URDUSKY || NETWORK

’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘

77

معروف کلاسیکل رقاصہ شیما کرمانی کہتی ہیں کہ رقص میں دماغ اور جسم کا ربط بہت ضروری ہے۔”یہی وہ چیز ہے اگر عام زندگی میں کسی کی شخصیت میں نکھار اس کے کام میں نفاست نظر آتی ہے تو یقینا اس کے دل اور دماغ میں ربط بہت اچھا ہے۔ رقص یہی سکھاتا ہے“۔

 

’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘

”جب تک ریاست ایسے فنون کی سرپرستی نہیں کرتی تو ان کا فروغ ممکن نہیں۔“

رقص کو اعضا کی شاعری کہا جاتا ہے۔بچے سے لے کر بوڑھے تک ہر کوئی کسی نہ کسی آواز پر ایک طرح کا رقص ضرورہوتا ہے۔ سر کی ہلکی جنبش ہو، ہاتھ پاؤں کا کسی آواز وساز پر اس کے ساتھ ہلنا یہ سب انسان کے جسم میں موجود ترنم کی غمازی کرتا ہے۔

1982ء سے ہر سال 29اپریل کو رقص کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس فن سے متعلق لوگوں میں آگاہی اور اس کے ذریعے ایک دوسرے کو قریب لانے کا موقع فراہم کرنا ہے۔

اسلام آباد میں کلاسیکی اور لوک رقص کی ترقی و ترویج اور تربیت کے لیے کام کرنے والی سارہ صہبائی کہتی ہیں کہ رقص تو پوری کائنات میں ہے۔”ہم چلتے ہیں، دوڑتے ہیں ، مختلف کام کرتے ہیں تو اس میں ایک ردھم ہوتا ہے، ہوائیں چلتی ہیں اور پیڑ پودے اس پر جھومتے ہیں تو یہ سب ایک طرح کا رقص ہی تو ہے۔“

شیما کرمانی

معروف کلاسیکی رقاصہ شیما کرمانی کے نزدیک رقص اعتماد فراہم کرتا ہے۔”مثال کے طور پر جب رقص سیکھتے ہیں توبتایا جاتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کوسیدھا رکھا جائے ، تو پھر جیسے جیسے یہ بچے بڑے ہوتے ہیں ان میں ایک کی شخصیت میں خود اعتمادی آنا شروع ہوجاتی ہے۔“

کلاسیکی ہو یا لوک ناچ ہو،جدید ہو یا روایتی رقص یا پھر درگاہوں پر وجد میں دھمال ڈالتے ملنگ۔ ہلکی مدھر تانوں پر گول گول گھومتے سَیما کرتے درویش یہ سب رقص کے زاویے ہیں ۔

شیما کرمانی کہتی ہیں کہ رقص میں دماغ اور جسم کا ربط بہت ضروری ہے۔”یہی وہ چیز ہے اگر عام زندگی میں کسی کی شخصیت میں نکھار اس کے کام میں نفاست نظر آتی ہے تو یقینا اس کے دل اور دماغ میں ربط بہت اچھا ہے۔ رقص یہی سکھاتا ہے“۔

 

پاکستانی معاشرے میں رقص کو اتنی پذیرائی نہیں مل سکی۔ سارہ صہبائی کہتی ہیں”اب تو صورتحال قدرے بہتر ہے مگر اب سے پندرہ، بیس سال قبل تو بہت ہی مشکل تھا کہ آپ رقص کی تربیت کے لیے کسی کو آمادہ کریں اور پھر اگر سیکھ لیا ہے تو اسے پرفارم کریں“۔ صورتحال سارہ کے بقول بھلے ہی قدرے بہتر ہے مگر آج بھی عمومی طور پر رقص اور اسے وابستہ لوگوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ تاہم اندو مٹھہ، ناہید صدیقی اور شیما کرمانی نے اس فن کو فروغ دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں۔

شیما کرمانی اس ناقدری کا قصوروار ارباب اختیار کو گردانتی ہیں۔”جب تک ریاست ایسے فنون کی سرپرستی نہیں کرتی تو ان کا فروغ ممکن نہیں۔“ ان کے بقول حالانکہ رقص جس آزادی اور خوشی کا پیغام دیتا ہے اس وقت اشد ضرورت ہے کہ اسے اجاگر کیا جائے۔”اس وقت جو بنیاد پرستی کا زور بڑھتا ہوا نظر آتا ہے اور دہشت گردی نظر آتی ہے تو اگر لوگ موسیقی اور رقص کے قریب آئیں گے تو ان چیزوں سے دور ہوں گے۔“

ارباب اختیار تو جانے امن و خوشحالی کا اصل پیغام کب عوام تک پہنچائیں گے مگر دہشت گردی، بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں پریشان عوام آئے روز سڑکوں پر ”محو رقص“ نظر آتے ہیں اور شاید یہی وہ رقص ہے جس کے بارے میں حبیب جالب نے کہا تھا کہ:

تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے ابھی

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے

VOA