URDUSKY || NETWORK

تیونس میں” چنبیلی انقلاب“

92

خصوصی فیچر | تحریر وتحقیق: رحمان محمود خان

انگاروں میں گھری دہکتی آگ کو ذرا سے ہوا کے جھونکے سے بھڑکایا جا سکتا ہے ‘جو آن کی آن میں جنگل کے جنگل کا صفایا پھیر سکتی ہے۔اکثر اوقات سننے میں آتا ہے کہ فلاں ملک کے جنگل میں اچانک آگ بھڑک اٹھی۔حالانکہ وہ آگ اچانک نہیں بھڑکتی۔اس کے لیے وہاں تمام لوازمات موجود ہوتے ہیں۔جب سورج کی کرنیں مخصوص زاویے سے درخت کی شاخوں سے گزرتی ہوئی پتھروں پر پڑتی ہیں تو تپش اور لُو کی موجودگی میں ماحول شدید گرم ہوجاتا ہے اور ان پتھروں کے پاس Rehman-khan-colunmistخزاںرسیدہ پتے آگ کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔آناً فاناً آگ پورے جنگل کو نگل جاتی ہے۔یہ بھی ایک ارتقائی عمل ہے۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز کو زوال ہے۔اگر اس کی مثال جنگل سے نکال کر نوآبادیوں پر لاگو کریںتو حالات مختلف نہیں۔ظلم و بربریت،ناانصافی،لوٹ کھسوٹ،عدم برداشت،اقربا پروری اور کرپشن ایسے عناصر ہیں جو اس آگ کو بھڑکانے میں فعال کرادر ادا کرتے ہیں۔بے حس اقوام تو بے حسی اور مظلومیت کی چادر اوڑھے حالات کے خود بخود بدلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور آخرکار انتظار اور ظلم سہتے سہتے سو جاتے ہیں۔جب کہ بیدار اقوام چند ثانیے ٹھہر کر ماحول کا جائزہ لیتی ہیں اور اک بہانہ تلاش کر کے تختہ الٹ دیتی ہیں۔قارئین!کچھ ایسا ہی احوال افریقہ کے مسلم ملک تیونس(تیونسیا)میں ہوا جو کہ اکیسویں صدی کا پہلا انقلاب اور کرپٹ حکمرانوں کے لیے الٹی میٹم کی حیثیت رکھتا ہے۔مغربی دنیا کے لاڈلے،کرپٹ اورعرب مملکت کے سربراہ زین العابدین بن علی کوعوامی پرزور احتجاج کی بناءپر تیونسیا(تیونس) پر 23سا ل تک حکومت کرنے کے باوجود ملک چھوڑ کر فرار کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔
گزشتہ جمعہ کو تیونس کے جابر اور کرپٹ صدر زین العابدین بن علی کو شدید احتجاج کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث صدر نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی بجائے راہِ فرار اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔تیونس کی عوام کو ظالم حکومت سے چھٹکارا مل گیا۔انقلابِ تیونس کے داعیوں نے اپنی جان کی پرواہ کےے بغیر یہ کارنامہ انجام دیا اور تاریخ کے اوراق پر انقلاب ِتیونس کا نام ثبت کردیا۔اس انقلاب کو Jasmine Revolutionیعنی چنبیلی انقلاب سے موسوم کیا جارہا ہے۔چنبیلی انقلاب محض تین روزیا تین ہفتوں کی بات نہیںبلکہ تیونس میں زبردست عوامی انقلاب برسوں سے روا رکھے گئے ناروا سلوک اور ظلم کی پرورش کی بدولت آیا۔غریب عوام پر تیونسی حکمران نے23 سال تک زیادتیاںروا رکھیں۔ آج اسی عوام نے23سال تک بلا شرکت غیرے صدارت کے مزے لوٹنے والے صدر زین العابدین بن علی کو ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا۔قارئین!انقلاب کے لیے حالات سازگار نہیں ہوتے۔ظالم حکمران ہی اسباب پیدا کرتے ہیں۔یہ اشارہ ہے اس واقعہ کی طرف جو ناجانے ہر روز تیونس کی غریب عوام کو پیش آتا ہوگا اور اس واقعے کے رونما ہونے سے انقلاب کی راہ ہموار کردی۔تیونسی عوام نے محض 3ہفتے کی جدوجہد سے ملک میں انقلاب بپا کر دیا۔
گزشتہ سال17دسمبر2010ع کوتیونس کے دارالحکومت میں وفاقی پولیس نے ایک26سالہ گرایجویٹ محمد بن ابو عزیز کو رشوت نہ دینے کی بناءپر اس کی پھلوں کی ریڑھی توڑ دی اور سامان ضبط کرلیا۔
18دسمبر2010ع کومحمد بن ابو عزیز نے دلبرادشتہ ہو کر پارلیمنٹ کے سامنے خود کو آگ لگالی،اسے بروقت ہسپتال لے جایا گیا۔
