URDUSKY || NETWORK

پارکنسن کے مرض کا ربط مدافعتی نظام سے

100

پارکنسن کا مرض فالج کی ایک بتدریج بڑھتی ہوئی صورت، جس کی نمایاں علامات عضلات میں لچک کا ضیاع، رعشہ اور متزلزل چال ہوتی ہے۔

امریکی محققین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کے اندر پایا جانے والے مدافعتی نظام یا Immune system پارکنسنیت کے شکار انسانوں کے اندر غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے اور نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔
امریکی طبی سائنسدانوں کی 20 سال پر محیط ریسرچ، جس میں چار ہزار لوگوں پر تحقیق کی گئی اور جن میں سے نصف پارکنسن کی بیماری میں مبتلا تھے سے پتا چلا کہ پارکنسن کے عارضے اور انسانی جسم میں پائے جانے والے جینز جو امیون سسٹم یا مدافعتی نظام کو برقرار رکھتے ہیں، میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ طبی جریدے Nature Genetics میں شائع ہونے والی اس رپورٹ سے یہ امکان بھی سامنے آیا ہے کہ پارکنسن کی بیماری کی نئی ادویات تیار کی جا سکیں گی۔
پارکنسن کے برطانوی ادارے UK Parkinsons کا کہنا ہے کہ اس سے مدافعتی قوت کی اہمیت اور زیادہ اجاگر ہو گئی ہے۔ امریکی محققین کی یہ ٹیم نہ صرف پارکنسن کی بیماری کی جینیاتی وجوہات کا مطالعہ کر رہی تھی بلکہ شفا خانوں اور ماحولیات پر بھی ریسرچ کر رہی تھی، جن کے براہ راست اثرات مریضوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے دوران انہیں معلوم ہوا کہ جینز کا وہ گروپ جسے HLA کہا جاتا ہے، اس کا پارکنسن سے گہرا تعلق ہے۔ یہ وہ جینز ہیں، جو انسانی جسم کے خلیوں اور بیماری کے حامل بیرونی حملہ آورں میں تمیز کرتے ہیں اور انسانی جسم کے امیون سسٹم کو اس قابل بناتے ہیں کہ وہ جسم کا دفاع کرے، بغیر کسی اندرونی نقصان کے۔ تاہم مداقعتی نظام ہمیشہ اور ہر انسان میں پائیدار نہیں ہوتا۔
جینز ہر انسان کے اندر مختلف ہوتے ہیں۔ کچھ جینز ایسے ہوتے ہیں، جو متعدی امراض کے خلاف جسم کو محفوظ رکھتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں، جن کی وجہ سے امیون سسٹم ہی جسم کے خلیوں پر حملہ کرتا ہے اور اُسے کمزور کر دیتا ہے۔ اس بارے میں طبی ماہرین کو پہلے سے ہی اس امر کا اندازہ تھا کہ جو لوگ Anti inflamatory ادویات مثلاً Ibuprofin استعمال کرتے ہیں ان پر پارکنسن کا حملہ کم ہوتا ہے۔ تاہم ایسا ہر انسان کے ساتھ یکساں نہیں ہوتا کیونکہ ہر کسی کا جین دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ محققین نے کہا ہے کہ جب انہیں پارکنسن کے عارضے، امیون سسٹم یا قوت مدافعت اور Inflammation یا سوزش کے درمیان تعلق بہتر طور پر سمجھ میں آ جائے گا، تو وہ اس بیماری کی کوئی موثر دوا بنانے میں کامیابی حاصل کر لیں گے۔
اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر Cyrus Zebtian جو یونیورسٹی آف واشنگٹن میں نیورولوجی یا امراض اعصاب کے علوم کے شعبے سے منسلک پروفیسر ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے ہی اس بات کا شبہ تھا کہ پارکنسن کی بیماری اور قوت مدافعت کے مابین کوئی گہرا تعلق ہے۔ اب انہیں اس کا ثبوت بھی مل گیا ہے۔
Parkinson’s UK سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر Kieran Breen نے کہا ہے کہ اس تحقیق سے جسم کے اندر سوزش کا کردار بھی عارضے کی شکل میں ظاہر ہوا ہے۔ اُن کے بقول یہ تو انہیں پہلے سے معلوم تھا کہ کچھ افراد جینز کی وجہ سے بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں تاہم یہ تحقیق، جس میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین بھی شامل ہیں، میں مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ خاص طور سے اس بارے میں کہ سوزش کس حد تک پارکنسن کی بیماری کا باعث بنتی ہے۔
بشکریہ DW