URDUSKY || NETWORK

گراونڈ زیرو مسجد پر امریکہ کا دوہرا معیار، صدر اوباما مسجد کی حمایت کے بعد اچانک مخالفت پر کیوں اتر آئے؟

97

ground-zero-mosque-ny

تحریر : شہزاد اقبال
چہرہ روشن اندرون چنگیز سے تاریک تر
گراونڈ زیرو مسجد پر امریکہ کا دوہرا معیار
صدر اوباما مسجد کی حمایت کے بعد اچانک مخالفت پر کیوں اتر آئے؟
ریاستوں کے استحکام میں اور بہت سے عناصر کے ساتھ اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والا سلوک خصوصاً انہیں مذہبی آزادی فراہم کرنا بھی ہوتا ہے ،تاریخ انسانیت پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو تا ہے کہ جن ریاستوں میں اقلیتوں کو ان کے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت نہیں دی گئی وہاں پر عدم استحکام کی دراڑ اس تیزی سے پھیلی کہ اس سے ریاستیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئیں ما ضی قریب میں سلطنت برطانیہ،متحدہ ہندوستان،سویت یونین اور یوگوسلاویہ کے زوال کی دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان ریاستوں میں مذہبی بال دستوں نے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے عقائد کا پاس نہیں کیا جس کا نتیجہ ان کا زوال بنا۔
آج دنیا میں اگرچہ امریکہ کی ہوا چل رہی ہے لیکن بظاہر عکولرازم کا پرچار کرنے والے اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا جائزہ لیں تو وہ کسی طور پر یورپ کے ان ممالک سے پیچھے نہیں جہوں پر مذہبی تعصب کا مظاہرہ سرعام ہو رہا ہے خاص کر مسلمانوں کا جینا دو بھر کر دیا گی اہے ۔مساجد کی تعمیر پر پابندی،مسلم کمیونٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈالنا،مسلمان بچوں کو سکول میں وہاں کے ریاستی مذہب یا پھر اس ملک کے غالب عوام کے مذہب کے تحت تعلیم دی جات ہے اس کے ساتھ ساتھ عید جسے مذہبی تہواروں پر مسلمانوں کو چھٹیاں نہیں دی جاتی ہیں اور اب کچھ اس قسم کی صورتحال 52 ریاستی ملک امریکہ میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ یہ ملک عرص سے اپنے انسانی حقوق کے چمپیئن ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے۔ یہاں پر خاص طور پر نائن الیون کے واقع کے بعد مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے اور بقول سر سید احمد خان ”مسلمان ہونا جرم بن گیا تھا “ بات ہو رہی ہے نائن الیوںن کی تو آج کل نیو یارک میں منہدم شدہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے مقام جسے گراونڈ زیرو کہا جاتا ہے کے ایک حصہ پر مسجد اور ایک مسلم کمیونٹی سنٹڑ قائم کرنے کو صہیونی میڈیا نے ز ندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے ۔34 ہزار مربع میٹر پر پھیلے اس علاقے کے ارد گرد بلند ترین عمارتیں ،شاپنگ سنٹرز اور رہائشی علاقے بھی ہیں اس حوالے سے یہ امریکہ کے اہم تجارتی شہر نیویارک کا مرکز ہے اور دنیا بھر کی تجارت پر نظر رکھنے کے لئے بھی اس مقام کو خاص اہمیت حاصل ہے اور اس وجہ سے جڑواں تجاری مراکز کو بھی یہاں پر تعمیر کیا گیا تھا جو 11ستمبر 2001 کو دہشت گرسی کے ایک واقعہ میں زمیں بوس ہو گیا اور اس بزدلانہ کارروائی کے نتیجے میں 2749 افراد جان کے بازی ہار گئے،لقمہ اجل بننے والوں میں ” اتفاق یا حسم اتفاق“ کہیں کہ کوئی یہودی نہ تھا لیکن گزشتہ کئی مہینوں کے تنازع کے بعد اب جبکہ گراونڈ زیرو پر مسجد تعمیر کرنے کے لئے راہ ہموار ہو رہی ہے تو یہودی اور یہودی میڈیا ہی سب سے زیادہ اس کی مخالفت پر اتر آیا ہے۔
کاڈوبا اینی شیئٹیو(Cordoba Initative) نامی تنظیم کی جانب سے یہ منصوبہ سامنے آیا ہے کہ گراونڈ زیرو پر دو بلاکس اور 13 منزلوں پر مشتمل ایک مسجد ، اسلام سنٹر،500 نشستوں کا آڈیوٹوریم، سویمنگ پول اور جم تعمیر کیا جائے گا جس کی لاگت کا تخمینہ 100 ملین ڈالر لگایا گیا ہے جبکہ اس منصوبے کے روح رواں امام فیصل عبدالروف ، ان کی اہلیہ دیسے خان ار رئیل اسٹیٹ ڈویلپر شریف الگمال ہیں ، جہاں تک امام فیصل کا تعلق ہے تو یہ امریکہ کی دفتر خارجہ کی ”گڈ بک“ میں ہیں وہ انہیں مستقبل قریب میں قطر،بحرین اور متحدہ عرب امارات بھیج رہے ہیں ۔امام فیصل اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے 2007 میں بحرین،مراکو اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کر چکے ہیں جہاں انہوں نے امریکہ میں مسلمانوں کی حالت زار،اسلام کو تصور روشن خیالی وغیرہ پر لیکچر ز دیئے جبکہ گزشتہ جنوری میں وہ مصر بھی گئے تھے واضح رہے کہ ان ممالک کے دورے کے دوران دفتر خارجی کی جانب سے ان پر مسجد اور اسلامی سنٹر کے لئے عطیات اکٹھے کرنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
