URDUSKY || NETWORK

۔۔۔تقد یرِ امم ۔۔۔

121

۔۔۔تقد یرِ امم ۔۔۔

تحریر: طارق حسین بٹ (چیر مین پاکستان پیپلز ادبی فورم)
پاکستانی میڈیا کا کمال یہ ہے کہ یہ جس مسئلے کو ہوا دینا چا ہتا ہے اسکا ریکارڈ اتنی بلند آواز میں بجا نا شرع کر دیاتا ہے کہ کان پڑی آواز سنا ئی نہیں دیتی ایسے محسوس ہو تا ہے کہ اس کرہِ ارض کا سب سے اہم ،نازک اور بڑا مسئلہ وہی ہے جسکا ڈھنڈ ورا میڈیا پیٹ رہا ہے اور اگر اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب فوری پیشقدمی نہ کی گئی تو شائد آسمان دھرتی پر گر جا ئےگا اور پو را نظام چو پٹ ہو جا ئے گا۔آپ اخبا را ت و رسا ئل اٹھا کر دیکھ لیجئے میڈیا کی لگا ئی ہو ئی آگ کی چنگا ریاں آپکو ہر سو سلگتی ہو ئی نظر آئینگی۔کسی بھی ٹی وی چینل کو آن کر کے دیکھ لیجئے آپکو ا یک ہی تان سنا ئی دےگی جسے سن سن کر عوام کے کان پک گئے ہیں وہ بیزار ہو گئے ہیں لیکن میڈیا ہے کہ اپنا بے سرا راگ الا پنے سے باز نہیں آرہا۔ پچھلے دنو ںمیڈیا کی ساری تنقیدی تو پو ں کا رخ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی جانب تھا ۔آصف علی زرداری پر تنقید کر نے میں میڈیا نے بڑی فیا ضی اور فراخ دلی کا مظا ہر ہ کیا جس میں تا حال کو ئی کمی وا قع نہیں ہو ئی لیکن بر طا نیہ کے دور ے نے تو جیسے میڈیا کے خرمن میں آگ لگا دی۔ اس دور ے نے انھیں با لکل خواس با ختہ کر دیا کبھی وہ ملک میں سیلابی صورتِ حال کو اور کبھی وزیرِ اعظم بر طانیہ کے بیان کو بنیاد بنا کر آصف علی زرداری کے خلاف ہر زہ سرائی کرتے رہے لیکن بات بنتی ہو ئی نظر نہ آ ئی کیو نکہ انکے لگا ئے ہو ئے الزا مات میں کو ئی دم خم نہیں در اصل یہ میڈیا کی ذا تی عداوت، پر خاش اور جنگ ہے جسے وہ مختلف نا موں سے منسوب کر کے ز رداری صاحب کی کردار کشی سے اپنی انا کی تسکین کر تے ہیں لیکن انھیں اس میں کامیابی نہیں ملتی کیو نکہ انکی بنیاد بد نیتی پر ہے۔
دراصل میڈ یا یہ تا ثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر آصف علی زرداری ملک میں مو جود ہا تے تو نہ علاقے زیرِ آب آتے ، نہ پل ٹو ٹتے نہ بیراج بیٹھتے نہ نہرو ں میں شگاف پڑتے اور نہ لا کھو ں لوگ بے گھر ہو تے آصف علی زرداری کی ملک میں مو جو دگی سے سیلاب رک جا تا ، عذاب ٹل جا تا ور ہر سو امن اور سکون کی کیفیت نظر آتی۔پرا نے وقتو ں میں کسی دو شیزہ کی قربا نی سے آفتیں ٹل جا یا کرتی تھیں لیکن سا ئنسی تر قی کے بعدمحیر العقول واقعات سے بلا ﺅ ں کو ٹا لنا قصہِ پارینہ بن چکا ہے۔اگر یہ سچ ہے کہ کسی کی درخواست اور دعا ؤں سے بلا ئیں ٹلنے وا لی نہیں تو پھر آصف علی زرداری کی ذات بھی تبا ہ کن سیلابی کیفیت کو بدلنے میں کو ئی کردار نہیں ر کھتی لہذا انکی ملک سے غیر حا ضری پر میڈیا کا شور شرا بہ اور وا ویلا سمجھ سے با لا تر ہے۔ وزیرِ اعظم پاکستان ،وزرا ئے اعلی اور انتظا میہ عوام کو سیلابی مشکلات سے نجا ت دلانے کےلئے عوام کے شانہ بشانہ کھڑ ی ہے لہذازرداری صا حب پر انکی غیر حا ضر ی کی بنا پر تنقید کے تیر برسا نا با لکل غیر اخلا قی تھا عالمی را ئے عا مہ کو ہموار کر نے اور دوستوں کو اعتماد میں لینے کیلئے زرداری صا حب کا غیر ملکی دورہ پہلے سے طے تھا لہذا یہ ضروری تھا۔ انکے روس کے حالیہ دورے پر تو کسی نے کو ئی تنقید نہیں کی حا لا نکہ سیلابی صورتِ حال تو پہلے سے بھی بد تر ہے لہذا ثا بت ہوا کہ میڈیا کی تنقید ملکی مفاد کی وجہ سے نہیںبلکہ ذا تی مفاد کی وجہ سے تھی۔
