پھر پاکستان کا دفاع کیسے کیا جائے ؟
تحریر محمد اسلم لودھی
پاک فضائیہ کے ائیر چیف مارشل نے کہا ہے کہ اگر انہیں حکم دیا جائے تو پاک فضائیہ ڈارون گرا سکتی ہے۔ پاکستانی قوم چاہتی بھی یہی ہے لیکن ایبٹ آبادمیں کامیاب امریکی آپریشنز کے بعد ڈارون گرانا مسئلہ نہیں رہا بلکہ پاکستان کے دفاع کے حوالے سے جو کمزوریاں سامنے آرہی ہیں ان کا تدارک کیسے کیاجاسکتا ہے ۔ دفاعی ماہرین کے مطابق اگر ہم ڈارون گر بھی لیتے ہیں تو امریکی جدید جنگی طیاروں اور ٹام ہاک کروز میزائلوں سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے اگرچہ یہ سب درست ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے یا ان امریکی جارحانہ کاروائیوں کے مقابلے کے لیے کوئی حکمت عمل وضع کی جائے ۔ مثل مشہور ہے کہ اونٹ جب خیمے میں داخل ہوتا ہے تو خیمہ ہی اٹھا دیتا ہے یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے پرویز مشرف ہوں یا موجودہ حکمران کسی نے بھی امریکی خوشنودی اور ڈالروں کے لالچ میں یہ نہیں سوچا کہ ہزاروں کی تعداد میں امریکی جاسوسوں اور ملٹری انٹیلی جنس کے لوگوں کو ویزوں کی شرائط میں نرمی پیدا کرکے پاکستان میں آنے کی اجازت نہ دی جائے وہ امریکی پاکستان پہنچ کر نہ صرف امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے سرگرم ہوگئے بلکہ پاکستان کے حساس ترین اداروں اثاثوں کی جاسوسی اور معاشرے میں فرقہ واریت کا زہر گھولنے کے لیے بھی ان کی نقل و حرکت عروج پر رہی اور کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا ۔شاید اسی وجہ سے گزشتہ دنوں سی آئی اے نے آئی ایس آئی کو کھلے لفظوں میں یہ کہہ دیا تھا کہ اس نے قبائلی علاقوں سمیت پاکستان بھر میں اپنا الگ تھلگ اور جدید ترین جاسوسی کا نیٹ ورک تیار کرلیا ہے یہ بات یقینی ہے کہ ڈارون حملے اور دہشت گردی کی دیگر کاروائیاں بھی اسی جاسوسی نیٹ ورک کا نتیجہ ہیں ۔اسلا م آباد میں موجود امریکی سفارت خانے کو امریکی چھاﺅنی کا درجہ دے کر ہزاروں امریکی میرینز اور سی آئی اے کے ایجنٹوں کو مستقل آباد کرنے کی منصوبہ بندی کا انکشاف تو بہت پہلے ہوچکا تھا حکمرانواں اور ذمہ دار اداروں کی غفلت کی بنا پر امریکی جاسوس اور ایجنٹ پاکستان کے عظیم ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پڑوس تک بھی پہنچ گئے تھے ۔سہالہ ریسٹ ہاوس بھی بہت عرصہ تک امریکی فوجی چھاﺅنی کا روپ دھارے رہا ۔اب جبکہ بات حد سے زیادہ بڑھ چکی ہے اور امریکہ دوست کی بجائے جانی دشمن بن کر پاکستان اور پاکستانیوں کا گلہ دبانے کے لیے بے چین ہوا جارہا ہے تو اس کو کس طرح روکا جائے ۔ پاکستان بھارت کا مقابلہ توکرسکتا ہے لیکن امریکہ کے مقابلے میں اس کے عسکری اور ٹیکنالوجی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ایران اگر آج تک امریکی حملے سے بچا رہا ہے تو اس کی وجہ وہ کامیاب حکمت عملی ہے جو اس نے امریکہ اور اسرائیل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنائی ہے ۔