19دسمبر2010ع کوتیونس کے وسطی علاقوں میں اس واقعے کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے کیوں کہ غریب طبقے ساتھ ایسے واقعات کا پیش آنا معمول بن چکا تھا۔احتجاج کا نا رکنے والا سلسلے کا آغاز ہو گیاحالات بدستور ابتری کی طرف جا رہے تھے۔اس کے دوران صدر زین العابدین بن علی نے پولیس اور فوج کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔
جس کے نتیجے میں24دسمبر2010ع کو 18سالہ یونیورسٹی کا طالبِعلم پولیس کی فائرنگ کی زد میں آکر جاں بحق ہوگیا۔اب عوام کے پاس ملک کے کرپٹ ترین حکمرانوں کو نکال باہر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔عوام میں خوف و ہراس پھیلانے میںناکام صدر نے گرفتاریوں اور فائرنگ کے سخت سے سخت احکامات صادر کر دیے۔نتیجتاً100کے لگ بھگ افراد جاں بحق ہو گئے۔
دوسری طرف4جنوری2011ع کو خود سوزی کرنے والے محمد بن ابو عزیز بھی انتقال کر گئے۔اس واقعے سے عوامی مظاہرے شدت اختیار کر گئے۔عوام سڑکوں پر سراپا احتجاج بن گئے اور سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچانے لگے۔
8سے10جنوری2011ع تک صرف تین روز کے دوران ریلیوں اور ہنگاموں کا سلسلہ بدستور جاری رہا جس کے نتیجے میں50سے 60افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے ثابت کردیا کہ انقلاب خون مانگتا ہے۔ان شہداءکے لال خون نے عوام میں مزیدغم و غصے کی لہر دوڑا دی،اب تیونسی قوم اس خون کو معاف کرنے یا مصلحت کا شکار ہونے کی بجائے انقلاب پر ڈٹی رہی۔
10جنوری2011ع کو صدر زین العابدین بن علی اور ان کے حامیوں نے ایک چال چلی۔صدر زین العابدین بن علی نے اعلان کیا کہ شورشوں اور فساد کے اختتام تک ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ےہ بھی اعلان کیا کہ3لاکھ نئی آسامیاں پر ملک کے نوجوانوں کو تعینات کیا جائے گا۔
12جنوری2011ع کوصدر زین العابدین بن علی کے کہنے پر وزیرِاعظم محمود غنوشی نے وزیرِداخلہ رفیق بلحاج قاسم کو برطرف کردیا اور اعلان کیا گیا کہ کرپشن کے خلاف تحقیقات ہوںگی اور ملوث افراد کو کیفرِکردار تک پہنچایا جائے گا۔اس کے علاوہ گرفتار کیے گئے تمام افراد کی رہائی کے احکامات صادر کیے گئے‘لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔عوام ان اقدامات کو صدر زین العابدین بن علی کی چال سمجھ کر انقلاب سے توجہ ہٹانے کے لیے بالکل بھی تیار نہ ہوئے۔صدر زین العابدین بن علی کے ےہ آخری اعلانات ثابت ہوئے۔اسی روز ہنگاموںکے دوران پولیس کے ہاتھوں 8افراد کی مزید ہلاکتیں ہوئیں۔جس کے بعد ریلیوں کا سلسلہ روکنے کے لیے کرفیو کا نفاذ عمل میں آیا۔اقوامِ متحدہ بھی اس معاملے میں کود پڑا اور تشدد کے واقعات کی آزاد اور شفاف تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا۔
13جنوری2011ع کو فوج کو ہٹا کر صدر زین العابدین بن علی نے پولیس کو مظاہرین پر فائرنگ کرنے سے روک دیا ور گرفتار افراد کی رہائی کا حکم دیا۔
14جنوری2011ع کو عوام نے صدارتی محل کا گھیراو کرنے کے لیے پیش قدمی کی تواس موقع پر پولیس نے اپنی آخری کوشش کی لیکن بے سود۔اس اثناءمیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے23سال سے مسندِاقتدار سے چمٹے رہنے والے صدر زین العابدین بن علی اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ فرار ہو گئے۔
اس کے بعدتوتیونس کا نقشہ ہی بدل گیا۔صدر زین العابدین بن علی کے جانے پر تیونس کی بہادر عوام جشن منانے لگے اور مشاورت سے عوامی مسائل حل کرنے والی حکومت کی تشکیل نو کا آغاز ہو گیااور آخری اطلاعات آنے تک عوام مکمل انقلاب کے خواہا ں ہیں۔دلچسپ اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ صدر زین العابدین بن علی کو ان کے پیارے ملک فرانس نے سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا۔مزید براں صدر اور ان کی اہلیہ اور دوسرے قریبی لوگوں کے اثاثے منجمند کر دیئے۔
