URDUSKY || NETWORK

امیر تیمور

139


تیمور لنگ

امیر تیمور جو تیمور لنگ کے نام سے بھی مشہور تھا (پیدائش: 1335ء، وفات: 1405ء) تیموری سلطنت کا بانی ایک تاریخ عالم کا ایک عظیم جنگجو حکمران تھا۔
تیمور ایک ترک قبیلے برلاس سے تعلق رکھتا تھا جس کا چنگیز خان کے خاندان سے قریبی تعلق تھا۔ تیمورلنگ کا تعلق سمرقند سے تھا۔ وہ سمرقند کے قریب ایک گاؤں’’کیش‘‘ میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین معمولی درجے کے زمیندار تھے۔۔ تیمور دریائے جیحوں کے شمالی کنارے پر واقع شہر سبز (جس کو کش بھی کہتے ہیں) 1336ء میں پیدا ہوا۔ یہ علاقہ اس وقت چغتائی سلطنت میں شامل تھا جو زوال کی منازل طے کررہی تھی۔ چغتائی حکمران بے بس ہوچکے تھے اور ہر جگہ منگول اور ترک سردار اقتدار حاصل کرنے کے لئےایک دوسرے سے لڑرہے تھے۔
وہ جوان ہوا تو وہ سپاہی کی حیثیت سے فوج میں بھرتی ہو گیا۔ چند ماہ بعد اس نے سپہ سالار کو قتل کر دیا اور فوج کی عنان سنبھال لی۔
یہ ایک چھوٹے درجہ کے امیر کی جوف تھی۔ بادشاہ تیمور کی خداداد صلاحیتوں سے ڈر گیا۔ اس نے تیمور سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ تیمور کو امیر کی سازشوں کی بھنک پڑگئی۔ لہٰذا اس نے امیر سے بھی جان چھڑالی اور وہ خود بادشاہ بن گیا۔ یہ اس کی پہلی بادشاہت تھی اس کے بعد وہ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا اور اس نے آدھی دنیا روند ڈالی۔ چودہ سو تین میں جب اس کا انتقال ہوا تو وہ فاتح عالم اور تیمور دی گریٹ بن چکا تھا۔
تیمور نے جو ایک اچھا سپاہی اور بے مثل سپہ سالار تھا ان حالات سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تمام مقامی سرداروں کو شکست دینے کے بعد 1366ء میں بلخ میں تخت نشین ہوا۔ اس وقت تک وہ ترکستان اور موجودہ افغانستان کے بڑے حصے پر قابض ہوچکا تھا۔ تخت نشین ہونے کے بعد اس نے صاحب قران کا لقب اختیار کیا۔ (علوم نجوم کی رو سے صاحب قران وہ شخص کہلاتا ہے جس کی پیدائش کے وقت زہرہ اور مشتری یا زحل اور مشتری ایک ہی برج میں ہوں۔ ایسا شخص اقبال مند، بہادر اور جری سمجھا جاتا ہے مجازا اپنے دور کا عظیم ترین حکمران)۔
تیمور اگرچہ اب آزاد اور خودمختار حکمران تھا لیکن اس نے خود کو ہمیشہ امیر کہا کیونکہ معاہدے کے تحت حکمرانی کا حق چنگیز خان کی اولاد کو حاصل تھا۔تیمور نے اس غرض سے عرصے تک چنگیز خان کے خاندان سے ایک شخص کو بادشاہ بنائے رکھا لیکن اس کی حیثیت ایک کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں تھی فتوحات