اس کے برعکس پاکستان جو میزائل ٹیکنالوجی اور ایٹمی میدان میں امریکہ سے کسی بھی طرح کمتر نہیں ہے صرف ہمت حوصلے اور موثر دفاعی حکمت عملی کی ضرورت ہے ۔ ڈالروں کو بھول کر ایک جانب گفت و شنید کے ذریعے امریکہ کو جارحیت کے ارتکاب سے ہر ممکن روکا جائے تو دوسری جانب افغانستان اور پاکستان کے جنوبی ساحلوں کے اطراف جدید ترین میزائلوں کی صورت میں ایک ایسا موثر اور جارحانہ دفاعی حصار قائم کیے جائیں ۔ جو امریکی میزائلوں اور جنگی طیاروں کو بروقت روکنے کا باعث بنیں ۔ پاک فضائیہ کوآخری معرکے تک محفوظ رکھا جائے کیونکہ گنتی کے جو چند ایف 16 طیارے پاکستان کے پاس موجود ہیں ان سے کہیں زیادہ جدید جنگی طیارے امریکہ کے پاس موجود ہیں ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اب پاکستان کے مدمقابل بھارت نہیں بلکہ امریکہ ہے جبکہ بھارت کی مکمل تائید و حمایت بھی اسے حاصل ہے اس وقت ملک ایک ایسے خطرناک دوراہے پر کھڑ ا ہے جہاں معاشی خودداری کے ساتھ ساتھ قومی خود مختاری بھی خطرے میں پڑ چکی ہے ۔ یہ سب کچھ ان نااہل پاکستانی حکمرانوں کے ایما پر ہوا ہے جو اٹھتے بیٹھتے یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے ۔کہ یہ جنگ امریکہ کی نہیں ہماری اپنی ہے لیکن امریکہ نے اخراجات کے 40 فیصد پاکستانی جنگی اخراجات کے بل مسترد کرکے پاکستانی حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے کہ اگر جنگ پاکستان کی ہے تو اس کا بل امریکہ کو کیوں دیاجارہا ہے اور وہ بھی غلط ۔امریکہ عالمی غنڈے کا روپ دھار چکا ہے وہ عراق میں 9 لاکھ مسلمانوں کو صرف ایک غلط اطلاع کا بہانہ بنا کر شہید کردے یا افغانستان میں 15لاکھ افغانی مسلمانوں کو یہ کہتے ہوئے صفحہ ہستی سے مٹا دے کہ امریکہ کو ان سے خطرہ ہے ۔ عالمی جنگی جرائم کی عدالت اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی لیکن روانڈا کے سابق آرمی چیف کو جنگی جرائم کی پاداش میں 30 سال قید کی سزا سنا کر امریکہ کے حوالے سے اپنی بے بسی اور بے حسی کا اظہار ضرور کردیا ہے کہ وہ امریکی جنگی جنون اور امریکی مفادات کی تکمیل کے لیے لڑی جانے والی فوجی جارحانہ کاروائیوں پر دانستہ توجہ مرکوز نہیں کررہی ۔ کیا اقوام متحدہ کے ماتحت عالمی جنگی جرائم کی عدالت کسی امریکی جرنیل کے خلاف مسلمانوں کی نسل کشی کے الزام میں مقدمے کی سماعت کرکے اسے سزا دے سکتی ہے وگر نہ ہر باشعور شخص یہی کہنے پر مجبور ہوگا کہ اقوام متحدہ ہو یا عالمی جنگی جرائم کی عدالت امریکی جنگی جرائم کی چشم پوشی کرتے ہوئے صرف مسلمان اور کمزور ملکوں کے خلاف ہی فیصلے دینے کی جرات رکھتی ہے امریکہ جیسے طاقتور ملک اس دنیا کو اپنے مفادات کی خاطر بے انصافی پر مبنی پالیسیوں اور غلط اطلاعات کی بنیاد پر جہنم زار بنا دیں انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو چین کے تعاون سے مستقل ایک ایسا دفاعی نظام وضع کرنا پڑے گا جو امریکہ اور بھارت دونوں کا بیک وقت مقابلہ کرسکے وگرنہ خود مختاری کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں سمیت تمام دفاعی تنصیبات امریکہ اور بھارت کے رحم و کرم پر رہیں گی۔