URDUSKY || NETWORK

محترمہ بینظیر بھٹو، ایک شخصیت، ایک سیاستدان

107

محترمہ بینظیر بھٹو، ایک شخصیت، ایک سیاستدان

ستائیس دسمبر کو پاکستان میں مقبول سیاسی لیڈر بے نظیر بھٹو کی دوسری برسی

تحریروتحقیق:محمد الطاف گوہر

ہر طرف سناٹا سا چھایا ہوا تھا، ہو کا عالم اور سڑکوں پر بھیڑ اتنی کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، یا الٰہی ما جرا کیا ہے ؟ شام کے وقت جب دفتر سے گھر کی راہ لی تو ہر طرف دھوئیں کے بادل دکھائی دئیے ، ہر طرف لوگوں کا جم غفیر تھا کہ حیرت کی انتہا نہ رہی ، لاہور کی سڑکوں پر اتنا ہجوم پہلے کبھی نہ دیکھا تھا،چہروں سے لگتا تھا کہ جیسے گہری خاموش نگاہیں کسی غیر یقینی کیفیت کا شکار ہیں اور سوالیہ نشان بنے خلا میں کچھ ڈھونڈ رہی ہیں، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ پہلے تو کبھی اسطرح کی کیفیت اور معاملہ دیکھنے کو نہ ملا تھا۔
بے خبری کا عالم تھا،کیونکہ آج خبریں سننے کا اتفاق نہ ہو سکا۔ میرا خیال تھا کہ اس علاقہ میں کوئی گھمبیر واقعہ ہو گیا ہے جو ساری آبادی امڈ آئی، مگر جب ایک سڑک سے دوسری سڑک تک آیا تو کوئی تبدیلی نظر نہ آئی اور ہر طرف ایک سا سماں تھا ، میرا چہرہ سوالیہ نشان بن گیا کہ ایسی کونسی افتاد ٹوٹ پڑی کہ ہر طرف لوگ ہی لوگ جمع ہیں ۔ ملکی پیمانے پر کوئی بات لگتی ہے جو اتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہیں مگر عرصہ دراز سے ہمارے ملک میں تو سیاست تو دفن ہو چکی تھی کیونکہ امریت کا دور دورہ تھا، البتہ ایک نئی بساط پچھائی گئی اور سارے مہرے نئے سرے سے امپورٹ کئیے گئے تھے ، عوام میں نئے سرے سے جمہوریت کی صدا بلند کی جارہی تھی ، انہی سوچوں میں مگن میں نے ایک مجمع کے پاس گاڑی روکی اور پوچھا بھی ماجرا کیا ہے؟ تو وہ شخص حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا جیسے میں نے کوئی عجیب سی بات کر دی ، اور غمناک لہجے میں بولا ” آ پکو نہیں پتا کہ آج محترمہ بینظیر بھٹو کا قتل ہو گیا” ، اسکی بات سن کر مجھے واقعی بہت صدمہ ہوا جیسے کہ فیملی کا کوئی فرد انتقال کر گیا ہو، اس شخص سے دوسرا سوال کیا کہ ” کیا آپ سب لوگ پیپلز پارٹی کے ہیں ؟” تو وہ بولا بھئی میں اور میرے دوست کسی پار ٹی سے نہیں مگر ہمیں اس واقعہ کا گہرا صدمہ ہوا ہے اور افسوس کی خاطر جمع ہوئے ہیں کہ ” اس بات سے قطع نظر کہ محترمہ ایک خاتون تھیں، وہ ایک نڈر،عظیم لیڈر ، کامیاب شخصیت اور سیاسی لیڈر تھیں”۔
دسمبر، 2007۔ پاکستان کی سحر انگیز سیاسی شخصیت کی مالک سابق وزیرِ اعظم، بے نظیر بھٹو کو ان کی انتخابی مہم کے دوران قتل کر دیا گیا۔ انھوں نے ملک سے فوجی حکومت ختم کرنے اور جمہوریت بحال کرنے کا عہد کیا تھا۔ پھر ان کے بعد انکے شوہر آصف علی زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی نے فتح سے ہمکنار کروایا اور گذشتہ سال پرویز مشرف کے سبکدوش ہونے کے بعد وہ ملک کے صدر بن گئے۔ آج ستائیس دسمبر کو پاکستان میں سیاسی لیڈر بے نظیر بھٹو کے قتل کی دوسری برسی پر خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دو سال قبل آج ہی کے دن، پاکستان کی دو مرتبہ وزیراعظم رہنے والی بے نظیر کو راولپنڈی میں انتخابی جلسے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ ان کے قتل سے جڑے معاملات ابھی تک حل طلب ہیں۔ مقامی تحقیقی اداروں کے علاوہ برطانیہ کے سکاٹ لینڈ یارڈ، امریکہ کی ایف بی آئی کے علاوہ اقوام متحدہ کے خصوصی تحقیقاتی کمیشن نے بھی سانحہ کی تفتیش میں حصہ لیا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ زرداری کی حکومت بہت کمزور ہے۔ تجزیہ کار ملک کی خراب اقتصادی حالت اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جس میں مسٹر زرداری اور ان کی کابینہ کے کچھ ارکان کے خلاف کرپشن کے کیس دوبارہ کھولنے کے لیے کہا گیا ہے ۔ ملک میں وکلا ء اور بہت سے عام پاکستانیوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔ جہاں تک دو برس قبل بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان میں جمہوریت کا تعلق ہے، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال مِلی جُلی ہے۔حالات اب بہت بہتر ہیں کیوں کہ پاکستان میں اب سویلین انتظامیہ ہے، عدلیہ بحال ہو چکی ہے اور عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ کو عوامی حمایت حاصل ہے۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستان میں جمہوریت کی جڑیں اب تک مضبوط نہیں ہوئی ہیں۔ سویلین حکومت کو جمہوری ادارے تعمیر کرنے اور کرپشن پر قابو پانے کے لیے تیزی سے کارروائی کرنی چاہیئے۔
وکیپیڈیا ایک تجزیہ میں لکھتا ہے کہ "محترمہ کے کچھ متنازعہ بیانات کے باعث پاکستانی قوم میں بڑا اضطراب پیدا کردیا۔ جیسا کہ انکے بیانات میں؛ لال مسجد آپریشن کی کھل کر حمایت کی؛ ایک انٹرویو میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ امریکی افواج کو پاکستانی سرزمین پر کاروائی کی اجازت دے دیں گی؛ ایک اور موقع پر انہوں نے کہا کہ بر سر اقتدار آنے کے بعد وہ ملک کے عظیم ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیرخان کو پوچھ گچھ کے لئے امریکہ کے حوالے کردیں گی۔ جبکہ قوم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئ کہ کرسی کے حصول کیلئے امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے کی خاطر محترمہ کس حد تک جا سکتی ہیں۔”
ملک پاکستان میں اگر ایک طرف ادارے مضبوط ہو رہے ہیں تو دوسری طرف سیاسی کھیل بھی جاری ہے، دعاگو ہیں کہ پاکستان کو ایسے اچھے لیڈر ملیں جو اس ملک کو انتشار اور بدامنی کے فضا سے نکال کر پرسکون اور کامیابی کی راہ پر ڈال سکیں اور جس مقصد اور بنیادوں ہر یہ ملک آزاد ہوا تھا کہ "مسلمان اپنی ایک علیحدہ شناخت رکھتے ہیں” اور پاکستان کی اساس اسلامی بنیادوں پر ڈالی گئی ، اس پر قائم رہتے ہوئے عوام کے مسائل حل کر سکیں، آمین!