URDUSKY || NETWORK

۔۔۔ دستک ۔۔۔

101

TARIQ BUTT

۔۔۔ دستک ۔۔۔

قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے لمحات بھی آتے ہیں جب انھیں اپنی بقا اور استحکام کے لئے مشکل ترین فیصلے کرنے پڑتے ہیں ۔ تحریکِ پاکستان میں بھی ایسے ہی لمحے آئے تھے جب ہند و مسلم اتحاد کے سفیر قائدِ اعظم محمد علی جناح کو متحدہ ہندوستان کے قیام کی بجائے علیحدہ اسلامی ریاست کا مطا لبہ پیش کرنا پڑا تھا۔۳۲ مارچ ۰۴۹۱ ایک علیحدہ مملکت کے قیام کا نقطہ آغاز تھا ایک انتہائی مشکل فیصلہ جسے حقیقت کا عملی جامہ پہنانے کے لئے قائدِ اعظم کو شب و روز محنت کرنا پڑی تھی اپنا خونِ جگر دینا پڑا تھا اور اپنی ساری توانائی اور قوت صرف کرنی پڑی تھی۔ اسے اپنے مخا لفین کے خلاف چار مکھی لڑا ئی لڑنی پڑی تھی جو قوت میں اس سے بہت زیادہ تھے لیکن قائدِ اعظم کے پاس عزمِ مصممِ، صداقت ،شجا عت اور فہم و فراست کی ایسی شمشیرِ جگر دار تھی جس سے وہ سارے محروم تھے تبھی تو ۴۱ اگست ۷۴۹۱ کو پاکستان کا معجزا تی قیام ممکن ہو سکا تھا۔
۵۶۹۱ کی پاک بھارت جنگ، دسمبر ۱۷۹۱ میں بنگلہ دیش کا قیام اور ۲۷۹۱ میں بھا رت کے ایٹمی دھما کے ایسے بڑے واقعات تھے جنھوںنے اس وقت کے پاکستانی وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو کو ایٹمی توا نا ئی کے حصول کے بڑے فیصلے کرنے پر مجبور کیا۔ ا یٹمی قوت کے حصول کا آغاز کیسے ہوا اسکی راہ میں کو ن کون سی رکا وٹیں حائل ہو ئیں اور اس پروگرام کو کن کن مشکلات سے گزرنا پڑا ایک علیحدہ داستا ن ہے ۔ عالمی دبا ﺅ کو کیسے برداشت کیا گیا اور پروگرام پر ثابت قدم رہنے کےلئے کونسی حکمتِ عملی اختیار کی گئی سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ ایٹمی توا نا ئی کے حصول کا مشکل فیصلہ کرنے کی ذمہ داری ذولفقار علی بھٹو کے کندھوں پر آن پڑی تھی اور اس ذمہ داری کو انھوں نے جس جرات۔جوانمر سی اور دانش سے نبھا یا اس نے بھٹو صاحب کو محبوبیت کی بلند مسند پر بٹھا دیا۔ ایٹمی توا نا ئی کے حصول کا وہ بیج جو ۴۷۹۱ میں ذولفقار علی بھٹو نے بو یا تھا ۸۲ مئی ۹۹۹۱ کو اس وقت حقیقت کا روپ اختیار کر گیا تھا جب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف نے چھہ ایٹمی دھماکے کر کے پو ری دنیا کو ششدر کر دیا تھا ۔ چاغی کی پہا ڑیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ دور اندیش قیاد توں کے بڑے فیصلے ایک دن اپنا رنگ ضرور دکھا تے ہیں اور ۸۲ مئی کو چاغی میں چھہ ایٹمی دھما کے دور اندیش قیادت کے فیصلوں کا منہ بو لتا ثبوت بھی تھے اورا نکو زبر دست خراجِ عقیدت بھی تھے۔