بلخ میں تخت نشین ہونے کے بدع تیمور نے ان تمام علاقوں اور ملکوں پر قبضہ کرنا اپنا حق اور مقصد قرار دیا جن پر چنگیز خان کی اولاد حکومت کرتی تھی۔ اس غرض سے اس نے فتوحات اور لشکر کشی کے ایسے سلسلے کا آغاز کیا جو اس کی موت تک پورے 37 سال جاری رہا۔ تیمور کے ابتدائی چند سال چغتائی سلطنت کے باقی ماندہ حصوں پر قبضہ کرنے میں صرف ہوگئے۔ وہ 776ھ میں کاشغر اور 781ھ میں خوارزم پر قابض ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے خراسان کا رخ کیا۔ 1381ء بمطابق 783ھ میں ہرات کے خاندان کرت کو اطاعت پر مجبور کیا۔ اگلے سال نیشاپور اور اس کے نواح پر اور 785ھ میں قندھار اور سیستان پر قبضہ کیا۔ 1386ء میں اس نے ایران کی مہم کا آغاز کیا جو "یورش سہ سالہ” کہلاتی ہے اور اس مہم کے دوران ماژندران اور آذربائجان تک پورے شمالی ایران پر قابض ہوگیا ۔اس مہم کے دوران اس نے گرجستان پر بھی قبضہ کیا۔
روس کی مہم
1391ء میں تیمور نے سیر اوردہ یعنی خاندان سرائے کے خان توقتمش کے خلاف لشکر کشی کی جو فوجی نقطہ نظر سے فن حرب کا ایک عظیم کارنامہ سمجھی جاتی ہے۔ سرائے کے خان توقتمش کو سائبیریا کے آق اوردہ خاندان کے حکمران ارس خان نے تخت سے بے دخل کردیا تھا۔ تیمور نے توقتمش کی مدد کی اور اس کو دوبارہ تخت دلادیا لیکن توقتمش خوارزم کو اپنی سلطنت کا ایک حصہ سمجھتا تھا اس لیے اس نے تیمور کا احسان ماننے کے بجائے تیمور سے خوارزم کی واپسی کا مطالبہ کردیا۔ خوارزم دونوں حکمرانوں کے درمیان ایک مستقل نزاع بن گیا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے توقتمش بار بار تیموری مملکت پر حملہ آور ہوا۔ کبھی سیر دریا اور خوارزم کے راستے اور کبھی قفقاز اور آذربائجان کے راستے۔ تیمور نے توقتمش کی سرکوبی کے لیے دومرتبہ روس پر لشکر کشی کی۔ ان میں پہلی لشکر کشی 1391ء میں سیر دریا یعنی دریائے سیحوں کے راستے کی گئی۔ تیمور اپنے عظیم لشکر کو قازقستان کے راستے جنوبی ارتش اور یورال تک بے آب و گیاہ میدانوں اور برف زاروں سے کامیابی سے گذار کر لے گیا اور دریائے قندزجہ کے کنارے موجودہ سمارہ کے قریب 18 اپریل 1391ء کو توقتمش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دی۔
ایران پر لشکرکشی
تیموری سلطنت 1405ء میں، گلابی حلقہ منگول سلطنت کو ظاہر کرتا ہے
روس کی مہم سے واپسی کے بعد تیمور نے 1392ء میں ایران میں نئی لشکر کشی کا آغاز کیا جو "یورش پنج سالہ” کہلاتی ہے۔ اس مہم کے دوران اس نے ہمدان، اصفہان اور شیراز فتح کیا۔ آل مظفر کی حکومت کا خاتمہ کیا اور بغداد اور عراق سے احمد جلائر کو بے دخل کیا۔ اس طرح وہ پورے ایران اور عراق پر قابض ہوگیا۔ تیمور ایران کی مہم سے فارغ ہوکر ابھی تبریز واپس ہی آیا تھا کہ اس کو اطلاع ملی کہ توقتمش نے دربند کے راستے پر حملہ کردیا ہے۔ تیمور نے دریائے تیرک کے کنارے 18 اپریل 1395ء کو توقتمش کو ایک اورشکست فاش دی۔ اسکے بعد تیمور نے پیش قدمی کرکے سیر اوردہ کے دارالحکومت سرائے کو تباہ و برباد کردیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس مہم کے دوران تیمور استراخان، ماسکو، کیف اور کریمیا کےشہروں کو فتح کرتا اور تباہی پھیلاتا ہوا براستہ قفقاز، گرجستان اور تبریز 798ھ میں سمرقند واپس آگیا۔