صدر زین العابدین بن علی3ستمبر1936ع کوپیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم سوِسے سیکنڈری سکول(Sousse Secondary School)سے حاصل کی۔زمانہ طالبِ علمی کے دوران ہی سیاست سے شغف ہو گیا۔زین العابدین نے قومی مزاحمتی تحریک کے لیے ایک تنظیم نییودستور پارٹی(Neo-Destour Party)میں شمولیت کر لی۔جس کی بناءپر اکثر اوقات سکول سے غیر حاضر رہتے جس کے باعث زین العابدین کا نام کئی بار سکول سے خارج بھی ہوا۔سیکنڈری سکول سے تعلیم مکمل کر نے کے بعد زین العابدین نے ڈگریوں کی بھرمار کردی۔مختلف فوجی اداروں سے تعلیم حاصل کرتے رہے جس میں سپیشل انٹرسروسز سکول۔ فرانس،آرٹلری سکول ۔فرانس،سینئر انٹیلی جنس سکول میری لینڈ۔ امریکااوراینٹی کرافٹ فیلڈ آرٹلری ٹیکساس ۔امریکا شامل ہیں۔صدر زین العابدین بن علی کے فوجی کیرئیر کا باقاعدہ آغاز1964ع سے ہوتا ہے۔جب پیشہ وارانہ قابلیت کے حصول کے بعد تیونسیا کی فوج میں بطور سٹاف آفیسر تعینات ہوئے۔فوج کی سروس کے دوران ملٹری سیکیورٹی کا ادارہ قائم کیا اور مسلسل10سال تک مختلف فوجی آپریشنز میں حصہ لیتے رہے۔صدر زین العابدین بن علی نے مراکش اور سپین میں بطور فوجی اتاشی کے بھی فرائض انجام دیئے۔1977ع کو نیشنل سیکیورٹی کے جنرل ڈائریکٹر منتخب کیے گئے۔
تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی اور اس کے خاندان پر کرپشن اور قومی دولت کو اپنے اکاونٹس میں منتقل کرنے اور تیونس کے وسائل پر بے جا قابض ہونے کے علاوہ ملک میں بے روزگاری،صنعت کی زوال پزیری کے بیش بہا الزام ہیں۔اس خاندان کی اندھا دھند کرپشن کے باعث تیونس جیسے باوسائل ملک میں بے روزگاری،عدم تعاون کی فضا،رشوت خوری،ناانصافی،کرپشن اور مہنگائی میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا۔زین العابدین کے بہت سے رشتہ دار کرپشن کرکے عدم تحفظ کو وجہ بناتے ہوئے پہلے ہی تیونس کو خیرباد کہہ کر بیرونِ ملک تیونسی عوام کی دولت پر مزے لوٹ رہے ہیں۔
صدر زین العابدین بن علی کی بیوی لیلیٰ بن علی (سابقہ خاتون ِاوّل)باسمہ فاو¿نڈیشن (Basma Foundation)کی چیئرپرسن تھیں۔جو کہ بظاہر ملک میں بے روزگاری ،کرپشن کے خاتمے اور معاشرے میں سماجی و فلاحی تنظیم کے طور پر کام کرتی تھی لیکن اصل حقائق کچھ اور ہیں۔یہ تنظیم حکومت سے فنڈ جاری کروا کر آپس میںبندر بانٹ کر کے کاغذوں کے پیٹ بھر دیتی اور کرپشن جوں کی توں رہتی۔لیلیٰ بن علی کے اپنے پہلے خاوند سے تین بچے نسرین،حلیمہ اور محمد زین ہیں اس کے علاوہ تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کی اپنی پہلی بیوی سے تین بیٹیاں غزوہ،دورسف اور سائرین ہیں۔تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی اب تک تیونس کے دوسرے صدر تھے۔تیونس کے صدور کی تفصیل کچھ یوں ہے:۔
نام صدور
دورانیہ
سیاسی جماعت
حبیب بورقیبہ
25 جولائی1957ع تا 7نومبر1987ع
نییو دستور پارٹی (1957-1964)
سوشلسٹ دستورین پارٹی (1964-1987)
زین العابدین بن علی
7 نومبر1987ع تا 14جنوری2011ع
سوشلسٹ دستورین پارٹی (1987-1988)
آئینی جمہوری پارٹی(1988-2011)
محمود غنوشی
14 جنوری2011ع تا15جنوری2011ع
آئینی جمہوری پارٹی
فوآاد مبازا (قائم مقام)
15 جنوری2011ع تا حال

