URDUSKY || NETWORK

عوام بھی اپنا ووٹ مہنگا کرئے

111

سہیل احمد
پاکستان میں اس وقت مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ آج جس قیمت پر آپ نے کوئی شے خریدی ہے کوئی پتا نہیں کہ کل آپ کو اُس کے لیے دگنی قیمت ادا کرنی پڑ جائے۔ دوسری طرف بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے کاروبار تباہ ہو رہے ہیں ایسے میں مہنگائی اور بھی طوفان برپاہ کر رہی ہے۔ اردو کا ایک محاورہ ہے "اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں”۔اسی طرح عوام کو کیا چاہیے دو وقت کی روٹی۔ دوسری ساری ضروریات اپنی جگہ لیکن اگر روٹی بھی غریب کو میسر نہیں ہوگی تو وُہ حکومت کو کیا خاک بہتر جانے گا۔یہ مہنگائی کا ہی کرشمہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کوبیچنے اور اجتماعی خود کشی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔مہنگائی کے اس زہر کو جو دن بدن پھیلتا جا رہا ہے کنٹرول کرنے کی بجائے حکومتی نمائندے اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ کبھی مسلم لیگ (ن) ناراض ہو جاتی ہے تو کبھی ایم کیو ایم کو راضی کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کو نائن زیرو جانا پڑتا ہے۔ کبھی ریمنڈ کا Man Writing مسئلہ تو کبھی جعلی ڈگریوں کا کیس۔ قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلی کا اجلاس دیکھیں تو ایسے لگتا ہے جیسے ہم اپنے جرم کی سزا کا منظر دیکھ رہے ہیں۔ ایسے لوگوں جو صرف اپنے لیے پیسہ اکٹھا کرنا جانتے ہیں ۔جو ملکی وسائل کو بہتر بنانے کی بجائے عوام کے لیے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں۔جن کا مقصد صرف اقتدار میں رہنا ہے چاہے اُس کے لیے این آ رو کا سہارا لینا پڑے یا جعلی ڈگری کا۔ جو ہر دوسری سیاسی پارٹی کو نیچا دیکھانے کے لیے سر توڑ کوشش کرتے ہیںلیکن ملک دشمن عناصر کے خلاف بولتے زبان کانپتی ہے۔ عوام ایسے لوگوں کو منتخب کیوں کرتے ہیں؟ ہم ایک جوتا خریدنے جاتے ہیں تو سارا بازار گھومتے ہیں لیکن جب اپنا اور اپنے ملک کا مستقبل کسی کے ہاتھ میں دینے کا وقت آتا ہے تو آنکھیں بند کر کے مہر لگا دیتے ہیں۔ کیوں عوام نے اپنا ووٹ اتنا سستا کر دیا ہے؟ کیوں عوام اپنا ووٹ مہنگا نہیں کرتی؟اس بات سے بالا تر ہو کر کہ آپ کا بھائی، باپ ،دوست یا رشتہ دار الیکشن لڑ رہا ہے ووٹ اُس شخص کو دیا جائے جس میں ایک اچھا حاکم بننے کی خوبیاں اور اوصاف ہوں۔ ایک نمائندہ لوگوں کے پاس آتا ہے جو اُن سے طرح طرح کے وعدہ کرتا ہے۔ ووٹ کی خاطر وُہ ذات، برادری کا فرق بھی بھول جاتا ہے اور عوام بھی اُس کے آنے کو ہی کافی سمجھ کر ووٹ اُس کو دے دیتے ہیں۔ بعد میں عوام اُس کو ایک آنکھ دیکھنے کو بھی ترس جاتے ہیں۔ پھر وُہ عزم کرتے ہیں کہ اگلی دفعہ ووٹ کسی ایسے بندے کو دینا ہے جو اُن کے کام بھی آ سکے لیکن اگلی دفعہ پھر وہی ڈرامہ۔ عوام نے صرف ایک اصول بنا لیا ہے کہ ہر دفعہ ایک ہی پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔ اُس پارٹی کا نمائندہ جیسا بھی ہے پر لوگوں کے ذہن میں پارٹی کا قائد ہی سمایا ہے۔ لوگ مختلف پارٹیوں سے ذہنی طور پر اس قدر منسلک ہو گئے ہیں کہ چاہے پارٹی کی طرف سے اُن کو راحت ملی ہے یا نہیں وُہ پارٹی کے بارے میں ایک لفظ بھی سننے کو تیار نہیں۔ پھر ایسا بھی ہے کہ جس پارٹی کو گھر کے سربراہ نے ووٹ دینا ہے گھر کے تمام افراد نے اُسی پارٹی کو ووٹ دینا ہے۔ بہت سارے خاندانوں میں بھی یہ ہی نظام رائج ہے۔ کسی بھی قوم کے لیے ساٹھ سال تجربات کرنے کے لیے کافی ہوتے ہیں اب بھی وقت ہے ہوش میں آنے کا ،کب تک حکومتیں عوام کے لیے مہنگائی کرتی رہیں گئیں اب عوام کی باری بھی آنی چاہیے۔ اب عوام بھی اپنا ووٹ مہنگا کرئے۔ عوام بھی ووٹ دینے سے پہلے اپنے ذہن کو استعمال میں لائیں اور اُس نمائندے کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کر لیں تا کہ جعلی ڈگری والے نا اہل لوگ اسمبلیوں تک نہ پہنچ سکیں۔ جب عوام کا ووٹ مہنگا ہو گا تب ہی پڑھے لکھے لوگ سیاست کا رُخ کریں گے ۔ تب ہی غریب لوگوں کے لیے زندگی آسان ہو گی اور پاکستان ایک خود مختار اور خوشخال ملک بن سکے گا۔