ اندلس کا شیرازہ بکھر گیا اور 1492ء میں ابو عبد اللہ اندلس کو عیسائیوں کے حوالے کر کہ مراکش آگیا۔ ادھر مشرق کی جانب مملوکوں سے سلطنت غزنویہ (986ء تا 1186ء) اور سلطنت غوریہ (1148ء تا 1215ء) نے خلافت کو طوائف بنانے میں اپنا کردار ادا کیا، اس کے بعد خلجی خاندان اور تغلق خاندان آۓ اور 1526ء میں سلطنت دہلی ، سلطنت مغلیہ بن گئی۔
استعماریت تا حال
اجمالی جائزہ
جغرافیائی اعتبار سے عیسائیت اور یہودیت کی طرح اسلام بھی ان ہی علاقوں سے دنیا میں آیا کہ جن کو مشرقی وسطٰی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اسلام میں حضرت محمد ﷺکے ساتھ دیگر تمام انبیاء پر ایمان رکھا جاتا ہے اور ان میں قرآن ہی کی سورت 35 (فاطر) کی آیت 24 کے مطابق ، قرآن میں درج 25 انبیاء و مرسال[29] کے علاوہ ان میں وہ تمام بھی شامل ہیں جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، مثال کے طور پر سدھارتھ گوتم بدھ مت اور دیگر مذاہب کی ابتداء کرنے والے[30]، قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لاۓ تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہوگئی۔
* یقیناً ہم نے بھیجا ہے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر۔
اور نہیں ہے کوئی امت مگر ضرور آیا ہے اس میں کوئی منتبہ کرنے والا۔ (قرآن؛ 35:24)
تقدمِ زمانی کے لحاظ سے تمام توحیدیہ مذاہب میں جدید ترین کتاب ہونے کے باوجود عقیدے کے لحاظ سے قرآن قدیم ترین الہامی کتاب سمجھی جاتی ہے اور عرب و عجم سمیت تمام دنیا کے مسلمانوں میں عربی ہی میں اسے پڑھا جاتا ہے، جبکہ اس کے متعدد لسانی تراجم کو (ساتھ درج عربی کے لیۓ) محض تشریح کی حیثیت حاصل ہوتی ہے[31]۔ اسلام میں جن باتوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے انکا ذکر اجزاۓ ایمان کے قطعے میں آچکا ہے، ان کے علاوہ توحید (شرک سے پرہیز)، اور تخلیق بھی ان اجزاء میں بیان کیۓ جاسکتے ہیں۔ عبادات میں نمازِ پنجگانہ و نمازِ جمعہ کے علاوہ عید و بقرعید وغیرہ کی نمازیں قابلِ ذکر ہیں؛ نمازوں کے علاوہ تمام ارکانِ اسلام عبادات میں ہی شمار ہوتے ہیں۔ اھم تہواروں میں عیدالفطر و عید الاضحٰی شامل ہیں۔ روزمرہ زندگی میں اسلامی آدابِ زندگی پر قائم رہنے کی کوشش کی جاتی ہے جن میں معاشرے کے مختلف افراد کے حقوق، مناسب لباس، بے پردگی سے بچاؤ اور آداب و القاب کا خیال رکھا جاتا ہے؛ خرد و نوش میں حلال و حرام کی تمیز ضروری ہے۔ ایمان ، سچائی اور دیانت ہر شعبۂ زندگی میں ملحوظ خاطر رکھنے کی تاکید کی جاتی ہے؛ کام کاج اور فرائض منصبی کو درست طور پر ادا کرنا اور محنت کی عظمت کے بارے میں متعدد احادیث بیان کی جاتی ہیں
اسلام و دیگر مذاہب
* تفصیلی مقالہ : اسلام و دیگر مذاہب