ہندوستان پر حملہ
1398ء میں تیمور ہندوستان کو فتح کرنے کے ارادے سے روانہ ہوا۔ ملتان اور دیپالپور سے ہوتا ہوا دسمبر 1398ء میں دہلی پہنچا۔ دہلی کو فتح کرنے اور وہاں قتل عام کرنے کے بعد وہ میرٹھ گیا اور وہاں دریائے جمنا کی بالائی وادی میں ہندوؤں کے مقدس مقام ہردوار میں لوگوں کا یہ سمجھ کر قتل عام کیا کہ کافروں کو مار کر ثواب کمایا جارہا ہے۔ اس جگہ تیمور کو اپنی سلطنت کی مغربی سرحدوں سے تشویشناک خبریں ملیں۔ احمد جلائر سلطان مصر کی مدد سے پھر بغداد واپس آگیا تھا اور اس کےاور قرہ یوسف ترکمان کے ورغلانے سے عثمانی سلطان بایزید یلدرم ان سب کے ساتھ مل کر تیمور کے خلاف محاذ بنارہا تھا چنانچہ تیمور فورا سمرقند واپس ہوا۔
فتح شام
1399ء میں تیمور سمرقند سے اپنی آخری اور طویل ترین مہم پر روانہ ہوا۔ تبریز پہنچ کر اس نے سلطان مصر کے پاس سفیر بھیجے جن کو قتل کردیا گیا چنانچہ تیمور سلطان مصر کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوا جو احمد جلائر کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ حلب، حماہ، حمص اور بعلبک فتح کرتا ہوا دمشق پہنچا اور حسب دستور لوگوں کا قتل عام کیا اور شہر میں آگ لگادی۔ اس کے بعد وہ بغداد آیا لیکن احمد جلائر اس کے بغداد پہنچنے سے پہلے ہی فرار ہوگیا۔
جنگ انقرہ
اس دوران سلطان بایزید یلدرم نے احمد جلائر اور قرہ یوسف کی تحریک پر جو اس کے پاس پناہ گزین تھے، ایشیائے کوچک میں تیموری علاقوں پر حملہ کردیا۔ تیمور نے اختلافات کو خط و کتابت کے ذریعے حل کرنا چاہا لیکن جب اس میں کامیابی نہ ہوئی تو اس نے سلطنت عثمانیہ پر لشکر کشی کردی۔ سیورس کا دفاع کرنے والے 4 ہزار سپاہیوں کو زندہ دفن کردیا۔ بایزید اس وقت قسطنطنیہ (استنبول) کےمحاصرے میں مصروف تھا۔ تیمور کے حملے کی اطلاع ملی تو محاصرہ اٹھاکر فورا اناطولیہ کی طرف روانہ ہوا۔ انقرہ کے قریب 21 جولائی 1402ء کو دونوں کے درمیان فیصلہ کن جنگ ہوئی جو جنگ انقرہ کے نام سے مشہور ہے۔ بایزید کو شکست ہوئی اور وہ گرفتار کرلیا گیا لیکن تیمور اس کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آیا۔ یہ روایت کہ تیمور نے اس کو پنجرے میں بند کردیا تھا اور اپنے ساتھ لیے لیے پھرتا تھا بالکل غلط ہے۔ جنگ انقرہ کے بعد تیمور کے لشکر نے بروصہ اور ازمیر تک سارا ایشیائے کوچک اجاڑ ڈالا۔ مصر کے مملوک سلطان کو جب اطلاع ملی کہ تیمور نے بایزید جیسے طاقتور حکمران کو شکست دے کر گرفتار کرلیا تو سفیر بھیج کو تیمور کی اطاعت کرلی۔ مصر میں تیمور کے نام کا سکہ ڈھالا اور مکہ اور مدینہ میں اس کے نام کا خطبہ پڑھنے کا حکم دیا۔
انتقال
