URDUSKY || NETWORK

مسلم لیگوں کا محاذ،اتحاد یا انضمام؟

86
جناب مجید نظامی صاحب کے لئے
مسلم لیگوں کا محاذ،اتحاد یا انضمام؟
ڈاکٹر دانیال فخر
ایکس ریسرچ فیلو،پنجاب یونیورسٹی
پاکستان مسلم لیگ کو فائیو ان ون (Five In One) بنانے کے لئے پیر پگاڑا صاحب آج کل خاصے سرگرم نظر آ رہے ہیں لیکن ان کا اصل امتحان اب شروع ہونے والا ہے کہ وہ مسلم لیگ کے دو انتہائی دھڑوں کو کس طرح یکجان کرتے ہیں ان میں سے مسلم لیگ ن دوسرے بڑے لیگی دھڑے یعنی ق لیگ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے دوسرے معنوں میں وہ مائینس چوہدری(شجاعت حسین اور پرویز الہی) کے حامی ہیں کہ اگر یہ دونوں حضرات ق لیگ سے نکل جائیں اور ق لیگ اپنی دستوری شناخت کھو دے تو اس کے ارکان ن لیگ یا پھر کسی اور جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں تو یہ فارمولہ قابل قبول نظر آتا ہے جبکہ مسلم لیگ ق 25 اکتوبر کو جس چال کی شکار ہوئی اس سے یہ ”مکس سگنل“ بعض سیاسی قوتوں کو پہنچا دیا گیا کہ اگر لیگ کے اتحاد پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی تو پھر چوہدریوں کی لیگ پیپلز پارٹی جسے وہ پاکستان توڑنے والی جماعت قرار دے چکی ہے اس کے ساتھ حکومت میں شریک ہو جائے گی جبکہ مسلم لیگ ق صوبہ خیبر پختونخواہ کے صدر امیر مقام اور بعض دیگر لیگی رہنماﺅں نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کی خبروں کو یکسر مسترد کر دیا کہ دونوں جماعتوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے اگر اس تناظر میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو دیکھیں تو وہ بھی ماضی میں چوہدریوں کی جماعت کو قاتل لیگ اور ڈکٹیٹیر لیگ کہہ چکی ہے لیکن چونکہ پاکستان کی سیاست اور سیاست دانوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا دوسرے معنوں میں ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا لہذا وہ کل کی بات،وعدہ اور یقین دہانی کو ماضی کی بات کہہ کر آگے چل پڑتے ہیں اور اس امر کا اظہار چوہدری پرویز الہی نے بھی ظہور الہی پیلس میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے ۔
اس تناظر میں اگر مسلم لیگ کے اکٹھ کی خواہیش کو دیکھیں تو کنگری ہاوس کی یہ بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی کہ ضیاءلیگ،شیخ رشید لیگ،فنکشنل لیگ اور ہم خیالوں میں کوئی خاص دم خم نہیں ہے ، ان کی حیثیت محض تانگہ پارٹی کی سی ہے، ان کو تو ویسے بھی حکومت میں شرکت ہونے کا موقع نظر نہیں آ رہا لہذا وہ اپنی سیاسی بقاءکے لئے کسی بڑے افق کے متلاشی ہیں اس لئے ان کی نظریں ق اور ن لیگ کی قیادت پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کس طرح رنجشیں ،کدورتیں اور نفرتیں ختم کرکے قریب آتے ہیں تاکہ ان کی بھی دال گل سکے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پرویز الہی جب یہ کہتے ہیں کہ کھلے دروازے سے ہی سیاست ہو سکتی ہے تو انہیں یہ دروازے رائے ونڈ والوں کے لئے بھی کھلے رکھنے چاہئیے جبکہ ن لیگ کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ن لیگ کا موجودہ سیاسی منظر نامے میں کردار ویسے بھی بڑھ گیا ہے اور اگر وہ وفاداری