URDUSKY || NETWORK

خانقاہی نظام خطرے میں

96
خانقاہی نظام خطرے میں
اسماءشمائل
صوفیائے کرام کے ذکر پر دل و دماغ میں امن،آشتی اور روحانیت کے نام آ تے ہیں برصغیر پاک و ہند کا خطہ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ یہاں پر صوفی صوفیائے کرام اور اولیاءکرام کی بڑی تعداد آسودہ خاک ہے کہ جس جگہ پر انہوں نے ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کو ناصرف امن بلکہ عالمی امن کا پیغام دیا وہاں کے باسیوں نے اب ان کے مزارات اور درباروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ،پاکپتن پنجاب میں بابا فرید مسعود گنج شکر ؒ کے مزار پر 25 اکتوبر 2010 کی صبح ہونے والا حملہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے یہ اس موذی جنگ کی برکات ہے کہ جس کو سابق آمر جنرل(ر) پرویز مشرف اس ڈر سے پاکستان لے آیا کہ اگر وہ اسے نہ لاتا تو پاکستان خدانخواستہ پتھر کے زمانے میں چلا جاتا یہ اس سابق کمانڈو کی دین ہے کہ پاکپتن کا واقعہ پاکستانی تاریخ کا وہ آٹھواں سیاہ ترین واقعہ ہے جو گزشتہ 5 سالوں میں دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے مکروہ عزائم کے باعث ہوا۔2005 ءمیں بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں پیر راخیل شاہ کے مزار پر ہونے والے میں 30 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اسی سال اسلام آباد میں بری امام کے دربار پر ایک خودکش حملہ ہوا اور 2009ءمیں پشتو شاعر رحمان بابا کے مزار کو ہدف بنایا گیا اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ میں مختلف چھوٹے بڑے مزارات وغیرہ تخریب کاروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوا . 2010 ءکا سال اس حوالے سے اہم رہا کہ اس بر س یکم جولائی کو لاہور میں واقع حضرت علی ہجویریؒ کے مزار کو خودکش حملہ سے نشانہ بنایا گیا ،اکتوبر کے پہلے ہفتے میں عبداللہ شاہ غازیؒ اور آخری ہفتے میں بابا فرید مسعود گنج شکرؒ کے دربار کو ہدف بنایا گیا ،ان حملوں سے جہاں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا وہاں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ،مزارعات کو جزوی اور کلی طور پر نقصان پہنچا جبکہ دنیا بھر میں کلمہ گو مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔
مذکورہ بالا واقعات کے تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں خانقاہی نظام خطرے سے دوچار ہے تو اس کا مختصر جواب جزوی اثبات میں ہے ۔پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ فرقہ واریت کی حامل تنظیموں اور علاقائی و عا لمی قوتوں نے بڑے منظم طریقے سے پاکستان میں مزارعات اور درباروں کو ہدف بنایا اور لوگوں کو اتنا خوفزدہ کر دیا کہ وہ جو پہلے مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت کے لئے جاتے تھے انہوں نے بھی اپنی نقل و حرکت محدود کر دی ہے اور ویسے بھی ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک کہہ چکے ہیں کہ مقدس مقامات اور مذہبی تقریبات میں شرکت کم کی جائے اور بہتر ہو کہ اسے چار دیواری کے اندر رکھا جائے ،حکومت اس طرح کے بیانات دے کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ عوام گھر سے نکلنا بند کر دے اور ہاتھ پہ ہاتھ دہر کر بیٹھ جائے جبکہ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں نے عوام کے لئے وہ کون سے فردوسی منصوبے شروع کئے جس کی بناءپر عوام فارغ رہ کر وظیفہ خوری شروع کر ے لہذا اس طرح کے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے ۔وزارت داخلہ کے وزیر کو چاہئے کہ وہ جائے وقوعہ پر فوری طور پر پہنچنے کی بجائے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے محض ڈی سی او ز بدلنے یا انہیں معطل کرنے کے کلچر سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا ہماری عوام ماضی کی طرح آج بھی توقع کر رہی ہے کہ جنرل (ر) مشرف کے بعد آنے والی جمہوری حکومت ان کے لئے آسانیاں پہنچانے کا بندوبست کرے گی لیکن آسانیاں پہنچانا تو ایک طرف یہاں پر تو آسانیاں چھیننے کی رسم چلی ہوئی ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بریلوی اور دیوبندی مکتبہ فکر کو لڑانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں کیونکہ فرقہ ورانہ تقسیم کا تحفہ تو ہمیں ضیاءدور میں مل چکا ہے اب نئے آمر مشرف نے جس تخم کی یہاں پر آبیاری کی ہے اس کی کونپلیں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے مابین خلیج کی صورت میں نکلنا شروع ہو گئی ہیں ۔ واضح رہے کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں زیادہ تر دیوبندی آباد ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ میں بریلوی فکر کے لو گوں کی کثرت ہے ان کے درمیان مزارات کی تعمیر،وہاں پر جانے اور ختم وغیرہ ا ختلافی امور ہیں اور انہی نکات کا دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے ،مزاراعات وغیرہ پر حملے اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ۔
اس پس منظر میں دیکھا جائے تو حکومت اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ محبت ، امن اور اخوت کے ان مقامات کی حفاظت کےلئے خصوصی اور خاطر خواہ اقدامات کرے کہ یہاں پر بلا کسی رنگ، نسل اور مذہب کے امن سے محبت کرنے والے آتے ہیں ۔دشمن اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح لوگوں کو یہاں آنے سے روک دے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے وقت نے ثابت کر دیا کہ جن جن مزاروں اور درباروں کو خون آلود کیا گیا اور امن کی شمع بجھانے کی کوشیش کی گئی وہاں پر پروانے اب زیادہ جوش و خروش سے آنے لگے ہیں ۔

جناب مجید نظامی صاحب کے لئے
مسلم لیگوں کا محاذ،اتحاد یا انضمام؟ڈاکٹر دانیال فخر[email protected]ایکس ریسرچ فیلو،پنجاب یونیورسٹی
پاکستان مسلم لیگ کو فائیو ان ون (Five In One) بنانے کے لئے پیر پگاڑا صاحب آج کل خاصے سرگرم نظر آ رہے ہیں لیکن ان کا اصل امتحان اب شروع ہونے والا ہے کہ وہ مسلم لیگ کے دو انتہائی دھڑوں کو کس طرح یکجان کرتے ہیں ان میں سے مسلم لیگ ن دوسرے بڑے لیگی دھڑے یعنی ق لیگ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے دوسرے معنوں میں وہ مائینس چوہدری(شجاعت حسین اور پرویز الہی) کے حامی ہیں کہ اگر یہ دونوں حضرات ق لیگ سے نکل جائیں اور ق لیگ اپنی دستوری شناخت کھو دے تو اس کے ارکان ن لیگ یا پھر کسی اور جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں تو یہ فارمولہ قابل قبول نظر آتا ہے جبکہ مسلم لیگ ق 25 اکتوبر کو جس چال کی شکار ہوئی اس سے یہ ”مکس سگنل“ بعض سیاسی قوتوں کو پہنچا دیا گیا کہ اگر لیگ کے اتحاد پر سنجیدگی نہیں دکھائی گئی تو پھر چوہدریوں کی لیگ پیپلز پارٹی جسے وہ پاکستان توڑنے والی جماعت قرار دے چکی ہے اس کے ساتھ حکومت میں شریک ہو جائے گی جبکہ مسلم لیگ ق صوبہ خیبر پختونخواہ کے صدر امیر مقام اور بعض دیگر لیگی رہنماﺅں نے پیپلز پارٹی سے اتحاد کی خبروں کو یکسر مسترد کر دیا کہ دونوں جماعتوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے اگر اس تناظر میں پیپلز پارٹی کی قیادت کو دیکھیں تو وہ بھی ماضی میں چوہدریوں کی جماعت کو قاتل لیگ اور ڈکٹیٹیر لیگ کہہ چکی ہے لیکن چونکہ پاکستان کی سیاست اور سیاست دانوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا دوسرے معنوں میں ان کے سینے میں دل نہیں ہوتا لہذا وہ کل کی بات،وعدہ اور یقین دہانی کو ماضی کی بات کہہ کر آگے چل پڑتے ہیں اور اس امر کا اظہار چوہدری پرویز الہی نے بھی ظہور الہی پیلس میں وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ہے ۔ خانقاہی نظام خطرے میں اسماءشمائل([email protected])
صوفیائے کرام کے ذکر پر دل و دماغ میں امن،آشتی اور روحانیت کے نام آ تے ہیں برصغیر پاک و ہند کا خطہ اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ یہاں پر صوفی صوفیائے کرام اور اولیاءکرام کی بڑی تعداد آسودہ خاک ہے کہ جس جگہ پر انہوں نے ہزاروں ،لاکھوں لوگوں کو ناصرف امن بلکہ عالمی امن کا پیغام دیا وہاں کے باسیوں نے اب ان کے مزارات اور درباروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ،پاکپتن پنجاب میں بابا فرید مسعود گنج شکر ؒ کے مزار پر 25 اکتوبر 2010 کی صبح ہونے والا حملہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے یہ اس موذی جنگ کی برکات ہے کہ جس کو سابق آمر جنرل(ر) پرویز مشرف اس ڈر سے پاکستان لے آیا کہ اگر وہ اسے نہ لاتا تو پاکستان خدانخواستہ پتھر کے زمانے میں چلا جاتا یہ اس سابق کمانڈو کی دین ہے کہ پاکپتن کا واقعہ پاکستانی تاریخ کا وہ آٹھواں سیاہ ترین واقعہ ہے جو گزشتہ 5 سالوں میں دہشت گردوں اور تخریب کاروں کے مکروہ عزائم کے باعث ہوا۔