از روئے قرآن ، اسلام کی بنیادی تعلیمات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ محمد ﷺ سے قبل جتنے بھی مذاہب اس دنیا میں آئے وہ فی الحقیقت اسلام تھے اور جو عقائد محمد ﷺکی جانب سے انسانوں کو سکھائے گئے محمد ﷺ سے گذشتہ تمام انبیاء نے بھی ان ہی عقائد کی تبلیغ کی تھی۔ سورت النساء میں درج ہے؛
* بے شک ہم نے وحی بھیجی ہے تمہاری طرف جیسے وحی بھیجی تھی ہم نے نوح علیہ سلام اور ان نبیوں کی طرف جو اس کے بعد ہوئے اور وحی بھیجی ہم نے ابراہیم علیہ سلام ، اسماعیل علیہ سلام ، اسحاق علیہ سلام ، یعقوب علیہ سلام اور اوالادِ یعقوب علیہ سلام کی طرف اور عیسٰی علیہ سلام ، ایوب علیہ سلام ، یونس علیہ سلام ہارون علیہ سلام اور سلیمان علیہ سلام کی طرف اور دی ہم نے داؤد علیہ سلام کو زبور۔ قرآن 04:163
مذکورہ بالا آیت سے دوسرے مذاہب کے بارے میں اسلام کے نظریے کی وضاحت سامنے آجاتی ہے۔
اسلام میں انبیاء
قرآن ہی کی سورت 35 (فاطر) کی آیت 24 کے مطابق ، قرآن میں درج 25 انبیاء و مرسال[29] کے علاوہ اسلامی عقائد کے مطابق ایسے انبیا اکرام بھی ہیں کہ جن کا ذکر قرآن میں نہیں آتا، قطعہ بنام اجمالی جائزہ میں درج آیت سے یہ بات عیاں ہے کہ ہر امت میں نبی (یا انبیا) بھیجے گئے ، اس سلسلے میں ایک حدیث بھی مسند امام احمد بن حنبل اور فتح الباری بشرح صحیح البخاری میں آتی ہے کہ جس میں پیغمبران کی تعداد 124000 بیان ہوئی ہے[32] [33] [34]؛ ظاہر ہے کہ ان میں ان مذاہب کے وہ اشخاص منطقی طور پر شامل ہو جاتے ہیں کہ جن کو آج ان مذاہب کی ابتداء کرنے والا یا ان مذاہب کا خدا مانا جاتا ہے؛ مثال کے طور پر سدھارتھ گوتم بدھ مت اور دیگر مذاہب کی ابتداء کرنے والے[35]، گوتم بدھ کے بارے میں بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ پیغمبر ذوالکفل علیہ سلام (الانبیاء آیت 85) کی جانب اشارہ ہے اور kifl اصل میں سنسکرت کے لفظ (Kapilavastu) کو تشبیہ ہے[36]، گو یہ خیال سنی[36] اور شیعہ [37] کے علاوہ خود بدھ مذہب والوں میں بھی پایا جاتا ہے[38] لیکن چونکہ گوتم بدھ کا نام براہ راست قرآن میں نہیں آتا اس لیۓ متعدد علماء اس وضاحت کو تسلیم نہیں کرتے۔ قرآن کی رو سے یہ تمام اشخاص خدا کی طرف سے وہی پیغام اپنی اپنی امت میں لاۓ تھے کہ جو آخری بار قرآن لایا، مگر ان میں تحریف پیدا ہوگئی۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار کی تعداد کے بارے میں متعدد نظریات دیکھنے میں آتے ہیں اور بہت سے علماء کے نزدیک یہ عدد کوئی معین یا ناقابل ترمیم نہیں ہے[39]۔
اسلام پر انتقاد
حوالہ جات
جہاں تک ممکن ہوسکا ، روۓ خط (online) حوالہ جات کو ترجیح دی گئی ہے۔ موضوع پر تمام مسلم و غیرمسلم ، تفرقاتی و طبقاتی پہلوؤں کو سامنے لانے کی خاطر حوالہ جات پر کوئی دینی و لادینی ، اسلامی و غیراسلامی یا تفرقاتی پابندی نہیں ؛ ماسواۓ کہ (اپنے مقام پر) مصدقہ ہوں۔ روۓ خط مقامات تبدیل بھی ہوسکتے ہیں اس لیۓ مضامین کے عنوانات انگریزی ہی میں دیۓ جارہے ہیں۔ کسی حوالے پر اعتراض ہو تو تبادلۂ خیال پر بیان کیجیۓ۔