بدلنے والے سیاست دانوں سے متعلق اپنے موقف کو مزید بھرپور طریقے سے پیش کرے تو اس سے ناصرف ان کا وووٹ بینک بڑھے گا بلکہ پاکستان کی سیاست میں ایک خوشگوار تبدیلی بھی آئے گی اس کے باوجود ن لیگ کی قیادت تھوڑی سی پہل کرکے مسلم لیگ ق کی قیادت کو گلے لگا سکتی ہے تاہم اس سلسلے میں ق لیگ کو اپنی ماضی کی غلطیوں پر معافی اور مالیاتی امور کے حوالے سے اپنے آپ کو جوابدہی کے لئے پیش کرنا ہوگا وگرنہ50 اور 90 کی دہائی میں جس طرح کی آلودہ سیاست ہمارے ہاں ہوتی تھی اس کی جھلک پھر دیکھنے کو مل سکتی ہے لیکن اس سے بدنام بھی بہت ہو گی اس کے باوجود کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی 2010 کی فہرست میں ہم مزید بدعنوانی کرنے والے ممالک میں 34 ویںدرجہ پر آ گئے ہیں لہذا قوم اب توقع کر ر ہی ہے کہ پگاڑا خواہیش ا گر پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے خواہ وہ تمام مسلم لیگ جماعتوں کے کسی محاذ،اتحاد یا انضمام کی صورت میں ہو تو اس میں ذاتی مفادات کی بجائے صرف اور صرف پاکستان اور عوام کا فائیدہ نظر آنا چاہیے۔پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ا قتدار کے کافی مزے لوٹ لئے ،تجوریاں بھر لیں،میرٹ کی دھجیاں بکھیر لیں اور آئیں و دستور کو صحیح معنوں میں ردی کا ٹکڑا بنا دیا لیکن مسلم لیگ کے معاملے میں اب اگر کوئی بڑی مثبت تبدیلی آتی ہے تو اس جماعت کے قائدین کو اپنے اختلافات بھلا کر جماعت کو صحیح معنوں میں پاکستان کی خالق جماعت بنانا ہو گا اور اس کا ایجنڈا صرف اور صرف تخلیق پاکستان کے نظریاتی مقاصد کا حصول ہونا چاہئے۔

جناب مجید نظامی صاحب کے لئے
مسلم لیگوں کا محاذ،اتحاد یا انضمام؟ڈاکٹر دانیال فخر[email protected]ایکس ریسرچ فیلو،پنجاب یونیورسٹی
پاکستان مسلم لیگ کو فائیو ان ون (Five In One) بنانے کے لئے پیر پگاڑا صاحب آج کل خاصے سرگرم نظر آ رہے ہیں لیکن ان کا اصل امتحان اب شروع ہونے والا ہے کہ وہ مسلم لیگ کے دو انتہائی دھڑوں کو کس طرح یکجان کرتے ہیں ان میں سے مسلم لیگ ن دوسرے بڑے لیگی دھڑے یعنی ق لیگ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے دوسرے معنوں میں وہ مائینس چوہدری(شجاعت حسین اور پرویز الہی) کے حامی ہیں کہ اگر یہ دونوں حضرات ق لیگ سے نکل جائیں اور ق لیگ اپنی دستوری شناخت کھو دے تو اس کے ارکان ن لیگ یا پھر کسی اور جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں تو یہ فارمولہ قابل قبول نظر آتا ہے جبکہ مسلم لیگ ق 25 اکتوبر کو جس چال کی شکار ہوئی اس سے یہ ”مکس سگنل“ بعض سیاسی قوتوں کو پہنچا دیا گیا کہ اگر لیگ کے اتحاد پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی تو پھر چوہدریوں کی لیگ پیپلز پارٹی جسے وہ پاکستان توڑنے والی جماعت قرار دے چکی ہے اس کے ساتھ حکومت میں شریک ہو جائے گی جبکہ مسلم لیگ ق صوبہ خیبر پختونخواہ کے صدر امیر مقام اور بعض دیگر لیگی رہنماﺅں نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کی خبروں کو یکسر مسترد کر دیا کہ دونوں جماعتوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے اگر اس تناظر میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو دیکھیں