URDUSKY || NETWORK

گیلانی متحدہ کو منانے میں کامیاب

231

عثمان حسن زئی
[email protected]
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اپنے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے زندگی میں پہلی بار نائن زیرو آنے پر مجبور ہوئے۔ وہ حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرکے قومی سیاست میں زبردست ہلچل مچانے والی ایم کیو ایم کو منانے میں کامیاب رہے۔ جمعہ کو وزیراعظم، وفاقی وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کے ہمراہ متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز گئے جہاں ان کا پر جوش استقبال کیا گیا۔ اس دوران گیلانی نے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی سے ڈیڑھ گھنٹے تک ملاقات کی۔ وزیر اعظم نے متحدہ کے قائد الطاف حسین سے فون پر بات چیت کی اور انہیں یقین دلایا کہ ایم کیو ایم کو ساتھ لے کرچلیں گے اس لیے وہ دوبارہ حکومتی اتحاد میں واپس آئے متحدہ نے پارلیمنٹ میں حکومتی بینچوں پر واپسی اعلان کرتے ہوئے وفاقی کابینہ میں شمولیت سے ”فی الحال“ معذرت کرلی۔
متحدہ کے فیصلے سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ بہت جلد ان کے وزرا وفاقی کابینہ میں اپنی اپنی وزارتوں کے چارج سنبھال لیں گے۔ ایم کیو ایم کے رہنما رضا ہارون نے کہا کہ ملک و قوم اور جمہوریت کی خاطر حکومتی بنچوں پر بیٹھنے کا اعلان کرتے ہیں اور حکومت کے مثبت اقدام کی بھر پور حمایت کریں گے۔ ن لیگی سینیٹر پرویز رشید نے اپنے رد عمل میں کہا کہ متحدہ کی سیاسی تاریخ رہی ہے کہ وہ حکومت سے باہر نہیں رہ سکتی جبکہ جعلی ووٹ کاسٹ کرنے والوں سے بات چیت نہ کرنے کا اعلان کرنے والے ذوالفقار مرزا کہہ رہے ہیں کہ متحدہ قومی موومنٹ سے ان کا کوئی جھگڑا نہیں ہے اور آیندہ سب کچھ کراچی والوں کی مرضی کے مطابق ہوگا۔
ایم کیو ایم کی حکومتی اتحاد میں واپسی کے بعد حکومت کو ایوان میں کھوئی ہوئی اکثریت دوبارہ مل گئی یوں حکومتی ارکان کی تعداد 185 تک پہنچ گئی ہے جس کا مطلب ہے فوری طور پر حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کا خطرہ نہیں۔ پی پی حکومت نے متحدہ کی علیحدگی کے اعلان کو سنجیدگی سے لیا، حکومت دباﺅ میں آگئی، تاہم موجودہ صورتحال میں حکومت کو وقتی طور پر اکثریت ضرور مل گئی ہے مگر خطرات ٹلے نہیں ہیں۔ البتہ حکومت کے مستحکم پوزیشن میں آجانے کے بعد غیر یقینی صورتحال میں کچھ کمی ضرور آئی ہے۔ اگرچہ متحدہ قومی موومنٹ کے اپوزیشن بنچوں پر بیٹھنے کے اعلان کے بعد اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 180 تک جاپہنچی تھی مگر ان کی غالب اکثریت ایک دوسرے کی مخالفت پر کمر بستہ تھی، اور ان کے متحد ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں تھا۔ اپوزیشن جماعتوں میں دوریوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے حکومتی بینچوں سے اٹھ کر آنے والے جے یو آئی اور متحدہ کے ارکان کا رسمی طور پر بھی خیر مقدم کرنا گوارا نہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ حکمران اتحاد نے منتشر اپوزیشن کا بھی خوب فائدہ اٹھایا اور اسے اپنی حکومت گرنے سے بچانے میں وقتی طور پر کامیابی ہوئی۔ اگر اس سارے منظر نامے کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ شریف برادران جمہوریت کی بقا کے نام درپردہ حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں کیونکہ موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کی ترجیح مڈٹرم الیکشن یا تحریک عدم اعتماد ہر گز نہیں۔ اسی باعث میاں نواز شریف نے جے یو آئی، متحدہ قومی موومنٹ یا مسلم لیگ (ق) سے اتحاد کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ نواز لیگ کے اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی کو مزید مہلت دینا چاہتی ہے تاکہ حکومت موجودہ چیلنجوں اوربحرانوں سے نمٹنے میں مزید وقت صرف کرے اور اتنی بدنام ہوجائے کہ آیندہ انتخابات میں اپنے ووٹروں کا سامنا نہ کرسکے۔ بعض مبصرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ نواز شریف نے اپنے پتوں کو مہارت سے استعمال کیا اور متحدہ قومی موومنٹ کو حکومت کی جانب دھکیلنے میں کامیاب رہے۔ یہی نواز لیگ کا منشا و مدعا تھا۔ چونکہ جے یو آئی اور متحدہ کی حکمران اتحاد سے علیحدگی کے بعد بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی اگر اس دوران نواز شریف حکومت کا ساتھ دیتے تو پیپلزپارٹی کی عوام دشمن اور ناکام پالیسیوں میں شریک تصور کیے جاتے، یوں انہیں آیندہ ملنے والے اقتدار سے محروم ہونا پڑتا۔ دوسری طرف اگر نواز لیگ حکومت کا ساتھ نہ دیتی تو پھر اس پر ”جمہوریت“ کا بستر گول کرنے کا الزام لگتا اور موجودہ حالات میں نواز لیگ کو اتنی مختصر مدت کے لیے اقتدار میں آنے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسی لیے نواز شریف نے درمیانی راہ نکالتے ہوئے حکومت کی مشکلات کم کرنے میں بالواسطہ طور پر گیلانی اینڈ کمپنی کا ساتھ دیا۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوں مسلم لیگ (ن) کے چودھری نثار نے بیان دیا تھا کہ ہم گرتی حکومت کا سہارا نہیں بنیں گے اور حکومت کو عدم استحکام کا شکار بھی نہیں کریں گے۔ بہر کیف ہر جماعت سیاسی پوائنٹ اسکو رنگ میں لگی ہوئی ہے۔ ہمارے سیاست دان جمہوریت کے نام پر عوام کو استعمال کررہے ہیں ان کے نام پر اپنی سیاست کی دکان چمکائی جارہی ہے مگر کوئی بھی ملک و قوم کے ساتھ مخلص معلوم نہیں ہوتا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ گیلانی کی حکومت ”کچھ لو اور کچھ دو“ کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی جس کی وجہ سے انہیں بھاری بھر کم کابینہ میں تمام اتحادیوں کو شامل کرنا پڑا۔ ان کے اخراجات اور مطالبات کا سارا بوجھ ملک کے غریب عوام شدید مہنگائی اور بے روزگاری کی صورت میں تین سال سے اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر یہ لوگ قوم سے مخلص ہوتے تو کم سے کم اپنے شاہانہ اخراجات اور جہازی سائز کابینہ میں ہی کمی کرنے پر راضی ہوجاتے۔ متحدہ قومی موومنٹ گزشتہ 10سالوں سے حکومت میں شامل ہے اس سے قبل بھی مہنگائی میں اضافہ ہوتا رہا ہے قومی مفاد کے نام پر وہ پہلے کیوں حکومت سے علیحدہ نہیں ہوئی اور کیا مہنگائی ایک دن میں ہی اتنی زیادہ بڑھی جو انہیں حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرنا پڑا۔ خدارا! اب تو روایتی اور بلیک میلنگ کی سیاست بند کریں ایم کیو ایم نے اتنی مدت سے حکومت میں شامل ہے، سندھ کابینہ میں وزراءکے علاوہ گورنر اسی جماعت کا ہے تو پھر انہوں نے شہریوں کو کچھ اور نہیں تو کم سے کم امن و امان ہی دیا ہوتا کیا حکمرانوں کا سب سے پہلا فرض شہریوں کے جان و مال کا تحفظ نہیں؟ اگر متحدہ قومی موومنٹ حکومت سے علیحدگی میں سنجیدہ ہوتی تو وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی کابینہ سے بھی الگ ہوجاتی اور گورنری بھی چھوڑ دیتی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اتحادیوں کی بیساکھیوں پر چلنے والی حکومت آکسیجن کے ذریعے کب تک برقرار رہتی ہے؟