سمرقند واپس آنے کے بعد تیمور نے چین پر حملے کی تیاریاں شروع کردیں۔ چین میں ایک زمانے میں چنگیز خان کی اولاد کے قبضے میں رہ چکا تھا اس لیے تیمور اس پر بھی اپنا حق سمجھتا تھا۔ اس کےعلاوہ تیمور کفاران چین کے خلاف جہاد کرکے اس خونریزی کی تلافی کرنا چاہتا تھا جس کا شکار اب صرف مسلمان ہوئے تھے۔ سردیاں شباب پر تھیں اور تیمور بوڑھا تھا۔ سیر دریا کو پار کرکے جو منجمد ہوچکا تھا جب وہ اترار پہنچا تو اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور اسی جگہ 18 فروری 1405ء کو اس کا انتقال ہوگیا۔ اس کی لاش سمرقند لاکر دفنائی گئی۔ لڑائیوں میں زخم کھانے کی وجہ سے تیمور کا دایاں ہاتھ شل ہوگیا تھا اور دائیں پاؤں میں لنگ تھا۔ اس لیے مخالف مورخین اس کو حقارت سے تیمور لنگ لکھتے تھے۔
تیمور بحیثیت فاتح اور حکمران
فتوحات کی وسعت کے لحاظ سے تیمور کا شمار سکندر اعظم اور چنگیز خان کے ساتھ دنیا کے تین سب سے بڑے فاتح سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ فتوحات کی کثیر میں وہ شاید چنگیز سے بھی بازی لے گیا۔ چنگیز کے مفتوحہ علاقوں کا طول مشرق سے مغرب تک بہت زیادہ تھا لیکن شمالا جنوبا عرض تیمور کے مقابلے میں کم تھا۔ پھر چنگیز کی سلطنت کا ایک بڑا حصہ اس کے سپہ سالاروں نے فتح کیا تھا جبکہ تیمور دہلی سے ازمیر تک اور ماسکو سے دمشق اور شیراز تک ہر جگہ خود گیا اور ہر جنگ میں خود شرکت کی۔ چنگیزجنگ کی منصوبہ بندی اچھی کرسکتا تھا جبکہ تیمور میدان جنگ میں فوجوں کو لڑانے میں استاد تھا۔ 1393ء میں کلات اور تکریت کے ناقابل تسخیر پہاڑی قلعوں کی تسخیر اس کی اس صلاحیت کا بڑا ثبوت سمجھی جاتی ہے۔
(چنگیز اور تیمور کی جنگی صلاحیتوں کے تقابل کے لئےدیکھئے ہیرلڈ لیمب کی کتابیں”چنگیز خان” اور "تیمور”۔ ان دونوں کتابوں کا مولوی عنایت اللہ نے اردو میں ترجمہ کیا ہے)
تیمور کی بحیثیت ایک سپہ سالار حیرت انگیز صلاحیتوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن اس نے اس خداداد صلاحیت سے جو کام لیا وہ اسلامی روح کے خلاف تھا۔ اس کی ساری فتوحات کا مقصد ذاتی شہرت اور ناموری کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا۔ اس لحاظ سے وہ خالد بن ولید، محمود غزنوی، طغرل اور صلاح الدین ایوبی کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔ وہ انتقام کے معاملے میں بہت سخت تھا۔ مخالفت برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ وہ مسلمان ہونے کے باوجود خونریزی اور سفاکی میں چنگیز خان اور ہلاکو خان سے کم نہیں تھا۔ دہلی، اصفہان، بغداد اور دمشق میں اس نے جو قتل عام کئے ان میں ہزاروں بے گناہ موت کے گھاٹ اتار دیئےگئے۔ وہ انتقام کی شدت میں شہر کے شہر ڈھادیتا تھا۔ خوارزم، بغداد اور سرائے کے ساتھ اس نے یہی کیا۔ صرف مسجد، مدرسے اورخانقاہیں غارت گری سے محفوظ رہتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں منگولوں کی طرح وہ بھی اللہ کا عذاب تھا۔