تو وہ بھی ماضی میں چوہدریوں کی جماعت کو قاتل لیگ اور ڈکٹیٹیر لیگ کہہ چکی ہے لیکن چونکہ پاکستان کی سیاست اور سیاست دانوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا دوسرے معنوں میں ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا لہذا وہ کل کی بات،وعدہ اور یقین دہانی کو ماضی کی بات کہہ کر آگے چل پڑتے ہیں اور اس امر کا اظہار چوہدری پرویز الہی نے بھی ظہور الہی پیلس میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے ۔ اس تناظر میں اگر مسلم لیگ کے اکٹھ کی خواہیش کو دیکھیں تو کنگری ہاوس کی یہ بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی کہ ضیاءلیگ،شیخ رشید لیگ،فنکشنل لیگ اور ہم خیالوں میں کوئی خاص دم خم نہیں ہے ، ان کی حیثیت محض تانگہ پارٹی کی سی ہے، ان کو تو ویسے بھی حکومت میں شرکت ہونے کا موقع نظر نہیں آ رہا لہذا وہ اپنی سیاسی بقاءکے لئے کسی بڑے افق کے متلاشی ہیں اس لئے ان کی نظریں ق اور ن لیگ کی قیادت پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کس طرح رنجشیں ،کدورتیں اور نفرتیں ختم کرکے قریب آتے ہیں تاکہ ان کی بھی دال گل سکے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ پرویز الہی جب یہ کہتے ہیں کہ کھلے دروازے سے ہی سیاست ہو سکتی ہے تو انہیں یہ دروازے رائے ونڈ والوں کے لئے بھی کھلے رکھنے چاہئیے جبکہ ن لیگ کو بھی لچک کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور ن لیگ کا موجودہ سیاسی منظر نامے میں کردار ویسے بھی بڑھ گیا ہے اور اگر وہ وفاداری بدلنے والے سیاست دانوں سے متعلق اپنے موقف کو مزید بھرپور طریقے سے پیش کرے تو اس سے ناصرف ان کا وووٹ بینک بڑھے گا بلکہ پاکستان کی سیاست میں ایک خوشگوار تبدیلی بھی آئے گی اس کے باوجود ن لیگ کی قیادت تھوڑی سی پہل کرکے مسلم لیگ ق کی قیادت کو گلے لگا سکتی ہے تاہم اس سلسلے میں ق لیگ کو اپنی ماضی کی غلطیوں پر معافی اور مالیاتی امور کے حوالے سے اپنے آپ کو جوابدہی کے لئے پیش کرنا ہوگا وگرنہ50 اور 90 کی دہائی میں جس طرح کی آلودہ سیاست ہمارے ہاں ہوتی تھی اس کی جھلک پھر دیکھنے کو مل سکتی ہے لیکن اس سے بدنام بھی بہت ہو گی اس کے باوجود کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی 2010 کی فہرست میں ہم مزید بدعنوانی کرنے والے ممالک میں 34 ویںدرجہ پر آ گئے ہیں لہذا قوم اب توقع کر ر ہی ہے کہ پگاڑا خواہیش ا گر پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے خواہ وہ تمام مسلم لیگ جماعتوں کے کسی محاذ،اتحاد یا انضمام کی صورت میں ہو تو اس میں ذاتی مفادات کی بجائے صرف اور صرف پاکستان اور عوام کا فائیدہ نظر آنا چاہیے۔پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے ا قتدار کے کافی مزے لوٹ لئے ،تجوریاں بھر لیں،میرٹ کی دھجیاں بکھیر لیں اور آئیں و دستور کو صحیح معنوں میں ردی کا ٹکڑا بنا دیا لیکن مسلم لیگ کے معاملے میں اب اگر کوئی بڑی مثبت تبدیلی آتی ہے تو اس جماعت کے قائدین کو اپنے اختلافات بھلا کر جماعت کو صحیح معنوں میں پاکستان کی خالق جماعت بنانا ہو گا اور اس کا ایجنڈا صرف اور صرف تخلیق پاکستان کے نظریاتی مقاصد کا حصول ہونا چاہئے۔