URDUSKY || NETWORK

پاکستان میں انقلاب نہیں آئے گا

121

تحریر : انوار ایوب راجہ  – برطانیہ

آخر مصر میں بھی انقلاب کے شعلے بلند ہو رہے ہیں . شرمل شیخ میں بیٹھے حسن مبارک کے لیے  آنے والے دن بڑے سخت ہونگے . دیکھا میں ناں کہتا تھا ایک دن تمام اسلامی ریاستوں میں انقلاب آئے گا اور پاکستان میں بھی اس کا آغاز ہوگا ! عوام کا استحصال بہت ہو گیا ہے اب عوام کو سڑکوں پہ آنا ہو گاurdusky .

چا چا دین محمد جسے لوگ چا چا دینو کے نام سے جانتے تھے علی احمد کی یہ بات سن کر ہنسا. اس کے ساتھ گاؤں کے کچھ اور بزرگ بھی بیٹھے تھے جو علی احمد کی زبانی اخبار کی سرخیاں سن رہے تھے اور علی احمد کے اس تبصرے پہ مسکراتے چا چا دینو کی طرف دیکھتے ہونے سب نے پوچھا کہ  کیا بات ہے دینو اس بچے کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے تم اس کا مذاق اڑا رہے ہو ؟

چا چا دین محمد کچھ نہ بولا. اس نے اپنی عینک اتاری اور سر پہ بندھی چادر کے ایک کونے سے اسے صاف کیا اور پھر مسکرانے لگا. ساتھ والی چارپائی پہ بیٹھے چا چا دین محمد کے دوست وزیر خان نے دین محمد سے پوچھا ” یار دین ! آج تم بڑے خوش لگ رہے ہو ، پورا پاکستان کسی انقلاب کا منتظر ہے اور تمہیں اس بچے کی بات پر ہنسی آ رہی ہے ".

دین محمد بولا! نہیں یار وزیر مجھے اس بچے پر نہیں پاکستانی عوام پر  ہنسی آ رہی ہے اور مجھے اس قوم کے مستقبل کی جو تصویر محسوس ہو رہی ہے اس پہ  میری ہنسی نکل گئی. تمہیں یاد ہے کیسے ہم سب نے یہ ملک آزاد کروایا تھا ؟تمہیں وہ کیمپ یاد ہیں ناں جہاں ہم پاکستان کے مہمانوں کو راتوں کو کھانا دینے جاتے تھے اور ہر کوئی یہ کہہ  کر انکار کر دیتا تھا کہ میرے بھائی نے ابھی تک نہیں کھایا. تمہیں وہ بہنیں یاد ہیں ناں جنہوں نے اپنی عصمت پاکستان کے عشق میں پاکستان پہ نچھاورکی تھی "

وزیر خان نے کہا ہاں مجھے سب یاد ہے اور آج الحمدوللہ ہمارے پاس ہمارا پیارا پاکستان ہے ، اس کے پانچ دریا ہیں اور اسکی آزادی ہے.”

دین محمد نے وزیر خان کو ٹوکا اور بولا ” کون سی آزادی؟ یہ آزادی ہے جس میں لٹیرے حکمران ہیں . جہاں صدر اور وزیر اعظم ہی نہیں ساری کی ساری کابینہ گستاخوں اور بیشتر سزا یافتہ مجرموں کا ٹولہ ہے ، یہ کہاں کی آزادی ہے کہ جہاں ہمارے ملک میں دوسرے ملک کی فوج قابض ہے ؟”

وزیر خان نے اس بار دین محمد کی سمجھاتے ہوے مزید زور دے کر کہا ” یہ سب ٹھیک ہے مگر ہمارے وزیر اعظم آل رسول سے ہیں ان کے متعلق کچھ نہ کہو، اور ہمارا صدر بیچارہ مجبور ہے ، اگر وہ بیرونی طاقتوں کی مدد نہیں کرے گا تو پاکستان کے دشمن اسے نقصان پہنچائیں گے . اور پھر پاکستان پہ قرضہ بھی تو بہت ہے ناں”.