حالیہ دنو ں میں تبا ہ کن سیلاب کی تباہ کاریوں نے پاکستانی عوام کے اندر ایک نئی سوچ کو جنم دیا ہے کہ جا گیردارانہ اور سرما یہ دا رانہ نظام کی جگہ ایک ایسا جمہو ری کلچر رو بہ عمل آنا چا ئیے جس میں مڈل کلاس اپنا بھر پور کردار ادا کر سکے۔پاکستانی سیاست پر چند خاندانو ں کی اجارہ داری اور غلبہ کو ئی نئی بات نہیں ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد جا گیر دار طبقے نے بڑی چا لا کی سے اقتدار کے سارے مراکز پر قبضہ کر کے تحریکِ پاکستان کے مقا صد کو پسِ پشت ڈال دیا تھا ۔ اپنے مفادات کہ ہر شہ سے عزیزسمجھ کر وہ لو ٹ کھسوٹ کے ایسے دھندے میں مشغول ہو گے جو ہر آنے والے دن کے ساتھ شدید سے شدید تر ہو تا چلا گیا۔ ۷۶۹۱ میں ذولفقار علی بھٹو نے پی پی پی کی بنیاد رکھ کر اس مخصوص طبقے کے خلاف اعلانِ بغا وت کیا تو چشمِ زدن میں انکی مقبو لیت آسما ن کی بلندیوں کو چھو نے لگی تھی ۔ ۰۷۹۱ کے انتخابات مراعات یا فتہ طبقے کے خلاف ریفرنڈم کا درجہ رکھتے ہیں جس میں مخصوص طبقے کو عوامی طاقت کے سامنے سر نگوں ہو نا پڑا تھا لیکن اس طبقے نے کمال ہو شیاری سے پی پی پی کی صفوں میں گھس کر عوامی حا کمیت کے تصور کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں اور فوجی جنتا کے ساتھ ساز باز کر کے اپنے ہر دلعزیز قائد ذولفقار علی بھٹو کی زندگی کا چراغ گل کر دیا اور یوں عوامی انقلاب کو موت کی وادی میں دھکیل کر وہ پھر سے اقتدار کے ایوا نو ں میں برا جمان ہو گئے۔
آج ایک دفعہ پھر یہ تصور تقویت پکڑ رہا ہے کہ ملک کو ایک خاص طبقے کے رحم و کرم پر نہیں چھو ڑا جا سکتا بلکہ عوام کی حقیقی قیا دت کو آگے بڑھ کر عوامی امنگوں کی ترجمانی کا حق ادا کرنا ہو گا۔ لوگ موجودہ اندازِ سیاست سے بیزار ہو گئے ہیں۔ ایک خونی انقلاب ہمارے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔عوام موجودہ کرپٹ ڈھا نچے سے ماہوس ہو چکے ہیں وہ نئے زمانے کے نئے تقا ضو ں کے مطا بق مملکتِ خدا داد میں نئے سما جی کلچر کا احیاءچا ہتے ہیں جسمیں اس ملک کا با شعور طبقہ مرکزی کردار ادا کرے۔پرانے نظام میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ یہ نئے دور کے نئے تقا ظو ں کا ساتھ دے سکے لہذا اس کو خیر باد کہنا ضرو ری ہے۔
ز ما نے کے انداز بدلے گئے۔ نیا دور ہے ساز بدلے گئے
گیا دورِ سرمایہ داری گیا ۔۔ تما شہ دکھا کر مداری گیا ( ڈا کٹر علامہ محمد اقبال)
میں ذا تی طور پر محسوس کرتاہو ں کہ انقلابِ فرانس کے وقت جو حالت فرانس کی تھی وہی حا لت اس وقت پاکستان کی ہے۔ ملک کا متمول طبقہ عیش و عشرت میں ڈوبا ہوا ہے اور زندگی کی ساری نعما ءسے بھرپور انداز میں مستفید ہو رہا ہے جبکہ اس ملک کا عام شہری سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے اور نانِ جویں کو ترس رہا ہے۔ تقسیمِ دولت کی وا ضع تفریق نے معاشرے کو با لکل تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔بے حدو حساب دولت اور تعیشات کی فرا وانی نے متمول طبقے کی سوچ کو با لکل غیر انسا نی بنا کر رکھ دیا ہے۔ یہ مخصوص طبقہ پاکستانی عوام کو اپنا با جگزار اور رعا یا تصور کرتا ہے اور ان پر حکمرا نی کرنا اپنا پیدا ئشی حق سمجھتا ہے لیکن ذرا ئع ابلاغ کے موجودہ دور میں عوام اس طبقے کو انکے عامیانہ اور گھٹیا کردار کی وجہ سے مزید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔پاکستانی عوام کسی ایسے دیدہ ور کی تلاش میں ہیں جو انکی قیادت کر کے انھیں مرا عات یا فتہ طبقے کے پنجہِ استبداد سے نجات دلا سکے ۔ عوام طوقِ غلامی اتارے کا مصمم ارادہ کر چکے ہیں اور جب کو ئی قوم مثبت تبدیلی کے لئے کمر بستہ ہو جا ئے تو پھر قدرت کسی نہ کسی شخصیت کا انتخاب کر کے اسے میدانِ عمل میں بھیج دیتی ہے۔ میری مشا طگی کی کیا ضرورت حسنِ معا نی کو۔۔کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرا مت تھی۔۔سکھا ئے کس نے اسما عیل کو آدابِ فرزندی ( ڈا کٹر علامہ محمد اقبال)
پچھلے ۳۶سالوں میں چند خاندا نو ں کے غلبے نے پاکستانی عوام کو بغاوت پر آمادہ کر دیا ہے وہی چند چہرے وہی چند خاندان اور وہی چند نام جو اس ملک کے مقدر کے ساتھ جھو نکو ں کی طرح چمٹے ہو ئے ہیں اور اسکا خون چوس چوس کر اسے حالتِ نزا ع تک لے آئے ہیں لہذا عوام ان سے مکمل نجات چا ہتے ہیں ۔ کارخا نوں جا گیرو ں اور بینکوں کے یہ مالکان جنکی مٹھی میں اسٹیبلشمنٹ کی ساری قوت بند ہے غریب عوام کو اپنی خوا ہشوں کا اسیر بنا کر انھیں انتہا ئی کسمپر سی کی زندگی گزا نے پر مجبور کر ر ہے ہیں لیکن عوام غلامی کی ان زنجیروں کو توڑ کر اپنے مقدر کا باب خود اپنے ہا تھوں سے لکھنا چا ہتے ہیں لیکن انھیں راہ سجھا ئی نہیں دے رہی۔
اسمیں شک و شبہ کی مطلق کو ئی گنجا ئش نہیں کہ ہمارا موجودہ عدالتی انتظا می حکومتی اور پار لیما نی ڈھا نچہ مکمل طور پر بو سیدہ ہو چکا ہے جس میں عوامی امنگو ں کی روح کا فقدان ہے ۔ یہ اتنا کرپٹ ہو چکا ہے کہ یہ ایک مخصوص طبقے کے مفادات کا تحفظ کر رہا ہے جبکہ عوام کی اکثر یت اس نظام سے نا لاں ہے اور اس سے نجات چا ہتی ہے لیکن مرا عات یا فتہ طبقہ اس نظام کو ہر حال میں قائم و دائم رکھنا چا ہتا ہے کیونکہ یہ انکے مفادات کا ترجمان اور محا فظ ہے۔عوام بیدار ہو جائیں تو پھر تبدیلی یقینی ہو جاتی ہے ، عو ام کی طا قت کے سامنے ٹھہرنا کسی کے بس میں نہیں ہو تا۔عوامی طاقت ہر کس و نا قص کو اپنے ساتھ بہا لے جا تی ہے اور پھر ایک ایسی صبح کا ظہور ہو تا ہے جسمیں صرف انصاف برا بری مساوت اور محبت کے زمزمے بہتے ہیں اور میں ایک ایسی ہی صبح کو طلوع ہو تے دیکھ رہا ہوں آپ بھی مشرق سے نکلنے والے سورج پر نگا ہیں جما دیں۔