URDUSKY || NETWORK

سیلاب کی تباہ کاریاں اور آفت حشریہ کے ٹینٹ

113

سیلاب کی تباہ کاریاں اور آفت حشریہ کے ٹینٹ

تحریر: ضمیر آفاقی
سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد تقریباً آدھا پاکستان دوبارہ تعمیر ہو گا جو زندگیاں اور گھر اجڑ گئے ہیں انہیں دوبارہ بسانے میں کتنا وقت اور سرمایہ درکار ہے ابھی اس کے تخمینے لگائے جائیں گے ،اجڑی بستیاں بستے بستے کتنا وقت لگے گا یہ ا بھی کسی کو نہیں معلوم کیونکہ ابھی تک تو وہ مہاجرین جو اپنا سب کچھ تیاگ کر ہندوستان سے پاکستان آئے تھے آباد نہیں ہو سکے، پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پر کسی کی مصیبت دوسرے کے لئے راحت بن جاتی ہے ،جو لوگ اجڑے ہیں ان کے ملبے پر کھڑے ہوکر کئیوں نے خود کو تعمیر کرنا ہے ،اس میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ سیلاب پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب ہے مگر آفرین ہے ہم پر کہ ہم پھر بھی سبق نہیں سیکھتے بلکہ جو غلطیاں اور کوتاہیاں ماضی میں ہوئی ہیں انہیں درست کرنے کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے قوم کی اجتماعی غلطیوں اور کوتاہیوں کی یاد دہانی کرانے کی بجائے ہمارا ملاء جسے خدا ایسا موقعہ دئے وہ کسی بھی آفت یا مصیبت میں گرئے ہوئے لوگوں کو عذاب سے ڈرانے سے بعض نہیں آتا، سیلابی علاقوں جہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ اگر متاثرین کو بروقت امداد نہ ملی تو پینتیس لاکھ بچے جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں ،لاکھوں حاملہ خواتین کی داد رسی نہ کی گیءتو بچے پیدا ہونے سے پہلے مر سکتے ہیں اور خواتین بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لوگ کئی کئی دن سے بھوکے ہیں اور بیماریاں بڑھتی جارہی ہیں لیکن وہاں پر ملاء حضرات لوگوں کو گناہوں سے توبہ کرنے کی تلقین کرتے دکھائی دئے رہے ہیں یہ لوگ اس کڑے وقت میں بھی بجائے اس کے کہ ان کی جان بچانے کی کوشش کریں یا امداد پہنچائیں ان کے لئے یہ المیہ بھی سنہری موقع ہے اور اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے سے باز نہیں آتے۔اس وقت متعدد سیلاب زدہ علاقوں میں آپ کو ایسے گروہ نظر آئیں گے جو ویگن اور کوسٹرز لے کر جگہ جگہ گھوم رہے ہیں۔ یہ گروہ خیمے، خوراک، ادویات اور صاف پانی کے بجائے سکتے کے شکار فاقہ زدہ متاثرین کو بذریعہ میگا فون خوف، ڈر اور عبرت سپلائی کر رہے ہیں۔’تمھارے اعمال ہی ایسے تھے کہ یہ عذاب آنا تھا۔ توبہ کرو۔ اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ حرص کرنی ہے تو بعد از آخرت زندگی کی حرص کرو۔ یہ تکالیف نہیں آزمائش ہے۔ جس کا اگر یہاں نہیں تو وہاں ضرور اجر ملے گا‘۔یقیناً یہ سب وعظ اور نصیحتیں بہت اچھے ہیں لیکن جب پیٹ خالی ہوں۔ جب حاملہ عورتیں ہر چلتی گاڑی کو امدادی گاڑی سمجھ کر پیچھے پیچھے بھاگ رہی ہوں۔ جب بچے خوراک کی تقسیم کے وقت اپنے ہی بڑوں کے پیروں تلے آ رہے ہوں اور جب بڑے چھینا جھپٹی کے دوران پولیس کے ڈنڈوں کی زد میں آ رہے ہوں۔ کیا یہ وقت وعظ اور نصیحت کے لیے مناسب ہے؟ایک اور گروہ بھی ہے جو صرف ٹی وی چینلز اور اخبارات کے ذریعے اپنی آرام کرسیوں میں بیٹھا سیلابی قیامت کا نظارہ کر رہا ہے اور میدان میں لنگوٹ باندھ کر کودنے کے بجائے سیمیناروں اور بیانات کے ذریعے مصیبت زدگان کی مدد کر رہا ہے۔مثلاً کالا باغ ڈیم بن جاتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اس گروہ کے خیال کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ جیسا سیلاب اس سال آیا ہے اب ہر سال آئے گا۔فرض کریں کہ اب ہر سال ایسا ہی خوفناک سیلاب آئے گا اور اس بنیاد پر کالا باغ ڈیم بھی بن جائے تو بھی کیا ہوگا ؟ کالا باغ ڈیم کتنا پانی روک لے گا۔ دس لاکھ کیوسک، بیس لاکھ کیوسک؟ باقی ایک کروڑ کیوسک سے زائد پانی کا کیا ہوگا جو پچھلے تین ہفتے سے لگاتار گذر رہا ہے اور اگر اگلے دس برس تک اتنا بڑا سیلاب نہ آیا تو پھر کیا ہوگا؟ کتنوں کو معلوم ہے کہ تربیلا اور منگلا میں پانی ذخیرہ کرنے کی اصل گنجائش آدھی ر ھ گئی ہے۔ کالا باغ ڈیم صرف تربیلا اور منگلا کی اوریجنل گنجائش کا بقیہ آدھا پانی ہی ذخیرہ کر پائےگا۔مسئلے کا حل کالا باغ ڈیم بتانے والے کبھی بھی یہ نہیں بتائیں گے کہ نہروں اور کھیت تک پانی پہنچانے والی آبی گذرگاہوں کو اگر پکا کر دیا جائے تو ایک کالا باغ ڈیم کے برابر پانی مفت میں بچ سکتا ہے یہاں تو ان نہروں کی صفائی تک نہیں کی جاتی مگر کاغذی کھاتہ پورا ہوتا ہے۔ اگر پہاڑی علاقوں کو اندھا دھند درختوں سے محروم نہ کیا جاتا تو یہ درخت تیس فیصد سیلابی پانی کو دریا میں آنے سے پہلے روک لیتے مگر یہاں بھی ہوس شکم پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی دھڑا دھڑ درخت کاٹ کر دولت بڑھائی جارہی ہے۔ اگر دریائی گذرگاہوں میں تجاوزات نہ کی جاتیں تو بیش تر سیلابی پانی آسانی سے گذر جاتا ۔ جو کچھ ہو چکا ہے کیا اس کے بعد بھی کوئی سبق حاصل کیا جائے گا یا یونہی درخت کاٹے جاتے رہیں گے ،نہروں کی بھل صفائی کی مہم صرف کاغذوں میں رہے گی اور دریائی گزر گاہوں کو یونہی بند رکھا جائے گا؟ دوسری جانب شہروں میں بھی مذہبی طبقہ آفت حشریہ ٹینٹ لگا کر لوگوں کو ان کے اعمال سے ڈرانے کا فریضہ حسب معمول سر انجام دئے رہا ہے ۔ کہتے ہیں قومیں گناہوں سے تباہ نہیں ہوتی اپنی ہٹ دھرمی کی روش تبدیل نہ کرنے سے تباہ ہوتی ہیں ۔