تیمور نے اپنی فتوحات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور کوئی تعمیری کام نہیں کیا۔ مفتوحہ ممالک کا بڑا حصہ ایسا تھا جس کواس نے اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ نہیں بنایا۔ ان ملکوں کا وہ مقامی حکمرانوں کے سپرد کردیتا تھا اور ان سے صرف اطاعت کا وعدہ لے کر مطمئن ہوجاتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایشیائے کوچک، شام، روس اور ہندوستان کے وسیع مفتوحہ علاقے جو بڑی خونریزی کے بعد حاصل ہوئے تھے تیموری سلطنت کا حصہ نہ بن سکے۔ اگر وہ ان ملکوں کو اپنی سلطنت کا انتظامی حصہ بنالیتا تو دنیا کی ایک عظیم الشان سلطنت وجود میں آتی۔ اس معاملے میں چنگیز اور منگول تیمور سے بہتر تھے کہ وہ جس علاقے کو فتح کرتے تھے اس کو براہ راست اپنے زیر انتظام بھی لے آتے تھے۔ اس نے قفقاز کے علاقے میں لوگوں کو زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش بھی کی جو اسلام کی روح اور تعلیم کے خلاف ہے۔
تیمور نے توقتمش، بایزید یلدرم اور سلطان مصر کو شکست دے کر عالم اسلام کی دو بڑی طاقتوں کو ختم تو کردیا لیکن ان کی وجہ سے جو خلا پیدا ہوا اس کوپر نہ کرسکا۔ اگر بایزید کی طاقت ختم نہ ہوتی تو بلقان کا علاقہ ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانوں کے قبضے میں آچکا ہوتا۔ سرائے کی مملکت کی تباہی بھی اسلامی دنیا کے لیے اچھی ثابت نہ ہوئی۔ سرائے کی طاقتور مملکت کے ختم ہونے سے ماسکو کی نئی طاقت ابھرنے کے لیے راستہ صاف ہوگیا۔ تیمور نے روس میں توقتمش کے خلاف اور ایشیائے کوچک اور مصر میں سلطنت عثمانیہ اور مملوکوں کے خلاف جو لشکر کشی کی اگرچہ ہم اس کا الزام تیمور پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس نے اپنی طرف سے صلح و صفائی سے مسئلہ حل کرنے کی پوری کوشش کی تھی، لیکن ان لشکر کشیوں کے نتیجے میں دنیائے اسلام کو جو نقصان پہنچا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اسلامی تاریخ میں تیمور کا دور ایک بدنما دھبہ ہے۔ اس دور میں دنیا کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تیمور کو مناسب اسلامی تربیت نہيں ملی تھی اور اس کی نشوونما تورہ چنگیزی کی حدود میں اور نیم وحشی منگول ماحول میں ہوئی تھی۔
بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس علاقے میں تیمور نے اپنی مستقل حکومت قائم کی وہاں اس نے قیام امن اور عدل و انصاف، خوشحالی اور ترقی کے سلسلے میں قابل قدر کوششیں کی۔ برباد شدہ شہروں کو دوبارہ تعمیر کیا اور تجارت کو فروغ دیا۔
سمرقند