افریقی ملک تیونس کے مفرور صدر زین العابدین کرپشن کی وجہ سے بدنام ضرور ہوئے لیکن دہشت گردی کی روک تھام اور خواتین کے حقوق کی اچھی صورتحال ان کے اچھے کام میں شمار کیے جاتے ہیں۔یہ تفصیلات امریکی مراسلوں سے پتہ چلتی ہیں جو وقتا ًفوقتاً تیونس سے واشنگٹن بھیجے جاتے رہے۔ایسا ہی ایک مراسلہ اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس کے دورہ تیونس سے پہلے لکھا گیا۔اگست 2008ع میں لکھے گئے اس مراسلے میں بتایا گیا کہ تیونس ایک طرف خاتون اول کے گھر والوں کی جانب سے کرپشن سے پریشان ہے تو دوسری طرف صدر زین العابدین نے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں دہشت گردی کیخلاف سخت اقدامات کیے اور اپنے ملک کو عدم استحکام سے باہر نکالا۔ مراسلے میں لکھا گیا کہ تیونس نے خواتین کے حقو ق کی بہتری کیلئے جو کام کیے اس نے اس خطے کو علاقے کے لیے رول ماڈل بنادیا۔زین العابدین کے دور کی اچھائیاں اپنی جگہ لیکن کرپشن کی برائی ایسی ہے جو مٹائے نہیں مٹتی اور اکثر مراسلوں کا حصہ رہی۔جولائی 2009ع کو بھیجے گئے ایسے ہی ایک مراسلے میں امریکی سفیر کی صدر زین العابدین کے داماد کی دعوت میں شرکت کی تفصیلات بتائی گئیں۔اس میں بتایا گیا مہمانوں کی آو¿ بھگت کے لیے بے تحاشا اسٹاف رکھا گیا۔جگہ کو خوبصورت بنانے کے لیے نوادارت اور رومن اسٹائل کے ستون رکھے گئے۔یہاں تک کہ شیر کا سر بھی رکھا گیا جس میں سے پانی فوارے کی شکل میں تالاب میں گرتا تھا۔ اس دعوت میں درجن بھر ڈشیں رکھی گئیں جس کے لیے آئس کریم فرانس سے لایا گیا۔مراسلے میں بتایا گیا کہ زین العابدین کے دامادنے اس وقت سے ایک شیر پال رکھا ہے جب وہ چند مہینوں کا تھا۔اس میں بتایا گیا کہ یہ شیر روزانہ چار مرغیاں کھاتاہے۔
تیونس جہاں یورپین ممالک کا اہم اتحادی تصور کیا جاتا تھا وہاںبی بی سی نے تیونس کو خطے کا ایک اہم کھلاڑی قرار دیا ہے۔بی بی سی کی ایک رپورٹ کی مطابق شمالی افریقہ کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے جمہوریہ تیونس کو صدیوں سے استعمال ہوتے آ رہے اہم بحری راستوں کی قربت کا اعزاز حاصل ہے۔اپنے اپنے وقتوں میں رومی، عرب، عثمانی ترک اور فرانسیسی حکمران اس کی سٹریٹیجک اہمیت کے پیش نظر ہی خطے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے اس پر قبضہ کرتے رہے ہیں۔جمہوریہ تیونس پر فرانس کا نوآبادیاتی راج 1956ع میں ختم ہوا جس کے بعد حبیب بورقیبا نے تیس سالوں تک حکمرانی کی۔مصدقہ اطلاعات کے مطابق تیونس کا پہلا صدر حبیب بورقیبہ تحریکِ ِپاکستان کے دوران کراچی میں ایک مدت تک جلا وطنی کی زندگی گزارتا رہا تھا۔حبیب بورقیبہ تیونس کی تحریکِ آزادی کا اولین لیڈر تھا۔اس رہنما کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ پاکستان کو اپنا گھر سمجھتا تھا اورکراچی میں بلاناغہ ایک درزی کی دکان پر محفل جمایا کرتا تھا اور اس وقت کے حالات و واقعات پر بحث مباحثہ کےا کرتا تھا۔ان کے دور میں ملک میں سیکولر خیالات کو فروغ ملا جن میں خاص طور پر عورتوں کی ترقی اور حقوق پر توجہ دی گئی۔ ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگی اور لازمی مفت تعلیم جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اسی لیے عرب دنیا میں سب سے زیادہ تیونس میں خواتین کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔اگرچہ صدر زین العابدین کے دور میں تیونس میں صحافت کی آزادیوں کے کچھ قوانین متعارف کرائے گئے اور کئی سیاسی قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق تیونس کے حکام، حکومت کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے اور حکومت کے مخالفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرتے ہیں۔حبیب بورقیبا اپنے دور اقتدار میں اسلام مخالف بنیاد پرستانہ پالیسی پر زور دینے کے ساتھ ساتھ اپنے اختیارات کو بھی بڑھاتے رہے جس کے نتیجے میں وہ مطلق العنان حکمران بن بیٹھے تھے۔بالآخر1987ع میں اس بنیاد پر ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔اس کے بعد زین العابدین بن علی کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی اور وہ صدارت نشین ہوگئے۔