URDUSKY || NETWORK

ملیریا کے خاتمے کے لیے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ پھپھوندی

68
 

سائنسدانوں نے جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ایک ایسا فنگس تیار کیا ہے جو مچھروں میں موجود ملیریا پیدا کرنے والے جرثوموں کو ختم کردیتا ہے۔

 

امریکی اور برطانوی سائنسدانوں کی ایک مشترکہ ٹیم نے اس مقصد کے لیے انسانی خون میں موجود قوت مدافعت پیدا کرنے والے مادے ‘اینٹی باڈیز’ اور بچھوؤں کے زہر کو ایک مخصوص پھپوندی یا فنگس Metarhizium anisopliae  میں داخل کردیا۔ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ اس فنگس میں اس حیرت انگیز صلاحیت کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ یہ مچھروں میں ملیریا پیدا کرنے والے جرثوموں کو بڑھنے سے روک دیتی ہے۔

ملیریا protozoans  نامی جرثوموں کی مختلف اقسام سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ جرثومے ملیریا پھیلانے والے مخصوص مچھروں کے جسم کے اندر پرورش پاتے ہیں۔ ملیریا پھیلانے والے ان مخصوص مچھروں کا حیاتیاتی نام  Anopheles genus ہے۔

'دنیا بھر میں ہر سال 240 ملین افراد ملیریا سے متاثر ہوتے ہیں'

امریکہ کی پین اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر اینڈریو ریڈ کے مطابق ملیریا پھیلانے والے مچھر دراصل protozoans جرثوموں کے حامل ہوتے ہیں اور ملیریا سے متاثرہ لوگوں کو کاٹنے کے بعد صحت مند لوگوں تک اس بیماری کے جراثیم بھی منتقل کرتے ہیں۔

ملیریا پر قابو پانے کے لیے ایک بنیادی طریقہ مچھر مار اسپرے کرنا ہے۔ تاہم کئی دہائیوں سے مچھر مار اسپرے کے ذریعے نقصان دہ ادویات ماحول میں پھیلانے کے سبب ایک طرف تو ماحول کو نقصان پہنچا ہے تو دوسری جانب Anopheles genus نامی ان مخصوص مچھروں میں ان  ادویات کے خلاف قوت مدافعت بھی پیدا ہوگئی ہے۔ اس وجہ سے ان مچھروں اور ملیریا کے خاتمے کی کوششیں شدید متاثر ہوئی ہیں۔

انہی وجوہات کی بنا پر حالیہ برسوں میں سائنسدانوں کی توجہ ملیریا ختم کرنے کے زیادہ ماحول دوست اور قدرتی طریقے تلاش کرنے کی جانب مبذول ہوئی ہے۔

تحقیقی جریدے ‘سائنس’ میں چھپنے والی رپورٹ کے مطابق جینیاتی طور پر تبدیل شدہ  فنگس Metarhizium anisopliae قدرتی طور پر مچھروں کو متاثر کرتا ہے اور مچھر مار دوائیوں کے برعکس یہ ان مچھروں کو فوری ختم کرنے کی بجائے کئی دن  لیتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس طرح ان مچھروں میں  اس فنگس کے خلاف قوت مدافعت پیدا نہیں ہوپاتی۔

'ملیریا کی وجہ سے ہرسال ہونے والی ساڑھے آٹھ لاکھ ہلاکتوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے'

اس تحقیق کے سربراہ اور یونیورسٹی آف میری لینڈ کے پروفیسر ریمنڈ لیگر ملیریا پھیلانے والے مچھروں  پر اس مخصوص فنگس کے اثرات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ایسے مچھر جن پر جینیاتی طور پر تبدیل شدہ فنگس اسپرے کیا گیا ان کے لعاب پیدا کرنے والے غدود میں ملیریا کے جرثومے صرف 25 فیصد پائے گئے۔ ایسے مچھر جن پر محض غیرتبدیل شدہ فنگس اسپرے کیا گیا ان میں ان جرثوموں کی موجودگی 87 فیصد تھی، جبکہ ان کے مقابلے میں ایسے مچھر جن پر یہ دونوں چیزیں اسپرے نہیں کی گئیں ان میں ملیریا پھیلانے والے جرثوموں کی مقدار 94 فیصد تھی۔”

رپورٹ کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ تحقیقی نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ اگر ملیریا پھیلانے والے مچھروں پر اس خصوسی پھپھوندی یا  فنگس کا  اسپرے کیا جائے تو ان مچھروں سے انسانوں میں ملیریا کی منتقلی میں بھی حیران کن کمی واقع ہوجاتی ہے۔

بشکریہ ڈی ڈبلیو ڈی