URDUSKY || NETWORK

کیا بھارتیوں میں وہ ’ایکس فیکٹر‘ ہے؟

98

images

 

دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرنے کے بعد موسیقی کا پروگرام ایکس فیکٹر اب بھارت میں پہنچ گیا ہے لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اتنے سارے موسیقی کے پروگراموں کی موجودگی میں یہ اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکے گا؟

آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں ایک بےسرا گلوکار بےسرا ہی رہتا ہے لیکن ایکس فیکٹر نے اب تک آسٹریلیا اور انڈونیشیا سمیت دنیا کے چوبیس ممالک سے سریلے گلوکاروں کی تلاش کا مشکل کام بخوبی سرانجام دیا ہے اور رواں برس اس فہرست میں چین اور امریکہ کا اضافہ بھی ہو جائے گا۔

ایکس فیکٹر کے بھارتی ورژن کی خاص بات اس میں شامل گلوکاروں اور گلوکاراؤں میں پایا جانے والا تنوع ہے۔ اس ملک میں موسیقی کی متنوع اور عمدہ روایات کے امین یہ گلوکار بالی وڈ سے لے کر بھنگڑا تک ہر میدان میں اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔

اس شو کے منصفین میں سے ایک سونو نگم کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس پر قسم کے لوگ ہیں چاہے وہ راجھستان سے تعلق رکھنے والے رنگ برنگی پگڑیاں پہنے سولہ افراد پر مشتمل لوک منڈلی ہو یا ستر سال کے وہ بزرگ جو ساٹھ کی دہائی کی بالی وڈ روایات میں پروان چڑھے ہیں‘۔

بھارت میں ریئلیٹی شوز پہلے ہی بہت سے ہیں اور میرے خیال میں کسی نئے کی جگہ نہیں ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کب کونسا شو مقبول ہو جائے اور کامیابی کی داستان بن جائے۔

جیوتی وینکٹش

چاہے وہ دھن ہو یا سٹیج، امیدواروں کی زمروں میں تقسیم ہو یا پروگرام کی تدوین بھارتی ایکس فیکٹر دیکھنے میں اس پروگرام کے برطانوی ورژن سے بے حد مماثلت رکھتا ہے۔

منصفین کو ہی لے لیں تو ان میں شامل سونو نگم بھارت کے مقبول ترین گلوکاروں میں سے ایک ہیں اور ان کا ساتھ دینے کے لیے ہدایتکار اور فلمساز سنجے لیلا بھنسالی اور گلوکارہ شریا گھوشال بھی ہیں اور یہ تینوں ہی بھارتی ٹی وی پر ماضی میں پیش کیے جانے والے ایسے پروگرامز سے جڑے رہ چکے ہیں۔

سنجے لیلا بھنسالی برطانوی شو ’سٹرکٹلی کم ڈانسنگ‘ کی طرز پر بنائے گئے بھارتی پروگرام ’جھلک دکھلا جا‘ کے جج تھے جبکہ شریا گھوشال تو خود موسیقی کے ایک پروگرام ’سا رے گا ما پا‘ کی دریافت ہیں۔ اس پروگرام میں ان کا گانا سن کر سنجے لیلا بھنسالی نے ہی اپنی فلم دیوداس میں گانے کا موقع دیا تھا اور اس گانے کے لیے شریا نے فلم فیئر ایوارڈ بھی جیتا تھا۔

شریا کا کہنا ہے کہ ’کسی مقابلے کا منصف بننا ایک مختلف چیز ہے اور میں پینل میں اپنے استاد کے ساتھ شمولیت پر کچھ جذباتی ہو رہی ہوں‘۔

sonu
سونو نگم سنہ انیس سو پچانوے میں شروع ہونے والے شو ’سا رے گا ما پا‘ کے پہلے میزبان تھے۔

ایکس فیکٹر کے برطانوی ورژن میں ایک قابلِ ذکر چیز منصف سائمن کوول کا امیدواروں کے ساتھ سردمہری سے پیش آنا ہے۔ تاہم سونو نگم کا کہنا ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی جج جان بوجھ کر ایسا رویہ اختیار کرے گا۔

ان کے مطابق ’ہمیں سچائی بتانا ضروری ہے لیکن یہ نرم طریقے سے بھی بتائی جا سکتی ہے۔ ہم کبھی نرمی دکھاتے ہیں تو کبھی سختی‘۔

بھارت میں یہ شو بنانے والے فریمینٹل میڈیا کے راج باروا کا کہنا ہے کہ ’ہم اس شو کو کچھ الگ بنانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ موسیقی کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ ہم ایک ارب بیس کروڑ افراد کی بات کر رہے ہیں‘۔

ان کے مطابق اس پروگرام کی تیاری میں ایک برس کا عرصہ لگا اور سونی ٹی وی کو جس پر یہ شو دکھایا جائے گا امید ہے کہ آئی پی ایل کے خاتمے کے بعد ان کی بڑھی ہوئی ریٹنگ کو برقرار رکھنے میں یہ شو مددگار ثابت ہوگا۔

بھارتی ٹی وی کے ناظرین کے لیے موسیقی کے ریئلیٹی شو کوئی نئی چیز نہیں۔ ان کا آغاز نوے کی دہائی میں ہوا تھا اور میری آواز سنو کو اس سلسلے کا پہلا شو قرار دیا جاتا ہے۔ اسی شو سے بھارتی گلوکارہ سنیدھی چوہان نے اپنا کیرئر شروع کیا تھا۔

ایکس فیکٹر نے اب تک آسٹریلیا اور انڈونیشیا سمیت دنیا کے چوبیس ممالک سے سریلے گلوکاروں کی تلاش کا مشکل کام بخوبی سرانجام دیا ہے اور رواں برس اس فہرست میں چین اور امریکہ کا اضافہ بھی ہو جائے گا۔

سونو نگم سنہ انیس سو پچانوے میں شروع ہونے والے شو ’سا رے گا ما پا‘ کے پہلے میزبان تھے۔ یہ شو آج بھی جاری ہے اور بھارت اور دیگر ممالک میں رہائش پذیر بھارتی اسے اسی شوق سے دیکھتے ہیں۔ مقامی فارمیٹس کے علاوہ مغربی شو کے انڈین ورژن جیسے کہ انڈین آئڈل اور جھلک دکھلا جا بھی بھارت میں بہت مقبول ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا ایکس فیکٹر اس مارکیٹ میں جگہ بنا پائے گا۔ تین دہائیوں تک بالی وڈ پر نظر رکھنے والی صحافی جیوتی وینکٹش کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس شو کی ریٹنگز اب تک سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ایسے عمدہ منصفین اس شو کے لیے مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

ان کے مطابق بھارت میں ریئلیٹی شوز پہلے ہی بہت سے ہیں اور میرے خیال میں کسی نئے کی جگہ نہیں ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ کب کونسا شو مقبول ہو جائے اور کامیابی کی داستان بن جائے

BBC Urdu