انہوں نے بھی مذہبی شدت پسندوں کے خلاف سخت گیر پالیسی اپنائے رکھی لیکن انہیں ورثے میں جو ملک ملا تھا وہ آج کے جمہوریہ تیونس کے مقابلے میں معاشی طور پر مستحکم تھا۔اگرچہ ان کے دور میں تیونس میں صحافت کی آزادیوں کے کچھ قوانین متعارف کرائے گئے اور کئی سیاسی قیدیوں کو رہا بھی کیا گیا لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق جمہوریہ تیونس کے حکام، حکومت کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے اور حکومت کے مخالفین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو ہراساں کرتے ہیں۔جب زین العابدین بن علی کی پارٹی نے لگاتار تین انتخابات میں کامیابی حاصل کی، وہ بھی99.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ تو نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی اس پر افسوس کا اظہار کیا گیا۔پھر انہوں نے2004ع اور اس کے بعد 2009ع میں اپنے انتخابات میں حصہ لینے کا اہل بننے کے لیے آئین میں ترمیم بھی کی جس کی حزب اختلاف نے سخت مذمت کی۔اپنے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں جمہوریہ تیونس زیادہ خوشحال ملک ہے اور اس کے یورپی ملکوں کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات ہیں۔ ملک کی افرادی قوت کا بڑا حصہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے جہاں زیادہ تر بارانی علاقوں میں کھجوریں اور زیتون کی کاشت کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ہر سال لاکھوں یورپی شہری تیونس کے سیاحتی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ آج سے کچھ عرصے پہلے تک جمہوریہ تیونس میں سیاسی تشدد کے واقعات شاذو نادر ہی تھے لیکن حالیہ برسوں میں مسلح اسلامی شدت پسند حکومت کے لیے مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔2002ع میں تیونس میں یہودیوں کی ایک عبادت گاہ پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں21 لوگ مارے گئے تھے اور اس کے بعد ملک میں سیاحوں کی تعداد میں بڑی حد تک کمی واقع ہوگئی تھی۔2006-2007کے دوران سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں ایک درجن مشتبہ شدت پسند مارے گئے تھے۔تیونس کے وکلاءکا کہنا ہے کہ2003ع میں گرفتاری کے خصوصی اختیارات ملنے کے بعد حکام نے شدت پسند گروہوں سے تعلق کے شبہے میں سینکڑوں شہریوں کو گرفتار کیا ہے۔2010-2011 کے دوران بے روزگاری اور سیاسی آزادیوں پر پابندیوں کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے جس میں درجنوں لوگ مارے گئے ہیں لیکن عوامی مقبولیت کی وجہ سے سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ جاری رہا جس کے نتیجے میں بالآخر صدر زین العابدین کو ملک سے جان بچا کر بھاگنا پڑا ہے اور اب ان کی جگہ وزیر اعظم نے اقتدار سنبھالا ہوا ہے۔ محمودغنوشی نے حکومت سنبھالتے ہی ایک بیان دیا جس میں انھوں نے کہا کہ سابق صدر زین العابدین بن علی عارضی طور پر اپنے فرائض سے سبکدوش ہوئے ہیںجب کہ عدالت ِعالیہ نے اس بیان کی نفی کرتے ہوئے اپنے تفصیلی بیان میں یہ کہا:
The Constitutional Court of Tunisia determined that Ben Ali was not "temporarily unable” to exercise his duties and that the presidency was in fact vacant. The arrangements he had made with the Prime Minister before leaving the country were found to be unconstitutional under article 57 of the constitution. The country’s constitutional court, the highest legal authority on constitutional matters, announced the transition on Saturday, saying Fouad Mebazaa (the Speaker of Parliament) had been appointed interim president.