یا د رکھئے قو میں کسی فردِ وا حد کی ذات کی نہ تو اسیر ہو تی ہیں نہ محتاج ہو تی ہیں اور نہ ہی مر ہو نِ منت۔ قومیں اپنے اعمال کی اسیر ہو تی ہیں ا پنے کردار کی باز گشت ہو تی ہیں اپنے جذبو ں سے تشکیل پا تی ہیں اور اپنے ارادو ں سے ترقی کر تی ہیں مقصد کی حقا نیت اور حصولِ منز ل کا عشق ہی انکے وجود اور بقا کا ضا من ہو تا ہے۔ یہ صداقت ، شجا عت عدالت اور بسا لت سے جلا پا تیں اور ایما نداری اور ایثار کی سان سے چمک اور تیزی حا صل کرتی ہیں اور جو قوم بھی ان او صافِ حمید ہ کی حا مل ہو تی ہے اسکی کاٹ اور وار کو د نیا کی کو ئی بھی قوم سہہ نہیں سکتی اور یو ں وہ قوم امامتِ دنیا کے عظیم منصب سے سرفراز ہو جاتی ہے۔ یاد رکھئے کہ قومو ں کی صفوں میں اعلی ارفع اور ممتاز مقام حا صل کرنے کیلئے مسلم اور غیر مسلم کی کو ئی تفریق نہیں ہو تی۔ سوال ان اقدار کا ہے جو قو مو ں کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں لہذا جو قوم بھی مستقل اقدار کی علمبردار ہو گی دنیا کی سرداری بھی اسی کا مقدر ہو گی جب مسلمان ان اقدار کے محا فظ تھے تو دنیا انکے قدمو ں میں ڈھیر تھی لیکن جب ان اصو لو ں کو مسلمانوں نے طاقِ نسیاں کر دیا اور دو سری اقوم نے ان اصو لو ں کو اپنی زندگی کا جزوِ لا ینفک بنا لیا تو دیکھتے ہی دیکھتے ان اقوام کی دھاک پو ری دنیا پر بیٹھ گئی اور وہ جو کل تک ا پنے اقتدار اور عروج کے زعم میں تھے انکے قدمو ں میں ڈ ھیر ہو گئے۔ یہی قا نونِ بقا ہے قا نونِ استخلاف ہے لہذا جو قوم بھی اس معیار پر پو را اترتی ہے خوشحال، مضبوط، نڈر ااور طاقتور قوم بن کر انھرتی ہے اور جو قوم اس معیار پر پورا نہیں اترتی وہ محکوم ہو کر حرفِ غلط کی طرح مٹ جا یا کرتی ہیں۔ تاریخ اس انمٹ صداقت کی گواہ ہے۔
آ تجھ کو بتا تا ہو ں تقدیر ِ امم کیا ہے۔۔ شمشیر و سناں اول طاﺅ س و رباب آخر (اقبال)
سیاستدان کسی بھی ملک کی ترقی اور اسکی خوشحا لی کے ذمہ دار ہو تے ہیں۔ڈا ئیلاگ اور مذا کرات سیاستدان کا سب سے قوی ہتھیار ہو تا ہے لہذا وہ ڈا ئیلاگ کا دامن کبھی نہیں چھو ڑتا سیا ست میں کو ئی چیز حرفِ آخر نہیں ہو تی اسی لئے مذا کرات کے دروا زے ہمیشہ کھلے رکھے جا تے ہیں ۔ کل کے دشمن آج کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن سیا ست کا بنیا دی فلسفہ ہے لہذا اس فلسفے کی رو سے قومیں اقوامِ عا لم میں اپنے با ہمی تعلقات اور روابط کو کبھی ٹو ٹنے نہیں دیتیں۔