2005 ءمیں بلوچستان کے علاقے جھل مگسی میں پیر راخیل شاہ کے مزار پر ہونے والے میں 30 افراد جاں بحق ہوئے تھے جبکہ اسی سال اسلام آباد میں بری امام کے دربار پر ایک خودکش حملہ ہوا اور 2009ءمیں پشتو شاعر رحمان بابا کے مزار کو ہدف بنایا گیا اس کے علاوہ خیبر پختونخواہ میں مختلف چھوٹے بڑے مزارات وغیرہ تخریب کاروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہوا . 2010 ءکا سال اس حوالے سے اہم رہا کہ اس بر س یکم جولائی کو لاہور میں واقع حضرت علی ہجویریؒ کے مزار کو خودکش حملہ سے نشانہ بنایا گیا ،اکتوبر کے پہلے ہفتے میں عبداللہ شاہ غازیؒ اور آخری ہفتے میں بابا فرید مسعود گنج شکرؒ کے دربار کو ہدف بنایا گیا ،ان حملوں سے جہاں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا وہاں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ،مزارعات کو جزوی اور کلی طور پر نقصان پہنچا جبکہ دنیا بھر میں کلمہ گو مسلمانوں میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔مذکورہ بالا واقعات کے تناظر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں خانقاہی نظام خطرے سے دوچار ہے تو اس کا مختصر جواب جزوی اثبات میں ہے ۔پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے کہا جا سکتا ہے کہ فرقہ واریت کی حامل تنظیموں اور علاقائی و عا لمی قوتوں نے بڑے منظم طریقے سے پاکستان میں مزارعات اور درباروں کو ہدف بنایا اور لوگوں کو اتنا خوفزدہ کر دیا کہ وہ جو پہلے مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت کے لئے جاتے تھے انہوں نے بھی اپنی نقل و حرکت محدود کر دی ہے اور ویسے بھی ہمارے وزیر داخلہ رحمن ملک کہہ چکے ہیں کہ مقدس مقامات اور مذہبی تقریبات میں شرکت کم کی جائے اور بہتر ہو کہ اسے چار دیواری کے اندر رکھا جائے ،حکومت اس طرح کے بیانات دے کر یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ عوام گھر سے نکلنا بند کر دے اور ہاتھ پہ ہاتھ دہر کر بیٹھ جائے جبکہ موجودہ اور ماضی کی حکومتوں نے عوام کے لئے وہ کون سے فردوسی منصوبے شروع کئے جس کی بناءپر عوام فارغ رہ کر وظیفہ خوری شروع کر ے لہذا اس طرح کے بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے ۔وزارت داخلہ کے وزیر کو چاہئے کہ وہ جائے وقوعہ پر فوری طور پر پہنچنے کی بجائے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرے محض ڈی سی او ز بدلنے یا انہیں معطل کرنے کے کلچر سے کوئی انقلاب نہیں آئے گا ہماری عوام ماضی کی طرح آج بھی توقع کر رہی ہے کہ جنرل (ر) مشرف کے بعد آنے والی جمہوری حکومت ان کے لئے آسانیاں پہنچانے کا بندوبست کرے گی لیکن آسانیاں پہنچانا تو ایک طرف یہاں پر تو آسانیاں چھیننے کی رسم چلی ہوئی ہے۔خیال کیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں بریلوی اور دیوبندی مکتبہ فکر کو لڑانے کے لئے خصوصی اقدامات کئے گئے ہیں کیونکہ فرقہ ورانہ تقسیم کا تحفہ تو ہمیں ضیاءدور میں مل چکا ہے اب نئے آمر مشرف نے جس تخم کی یہاں پر آبیاری کی ہے اس کی کونپلیں دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کے مابین خلیج کی صورت میں نکلنا شروع ہو گئی ہیں ۔ واضح رہے کہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں زیادہ تر دیوبندی آباد ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ میں بریلوی فکر کے لو گوں کی کثرت ہے ان کے درمیان مزارات کی تعمیر،وہاں پر جانے اور ختم وغیرہ ا ختلافی امور ہیں اور انہی نکات کا دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے ،مزاراعات وغیرہ پر حملے اس سلسلے کی پہلی کڑی ہے ۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو حکومت اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ وہ محبت ، امن اور اخوت کے ان مقامات کی حفاظت کےلئے خصوصی اور خاطر خواہ اقدامات کرے کہ یہاں پر بلا کسی رنگ، نسل اور مذہب کے امن سے محبت کرنے والے آتے ہیں ۔دشمن اگر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح لوگوں کو یہاں آنے سے روک دے گا تو یہ اس کی خام خیالی ہے وقت نے ثابت کر دیا کہ جن جن مزاروں اور درباروں کو خون آلود کیا گیا اور امن کی شمع بجھانے کی کوشیش کی گئی وہاں پر پروانے اب زیادہ جوش و خروش سے آنے لگے ہیں ۔