Mebazaa took the oath in his office in parliament, swearing to respect the constitution in the presence of his senate counterpart Abdallal Kallel and representatives of both houses. It was also also announced that the speaker of parliament would occupy the post of president temporarily and elections would be held within a period of between 45 and 60 days.
تیو نس کے وزیراعظم نے نئی اتحادی حکومت کا اعلان کر دیا۔ صدر زین العابدین کے جانے کے بعد نئے وزیراعظم محمود غنوشی نے نئی اتحادی حکومت کا اعلان کیا ہے۔ جس میں تین پارٹی لیڈران کے علاوہ اپوزیشن کے رہنماوں اور سابقہ حکومت کے چھے وزراءکو حکومت میں شامل کیا گیا ہے جن میں وزارت داخلہ ،وزارت خزانہ اور وزارت دفاع کے وزیروں کو تبدیل نہیں کیا گیا ،اس کے علاوہ تمام کالعدم پارٹیوں کو تسلیم کرنے اور سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ نئی حکومت نے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
تیونس کے سابق صدر زین العابدین کے مستعفی اور سعودی عرب فرار ہونے کے بعد وہاں قائم ہونیوالی عبوری حکومت کو فوج کی حمایت بھی حاصل ہے۔سابق صدر کے استعفیٰ کے بعدقائم ہونیوالی عبوری حکومت کی جانب سے قومی حکومت بنانے کا اعلان آج متوقع ہے۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق تیونس کی فوج عبوری حکومت کا ساتھ دے رہی ہے۔فوج نے سابق صدر کے حامیوں اور حکومتی عہدے داروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کردئیے ہیں جبکہ صدارتی محل کا گھیراو¿ بھی کیااور زین العابدین کے سابق سکیورٹی چیف علی سیریاتی اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق ان افراد پر لوگوں کو اکسانے اور حکومت کیخلاف سازش کا الزام ہے جبکہ سابق وزیر داخلہ رفیق بلحاج قاسم کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔پرتشدد واقعات کے دوران سابق صدر زین العابدین کی اہلیہ کے بھتیجے عماد طرابلسی کو خنجر مار کر ہلاک کردیا گیا۔ رپورٹس کے مطابق تیونس کی فوج ملک میں امن و امان بحال کرنے کے لیے عبوری حکومت کے ساتھ ہے۔تیونس میں کرپشن اور بے روز گاری سے تنگ عوام کے احتجاج اور مظاہروں نے زین العابدین کو حکومت چھوڑنے ا ور ملک سے فرار ہونے پر مجبور کردیاتھا۔ سابق صدر زین العابدین ہفتے کے روزاپنے چھے افراد پر مشتمل اہلِ خانہ کے ہمراہ جدہ ائیرپورٹ پراترے اور سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔تازہ ترین اطلاعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے انھیں کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے اجازت نہیں دی۔
تقریبا بیالیس برس سے لیبیا پر حکمرانی کرنے والے رہ نما معمر قذافی نے پڑوسی ملک تیونس میں ہنگاموں کا ذمے دار وکی لیکس کے انکشافات کو قرار دیا ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق قذافی جو تیونس کے مفرو ر صدر زین العابدین کے قریبی ساتھی ہیں نے تیونس کی صورت حال پر خطاب کیا۔صدرقذافی نے کہا کہ زین العابدین کی حکومت ختم ہونے سے انہیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ احتجاج کرنے والے وکی لیس کی جانب سے زین العابدین ،ان کے گھروالوں اور حکومت کی جانب سے کرپشن کی کہانیاں جاری کرنے سے گمراہ ہو ئے۔