دارالسلطنت سمرقند پر اس نے خاص توجہ دی۔ ہیرلڈ لیمب لکھتا ہے کہ جس وقت سمرقند پر تیمور کا تسلط ہوا وہاں سوائے کچھ کچی اینٹوں اور لکڑی مکانوں کے کچھ اور نہ تھا مگر یہی کچی اینٹوں اور لکڑی کا شہر تیمور کے ہاتھوں میں آکر ایشیا کا روم بن گیا۔ وہ ہر مفتوحہ علاقے سے صناعوں، دستکاروں، فنکاروں، عالموں اور ادیبوں کو پکڑ پکڑ کر سمرقند لے آیا اور اپنے دارالحکومت کو نہ صرف شاندار عمارتوں کا شہر بنادیا بلکہ علم وادب کا مرکز بھی بنادیا۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ اس کی اولاد نے اس ہی کی آخری الذکر روایات کو اپنایا جس کی بدولت وسط ایشیا کے تیموری دور کو تاریخ میں ایک ممتاز مقام مل گیا۔
تیمور نے سمرقند کی شہر پناہ درست کی۔ شہر کے دروازوں سے وسط شہر کے بازار راس الطاق اور شہر سے دریا تک چوڑی چوڑی سڑکیں تعمیر کرائیں۔ جنوب کے پہاڑوں پر قائم مکانات کو گرا کر قلعہ تعمیر کرایا۔ باغوں کے گرد دیواریں اور جابجا پانی کے تالاب بنوائے۔ سمرقند کی عمارتیں اس وقت تک خاکی رنگ کی ہوتی تھیں لیکن اب درودیوار، برج اور گنبد فیروزی رنگ کے ہوگئے اور اس لاجوردیرنگ کی وجہ سے سمرقند کو گوک کند یعنی نیلاشہر کہا جانےلگا۔ تیمور کے زمانے میں صرف ارک کے علاقے کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تھی۔ یہ علاقہ قلعہ اور اس سے متصل تھا۔ مغل حکمران بابر جو تیمور کے انتقال کے ایک سو سال بعد اس وقت سمرقند پہنچا جب وہ اپنی ماضی کی دلکشی بھی کھوچکا تھا لیکن اس نے اپنی کتاب تزک بابری میں شہر کا حال کچھ اس طرح لکھا ہے:
"سمرقند کی مشہور ترین عمارات میں امیر تیمور کا محل ہے جو ارک سرائے کے نام سے مشہور ہے۔ محل کے بعد یہاں کی جامع مسجد اول درجے کی ہے۔ اس کے پیش طاق پر لکھی ہوئی آیت کریمہ "اذ یرفع ابراھیم القواعد” اس قدر جلی حروف میژں ہے کہ ایک کوس سے پڑھی جاتی ہے۔ امیر تیمور کے بنائے ہوئے دو باغ بھی سمرقند کے عجائبات میں سے ہیں۔
امیر تیمور کے وارثوں میں سے محمد سلطان مرزا، الغ بیگ مرزا اور دوسروں نے بھی کئی عمارات بنواغیں جن میں خانقاہ بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کا گنبد اتنا بڑا ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ خانقاہ سے ملحقہ مدرسے میں گو بہت سی خوبیاں ہیں لیکن اس کا حمام تو پورے خراساں اور ماوراء النہر میں اپنی مثال آپ ہے۔ مدرسے کے جنوب میں مسجد منقطع بھی اپنی خصوصیت کے لحاظ سے قابل ذکر ہے۔ پہاڑ کے دامن میں ایک بڑی رصد گاہ ہے جہاں الغ بیگ نے زیرچ گورگافی مرتب کی۔ سمرقند کی قابل ذکر عمارتوں میں چہل ستون کی عمارت بھی ہے۔ اس عمارت سے متصل ایک وسیع باغیچہ ہے جس میں ایک عجیب و غریب بارہ دری بنی ہے جس کا نام چینی خانہ ہے۔ سمرقند کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں پر پیشے اور صنعت کے بازار الگ الگ ہیں۔ سمر قند میں بہت نفیس کاغذ تیار ہوتا ہے جس کی ساری دنیا میں مانگ ہے”۔
حوالہ جات:
1.زندگی نامہ تیمور
2.جنگ انقرہ
3.تیموری سلطنت
4.ملفوظات تیموری
5. وکیپیڈیا