کسی ایک بیان کو بنیاد بنا کر قطع تعلق کر لینا سیا ست کے بنیا دفی فلسفے کے خلاف ہے لہذ ا با شعور قومیں جذبا تیت کی بنیاد پر دوستی کو دشمنی میں نہیں بدلا کر تیں بلکہ اپنی بات کی سچا ئی کو پو ری قوت اور شدت سے دوسرو ں کے سامنے پیش کرتی ہیں تا کہ غلط فہمیو ں کو دور کیا جائے اور سچا ئی کے وہ گو شے جو ا بھی تک سا منے نہیں آئے ہو تے انھیں دلیل و بر ھا ن کی قوت سے پیش کیا جا ئے تا کہ دوسرو ں کی را ئے کو اپنے حق میں بدلا جا سکے دلائل کی قوت، تقریر کا فن ا ور موقف کی سچا ئی ہی سیا ستدان کی وہ قوت ہو تی ہے جس سے وہ عوام میں شعور بیدار کرتا اور اس شعور سے نیا سماج تشکیل دیتا ہے۔ لوگ اسکی سچائی پر یقین کرتے ہیں، اسکی جدو جہد میں اسکے ساتھ شا مل ہو جا تے ہیں اور ایک نئے انقلاب کی بنیا دیں رکھتے ہیں تاریخِ انسانی انسا نو ں کی اسی جدو جہد کی دل آویز اوررنگین داستان ہے
پاکستان ایک جمہو ری ملک ہے لہذا پاکستان کسی ملک کے ساتھ مذا کرات کے دروا زے بند نہیں کر سکتا پا کستان نے تو اپنے روا ئتی حریف بھا رت کے ساتھ بھی دا ئیلاگ اور مذا کرات کے دروا زے بند نہیں کئے بھا رت ایک ایسا ملک ہے جس نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا اور اسے دو لخت کرنے میں بنیا دی کردار ادا کیا لیکن بھا رت کے ساتھ ہمارا سفا رتی اور مذا کراتی رابط کبھی منقطع نہیں ہواافغا نستان کے صدر حا مد کر زا ئی کی بھڑکو ں ،دشنام طرا ز یو ں اور الزا مات سے کون واقف نہیں ہے وہ ہر دوسرے دن پاکستان کے خلاف کو ئی نہ کو ئی نیا الزام نکال لیتے ہیں لیکن حا مد کر زا ئی کی ان بھڑ کو ں اور الزا مات کے با وجو د پاکستانی حکمرا نو ں نے افغا نستان جا نے اور ان سے مذا کرات کرنے پر کبھی بھی پس و پیش نہیں کیا میڈیا نے کبھی بھی حا مد کر زا ئی کے بیا نات کو بنیاد بنا کر کبھی بھی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی پاکستانی قیا دت کو افغا نستان سے قطع تعلق کرنے کا مشورہ دیا ہے ۔ امریکی انتظا میہ نے حال ہی میں جو خفیہ دستا ویز ریلیز کی ہیں ان میںبھی پاکستان کے کردار پر انگلی اٹھا ئی گی ہے لیکن پاکستان کے بھر پور دفا ع نے امریکہ کو دفا عی پو زیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ چین اور بھارت۲۶۹۱ کی جنگ کے با وجود ایک دو سرے سے مذا کرات بھی کرتے ہیں تجارت بھی کرتے ہیں ثقا فتی طا ئفوں کا تبا دلہ بھی کرتے ہیں حا لا نکہ انکی با ہمی آویزش سے پو ری دنیا آگا ہ ہے لیکن اسکے با و جود بھی وہ قطعِ تعلق کی حدود میں دا خل نہیں ہو ئے کیو نکہ آ ج کے گلوبل ویلج میں کو ئی قوم دوسرو ں سے کٹ کر زندہ نہیں ر ہ سکتی۔بر طا نوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ایک بیان پر میڈیا نے ایسا طوفا ن کھڑا کیا ہے جو کسی بھی حال میں پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ بر طانیہ دنیا کی ایک بڑی طاقت ہے لہذا دشمنو ں کے جھرمٹ میں ہمیں مز ید دشمن نہیں بلکہ دوستوں کی ضرورت ہے جو با ئیکاٹ سے نہیں بلکہ با ہمی گفت و شنید سے بنیں گے لہذا میڈیا کا یہ موقف کہ صدرِ پاکستان کو بر طا نیہ کا دورہ منسوخ کر دینا چا ئیے تھا تعصب پر مبنی تھا اور قومی مفاد کے منافی تھا لہذا اسے رد کرنا ضروری تھا۔