قذافی نے الزام لگایا کہ امریکی سفیروں نے یہ مراسلے تیونس میں افرا تفری پھیلانے کے لیے لکھے۔گارڈین کے مطابق تیونس کی صورت حال سے عرب ملکوں کے وہ رہنما پریشان ہیں جو کئی دہائیوں سے حکومت کر رہے ہیں۔اخبار نے مشرق وسطیٰ کے لیے اپنے ایک نمائندے کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے کہ قذافی نے یہ تقریر ایسے وقت کی جب لیبیا کے شہر بیضا میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔شہریوں نے سرکاری عمارتوں پر حملے بھی کیے۔
تیونس کی طرح رفتہ رفتہ ایسے واقعات مصر میں بھی رونما ہورہے ہیں۔پچھلے 30سے50سال کے دوران مصر میں بھی ایسی ہی حکومت قائم ہے اور عوام کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے ہے،تیونس کے چنبیلی انقلاب کے دوران ہی مصر کے ایک گرایجویٹ نوجوان نے مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت سے تنگ آکر خود کو پارلیمنٹ کے سامنے جلا لیا۔اب عوامی احتجاج خطے کے دوسرے ممالک میں بھی پھیل رہا ہے۔اسی طرح جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم کے ابتدائی نتائج سے لگتا ہے کہ وہاں لوگوں نے شمال سے الگ ہو کر ایک نیا ملک بنانے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ ریفرنڈم کے مکمل نتائج اگلے ماہ تک حاصل ہونگے لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ خطے میں شمال سے علیحدگی کے حق میں بڑی تعداد میں لوگوں نے ووٹ ڈالے ہیں یورپ میں رہنے والے جنوبی سوڈان کے لوگوں میں سے 97فیصد نے ایک علیحدہ ملک کے حق میں ووٹ ڈالے ہیں۔21 سالہ خانہ جنگی 2005ع میں امن معاہدے کے بعد بند ہوئی تھی اس امن معاہدے میں شامل شق کے تحت ریفرنڈم کرایا گیا ہے اس ریفرنڈم میں ووٹنگ کے اختتام پر جنوبی سوڈان کے عیسائی رہنما بشپ پال نے بگل بجایا ان کے مطابق یہ بگل مسلمان اکثریت کے شمالی سوڈان کی حکمرانی کے اختتام کا پیغام ہے۔اسی طرح اٹلی کے وزیرِاعظم کو کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے کی بدولت پارلیمان نےوزیرِاعظم کے استثنیٰ کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے انھیں برطرف کردیا اور عدالتی کمیشن کا سامنا کرنے کا عندیہ دیاہے۔
تیونس کے عوام نے اقوامِ عالم کے کرپٹ حکمرانوں سے چھٹکارے کے لیے نئی روایت کا اجراءکیا ہے۔تیونس کا چنبیلی انقلاب اور اکیسویں صدی کا پہلا انقلاب اس بات کی طرف نشاندہی ہے کہ اگر کرپٹ حکمران خود کو نہ بدلیں گے ۔اپنی روش پر بدستور قائم رہیں گے تو عوام سب کچھ خس و خاشاک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔جب کہ امریکا،فرانس اور دوسرے اتحادی ممالک نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ یورپی ممالک کسی کے اتحادی دوست نہیں بلکہ مفادی دوست ہیں۔
اب وقت آگیا ہے کہ عوام اپنے حقوق کا جائزہ لیں اور مقتدر طبقہ جمہور اور جمہوریت کو پنپنے کے لیے اپنی آسائشوں کا محاسبہ کرتے ہوئے عوام کوتحفظ،روزگار،تعلیم،صحت اور دوسری معیاری سہولیات مہیا کریں۔وطن کی ناموس اسی میں ہے ورنہ انقلاب آخری قدم ہوتا ہے۔
….٭٭٭….