URDUSKY || NETWORK

کیاامریکی قاتل رہاہوجائے گا؟

116

عثمان حسن زئی
[email protected]
قاتل امریکی ریمنڈ ڈیوس کے معاملے پر امریکیوں کے متضاد اور غیر لچک دار رویے سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ امریکا خود کو دنیا کی واحد سپر پاور اور ہم جیسے تیسری دنیا کے ممالک کے باشندوں کو اپنا غلام سمجھتا ہے۔ اپنے شہری کی رہائی کے لیے حکومت پاکستان پر شدید ترین دباﺅ ڈالنے کے بعد اب امریکی دھونس دھمکی اور بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ اعلیٰ سطح کے رابطے اور فوجی امداد سمیت ہر قسم کے تعاون کو ختم کرنے کے پیغامات دینا شروع کردیے ہیں۔ امریکیوں کی اپنے کرائے کے ایجنٹ اور قاتل کے لیے شدید بے چینی اور اضطراب تو قابل فہم ہے لیکن ہمارے نام نہاد حکمران کیوں قاتل کو سہولیات و آرام فراہم کررہے ہیں اور اس کے ساتھ وی آئی پی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ حکمران امریکیوں کے سامنے یوں سر عام وضاحتیں پیش کررہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں امریکی دباﺅ کا سامنا کرنے اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی اہلیت و ہمت ہی نہیں۔ سی سی پی او لاہور کابیان بھی سامنے آگیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ تفتیش سے ثابت ہوگیا ہے ریمنڈ ڈیوس نے پاکستانی شہریوں کو اپنے دفاع میں نہیں بلکہ جان بوجھ کر قتل کیا ہے۔ آپ غور کریں! امریکی ایجنٹ تو ہمارے ہی ملک میں ہمیں نشانہ بنارہے ہیں جبکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکیوں پر فائرنگ کے الزام میں 86 سال قید کی سزا امریکی عدالت نے سنائی ہے۔ حالانکہ اس واقعے میں کوئی مرا بھی نہیں تھا۔ پھر بھی ہمارے بے حس حکمرانوں نے اس مظلوم و بے بس عورت کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ اب جب امریکی شہری نے اُس سے بھی زیادہ سنگین جرم کا ارتکاب کرلیا ہے جس کے الزام میں ڈاکٹر عافیہ سزا جھیل رہی ہیں تو ہمارے حکمران امریکی قاتل کو رعایتیں دینے کے لیے سو سو جتن کرنے میں مصروف ہیں۔
صدر آصف علی زرداری نے اہم ”قومی مسائل “ پر غور اور مشاورت کے لیے گول میز کانفرنس طلب کرلی ہے جس کے لیے انہوں نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں سے رابطے شروع کردیے ہیں۔ ایوان صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے مطابق کانفرنس کی تاریخ کا اعلان سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد کیا جائے گا۔ صدر کی جانب سے گول میز کانفرنس بلانے کا فیصلہ خوش آیند تو ہے مگر عوام پوچھتے ہیں اس سے قبل جو کل جماعتی کانفرنسیں ہوئیں۔ ان کے فیصلوں پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ان کیمرہ اجلاسوں میں طویل غور و خوض کے بعد ڈرون حملوں کو روکنے کے لیے ایک متفقہ قرار داد منظور ہوئی تھی، امریکی اس قرار داد کی سر عام دھجیاں اڑارہے ہیں تو اس پر حکمرانوں نے خاموشی کا لبادہ کیوں اوڑھا ہوا ہے۔ قوم پوچھتی ہے موجودہ حکومت کے دور میں ہی کئی بار قومی معاملات پر اتفاق رائے کے لیے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا ڈول ڈالا گیا اس کا آج تک کوئی نتیجہ کیوں نہیں نکل سکا۔ اتفاق رائے کے لیے پیش رفت تو دور کی بات ہے ہمارے حکمرانوں کے رویوں کے سبب ان کے اپنے اتحادی ہی ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ پاکستانی سیاست پر اس قدر بھاری اور حاوی ہوگیا ہے کہ صدر مملکت نے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے گول میز کانفرنس طلب کر ڈالی۔ اگرچہ وزیراعظم نے اس تاثر کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ گول میز کانفرنس میں ایک نکاتی ایجنڈا نہیں بلکہ تمام قومی معاملات پر مشاورت کی جائے گی۔ مگر ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ مذکورہ کانفرنس کا اصل ایجنڈا امریکی قاتل ہی ہے۔ حکومت کے اقدام سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارت کار قرار دے کر رہا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کو امریکی مطالبے پر عمل درآمد نہ کرنے کے انجام و عواقب سے باخبر کرکے اس سلسلے میں متفقہ فیصلہ حاصل کیا جائے تاکہ اس کا ملبہ اکیلی حکومت پر نہ گرے۔
بعض مبصرین کے خیال میں حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ ریمنڈ کی رہائی پر اسے سخت عوامی احتجاج اور غم و غصے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری طرف قاتل کی عدم رہائی پر حکومت کو امریکا کی ناراضگی مول لینا پڑے گی جس کی وہ کسی صورت متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس لیے وہ معاملہ ”ٹھنڈا“ ہونے کا انتظار کررہی ہے تاکہ عوامی جذبات کی شدت میں کمی آنے کے بعد اس کے لیے ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ کرنے میں قدرے آسانی ہو۔ پیپلزپارٹی کے رہنما گول میز کانفرنس سے امریکی دباﺅ کو دوسروں پر منتقل کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ سیاسی قیادت کے لیے اس کانفرنس میں کیمروں کے سامنے ڈیوس کی رہائی کی حمایت کرنا ممکن نہیں۔ حکومت سیاسی قیادت کی تقاریر کے ذریعے امریکا کو یہ پیغام دے گی کہ وہ تو امریکی قاتل کو رعایت دینا چاہتی ہے لیکن ملکی سیاسی قیادت ایسا کرنے پر تیار نہیں۔ یوں وہ امریکا کی ناراضگی کا رخ نواز لیگ، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی طرف موڑنے کی کوشش کرے گی۔بہرحال ریمنڈ کے کیس نے حکومت کو ایسے دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے جس کے دونوں جانب ایسی گہری کھائی ہے جو اسے نگلنے کے لیے تیار ہے۔ اسے عوام یا امریکا کی ناراضگی میں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہی ہوگا۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے حکومت نے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے مدد طلب کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کو طاقت کا سرچشمہ سمجھنے والی جماعت امریکا کا ہاتھ تھامتی ہے یا عوام کا؟