URDUSKY || NETWORK

امدادی اشیاء بازاروں میں بکتی ہوئی

129

سیلاب سے تباہ حال ملک پاکستان میں اس وقت بدعنوانی اورسیلاب زدگان کی امداد کے لئے دی گئی اشیاء کے فروخت سے ریلیف کے کاموں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ رہا ہے.

خیبر پختون خوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور کے بازاروں میں آٹے کی تھیلیاں، پکانے کے تیل کے ٹن پیکس وغیرہ بک رہے ہیں اور ان پر ورلڈ فوڈ پروگرام اور USAID جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے لیبلز لگے ہوئے ہیں۔ پشاور کے ایک علاقے گور منڈی کے ایک دکاندار عبدل غفور نے کہا کہ انہوں نے یہ اشیاء متاثرین سے خریدی ہیں۔ متاثرین ان اشیاء کو بیچ کر ان پیسوں سے اپنی ضرورت کی دیگر چیزیں خرید رہے ہیں جو ان کے لئے زیادہ اہم ہیں۔ ایک دوسرے دکاندار رحیم اللہ خان کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ حکومتی اہلکاروں کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ متاثرین امدادی اشیاء کے سپلائی سے لدے ٹرک یہاں تک نہیں لا سکتے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے ایک رپورٹر کے مطابق اُس نے خود دیکھا کہ امدادی اشیاء سے لدا ایک ٹرک ایک مارکیٹ پہنچا جہاں امدادی سامان اتارا گیا جن پر لکھا تھا ’ ریلیف اشیاء برائے سیلاب متاثرین منجانب اسلامک ریلیف‘۔ ان اشیاء کو نارمل قیمتوں سے کم میں بیچا گیا۔ آٹے کا کاروبار کرنے والے ایک بیوپاری نے کہا ’50 کلوگرام کے آٹے کی ایک تھیلی پر 300 پاکستانی روپے کی بچت کی جا سکتی ہے۔ گاہکوں کے لئے یہ ایک اچھا موقع ہے۔ انہیں اچھی کوالٹی کی چیز کم قیمت میں میسر ہے تو وہ اسے ضرور خریدیں گے‘۔
حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ اس صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کر رہے رہے ہیں۔ ڈسٹرکٹ انتظامیہ کے ایک سرکاری اہلکار سراج احمد نے بتایا کہ دوایسی دکانیں جہاں چوری کی امدادی اشیاء پائی گئیں مال پر چھاپے مارے کر انہیں سِیل کر دیا گیا ہے اور دو افراد کو گرفتار بھی کر لیا گیا ہے۔ انہیں نے کہا کہ اس قسم کی غیر قانونی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھنے کےلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے تاہم انہوں نے واضح طور پر کہا ’ کہ یہ افسوسناک بات ہے تاہم یہ سب کچھ ہو رہا ہے‘۔
اُدھر جنوبی پنجاب کے دیہاتیوں نے شکایت کی ہے کہ سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں کے باہر آباد مقامی لوگ سیلاب زدہ علاقوں کے ویران گھروں کی اشیاء چرا کر لے جا رہے ہیں۔ محمود کوٹ نامی ایک دیہات کے رہنے والے ستائیس سالہ رعنا فرمان اللہ کا کہنا ہے کہ اُس کے گاؤں میں کشتیوں کے ذریعے ڈاکو داخل ہوئے اور گاؤں والوں کو لوٹ کر چلے گئے۔ رعنا کا کہنا تھا’ وہ سب کچھ لے گئے۔ تمام قیمتی اشیاء۔ انہوں نے واشنگ مشین، پیڈسٹل فین، ریفریجریٹرز، گھریلو استعمال کی الیکٹرونک مصنوعات اور زیورات چرا لئے‘۔
دریائے سندھ کے شمال مشرقی ساحلی علاقے میں واقعے بھکر نامی ایک قصبے کے مچھیروں نے اپنی کشتیوں میں سے انجن اور دیگر قیمتی سامان ہٹا دئے ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کی یہ کُل کائنات بھی کہیں لُٹ نہ جائے۔
بشکریہ ڈی ڈبلیو