مسجد کی تعمیر کے حوالے سے جاری تنازع پر نیویارک کی عدالت سٹی کونسل نے 3 اگست کو گراونڈ زیرو کے قریب مسجد بنانے کی اجازت دی تھی اور مسجد کی تعمیر سے متعلق اعتراضات مسترد کر دیئے مسجد اور کمیونٹی سنڑ 1857 میں تعمیر کی گئی ایک اطالوی طرز تعمیر کی عمارت کی جگہ تعمیر کی جائے گی جسے مسلمانوں نے خرید لیا ہے ۔واضح رہے کہ نیویارک کے مئیر مائیکل بلو مبرگ نے بھی عمارت کی حدود میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دیدی۔تاہم مسجد کی تعمیر کے حوالے سے امسال مسلم سفیروں کو دیئے جانے افطار ڈنر کے موقع پر جس میں پاکستانی سفیر حسین حقانی بھی شریک تھے امریکی صدر باراک اوباما نے واشگاف انداز میں گراونڈ زیرو پر مسجد کی تعمیر کی حمائت کی ان کے الفاظ تھے” یہ امریکہ ہے اور مذہبی آزادی ہمارا اہم اصول ہے جس پر ہمیں قائم رہنا چاہیے یہ اصول ہماری شناخت کی بنیاد ہے کہ اس ملک میں ہم تمام مذاہب کے لوگوں کو خوش آ مدید کہتے ہیں اور مذہب کی بنیاد پر ہم ان میں تفریق نہیں کرتے ہیں ہمارا ملک بغیر کسی رنگ،نسل،مذہب اور ثقافت کے سب کے ساتھ یکساں سلوک رکھے گا“تاہم ان کی مذہبی آزادی،قانون کی بالادستی اور شناخت کی تمام باتیں اس وقت تمام ہوا ہوئیں جب انہیں اپنی کم عقلی،غیر دانشمندی اور کج فہمی کے باعث انتہا پسند یہودی و عیسائی لابی کے ہاتھوں ا ڑے ہاتھوں لیا گیا جس پر اوبامہ کو یہ کہنا پرا ” میں نے اپنے یان میں مسجد کی تعمیر کی حمائت نہیں کی تھی بلکہ ان وسیع اصولوں کو واضح کیا تھا جس میں حکومت ہر شخص سے اس کے مذہب سے قطع نظر یکساں سلوک کرتی ہے میں مسجد کی تعمیر کے فیصلے کی حمائت نہیں کروں گا “ جہ ہاں یہ وہی باراک اوباما ہیں جن کے صدارتی مہم کے دوران ان کے نام کے ساتھ حسین لگایا گیا اور کھبی ہٹایا گیا اور یوںامریکی عوام کو یہ تاثر دیا گیا کہ وہ مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ کرہتے بھی ہیں اور نہیں بھی رکھتے، اور اب ان کے مسلمان ہونے کی بحث ایک بار پھر میڈیا میں سامنے آ گئی ہے اگر اوباما مسلمان ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی مسمان اس کرہ ارض پر کسی مسجد کی تعمیر کی مخالفت کرے حالانکہ ہمارے دین میں تو مسجد کی تعمیر کرنے کا بہت زیادہ ثواب بیان ہوا ہے ،یہ وہی اوباما ہیں کہ جنہوں نے گزشتہ سل مصر کی قاہرہ یونیورسٹی میں خطاب کے دوران مسلم دنیا کے ساتھ خوبصورت اور اچھی شروعات کا عندیہ دیا تھا مگر نا رف وہ سب باتیں کافور ہو گئیں بلکہ وہ تو اپنے ملک کے اندر مسلم کمیونٹی کو ان کا جائز ،قانونی اور آئینی حق دینے کو تیار نہیں وہ اسے اب مقامی مسئلہ قرار دے رہے ہیں لیکن اس سال کے آخر میں کانگریس کے انتخابات اور پھر 2012 کے صدارت الیکشن میں اوباما ہوں گے جو اس مسئلہ کو مقامی سے ملکی سطح پر مسلم برادری کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ امریکی میڈیا نے بھی مسجد کی تعمیر کو اتنا متنازعہ بنا دیا ہے کہ رائے عامہ بھی اس کے خلاف ہو گئی ہے ایک حالیہ سروے کے مطابق63فیصد نیویارک(نیویارک کے باشندے)مسجد کی تعمیر کے خلاف جبکہ 27 فیصد حامی ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ عیسائیوں کے علاوہ اقلیت میں رہنے والے یہودی اس کی سب سے زیادہ مخالفت کر رہیں ہیں اور ان کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں معصوم امریکی مسلم دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے تھے لہذا یہاں کیوں دہشت گردوں کے لئے مسجد اور کمیونٹی سنٹر بنایا جائے کہ اس مقامی لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے ( اور افسوس کہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کا انہیں کوئی احساس نہیں ہے) افسوس کہ امریکہ گراونڈ زیرو پر فریڈم ٹاور اور نائن الیون میوزیم تو تعمیر کر رہا ہے لیکن وہ انسانیت کی فلاح کے لئے بننے والی مسجد کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے اور یہی وہ عدم برداشت اور متعصبانہ روئیے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ماضی کی عالمگیر طاقتیں اپنا اقتدار کھو بیٹھی تھیں۔
بشکریہ نوائے وقت