1. ^ 1.0 1.1 Is the Qur’an for Arabs Only? By Abul A’la Mawdudi روۓ خط موقع
2. ^ مسلم آبادی 1.6 ارب اور 1.82 ارب کا بیان
3. ^ Learning Arabic at Berkeley By Sonia S’hiri اسی کروڑ
4. ^ اردو ترجمے کے ساتھ ایک موقع بنام آسان قرآن
5. ^ ahl al-quran at oxford islamic studies online روۓ خط صفحہ
6. ^ the ahle sunnat wal jamaat روۓ خط صفحہ
7. ^ Ahl-i Hadith روۓ خط بیان
8. ^ see: sachal sarmast at dargahs of india and the world روۓ خط صفحہ
9. ^ shia encyclopedia at scribd روۓ خط صفحہ
10. ^ آسان قرآن
11. ^ preservation of quran روۓ خط مضمون
12. ^ basic articles of faith صفحہ روۓ خط
13. ^ fundamental articles of faith صفحہ روۓ خط
14. ^ islamic academy نامی موقع پر ایمان مفصل و مجمل کا بیان
15. ^ demographics of islam روۓ خط صفحہ
16. ^ how many shia are there? روۓ خط صفحہ
17. ^ five pillars of islam at islamicity صفحہ روۓ خط
18. ^ the five pillars of islam in the shia sect صفحہ روۓ خط
19. ^ the pillars of islam: (da’a’im al-islam of al-qadi al nu’man oxford univ. press 780195684353 کتب فروش موقع
20. ^ druze at looklex encyclopaedia روۓ خط صفحہ
21. ^ the first dynasty of islam by G.R. Hawting روۓ خط اقتباس
22. ^ 22.0 22.1 invaders by ian frazier: the new yourker روۓ خط مضمون
23. ^ Matthew E. Falagas, Effie A. Zarkadoulia, George Samonis (2006). "Arab science in the golden age (750–1258 C.E.) and today”, The FASEB Journal 20, p. 1581-1586.
24. ^ caliphate at student britannica صفحہ روۓ خط
25. ^ 25.0 25.1 caliphate at encyclopedia britannica صفحہ روۓ خط
26. ^ caliphate at history.com روۓ خط مضمون
27. ^ medieval crusades روۓ خط مضمون
28. ^ Female Heroes from the Time of the Crusades روۓ خط مضمون
29. ^ 29.0 29.1 islam web: fatwa 84425; number of messengers in quran روۓ خط مضمون
30. ^ islam and buddhism by harun yahya روۓ خط مضمون
31. ^ what everyone needs to know about islam by John Esposito
32. ^ فتح الباری بشرح صحیح البخاری روئے خط
33. ^ پاکستان لنک نامی ایک موقع روئے خط بیان
34. ^ دارالافتاء پر ایک بیان روئے خط موقع
35. ^ islam and buddhism by harun yahya روۓ خط مضمون
36. ^ 36.0 36.1 تنظیم اسلامی کے موقع پر بیان القرآن؛ Surah An-Nisa (Ayat 158-176) (پیڈی ایف ملف)
37. ^ ایک شیعہ موقع پر ایک لاکھ چوبیس ہزار کے عدد کا ذکر روئے خط مضمون
38. ^ قرآن میں گوتم بدھ کے بارے میں بدھ موقع روئے خط
39. ^ darul ifta; question روئے خط ربط
40. ویکیپیڈیا