دین محمد پھر ہنسا اس نے علی احمد کو پاس بلوایا اور کہا کہ جاؤ اپنے دوستوں کو کہو دین محمد بلوا رہا ہے مجھے تم سب سے ایک پات کرنی ہے . جب تک علی احمد اپنے ساتھیوں کو بلوا کے لاتا یہاں بیٹھے بزرگ مصر کی صورتحال پر تبصرہ کر رہے تھے اور علی احمد یہی سوچ رہا تھا کہ آخر کیا بات ہے جو دینو چا چا اسے اور اسکے ساتھیوں کو بتانا چاہتا ہے . ان نوجوانوں نے بچپن میں دین محمد سے بڑی طویل کہانیاں سنی تھیں اور پھر جب وہ لوگ سکول جاتے تو چا چا دینو سے دعا کرواتے کہ انکے نتیجے اچھے آئیں .

علی احمد  اور اسکے دوست جب آگئے تو انہوں نے دین محمد اور وزیر خان کے پاس لگی چارپایوں پہ بیٹھتے ہی دین محمد سے پوچھا کہ کیوں اس نے ان کو بلوایا ہے . دین محمد نے وزیر خان کو مخاطب کرتے ہوے کہا ” ہاں! وزیر تم نے کیا کہا تھا کہ ہمارے وزیر اعظم آل رسول سے ہیں اور صدر مجبور!”

وزیر خان نے کہاں یہ سچ ہے ہم آل رسول کے خلاف کچھ نہیں کہہ  سکتے گناہ ہوتا ہے ، وہ سید زادے ہیں ، نبی کے خاندان سے ہیں . دین محمد نے رسول عربی کا نام لیتے ہوے اپنےہاتھوں  کو چوما  اور پھر انھیں آنکھوں پہ لگاتے ہوے بولا ” خدا کی قسم اگر یہ آل رسول ہیں تو میں پہلا عاشق رسول ہوں جو یہ کہتا ہوں کہ وزیر اعظم کو خود کٹہرے میں کھڑے ہو کہ اپنی شخصیت پہ لگے الزامات کا جواب دینا چاہیے اور اگر وہ ایسے نہیں کرتے تو پھر مجھے افسوس ہے کہ وہ اسی چور کی مانند ہیں جو پہلے مسجد میں نماز پڑھتا ہے اور پھر اسی مسجد کی جوتیاں چرا کر لے جاتا ہے ". دین محمد کی بات سن کے تمام نوجوان ہنس دیے. دین محمد نے غصے میں انھیں خاموش کروایا اور بولا یہ ہنسنے  کا نہیں فکر کا لمحہ ہے . اگر یہ آل رسول کی عزت اور ناموس کی بات ہے تو میں اور میری نسلیں سرکار کے خاندان پر قربان مگر یہ کس قسم کی آل ہے جو دن رات امت رسول کا استحصال کر رہی ہے . کیا کہیں یہ درج ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اس لیے معاف کر دیے جائیں گے کیونکہ وہ آل رسول سے ہیں اور انکی کوئی ذمہ داری نہیں ہے . نہیں ایسا نہیں ہو گا  !

میرے بچو ” ایسا ہر گز نہیں ہے ، ہمارے نبی رحمتوں اور برکتوں والے تھے، صادق اور امین تھے، صابر اور عظیم تھے . اس دور میں جب ظلم انتہا پہ تھا تو ظالم بھی ہمارے نبی کی عظمت کی قسمیں کھاتے تھے ، ہمارے نبی کے انصاف اور سچ نے ظالموں کو ولی بنایا جبکہ یہاں کیا ہو رہا ہے ؟. آل رسول ہونے کا شرف رکھنے والے خود ہی ظلم کی مثال بن رہے ہیں. خیر وزیر خان تم نے کہا ” ہمارا صدر مجبور ہے ". تو سنو ! مجبور وہی شخص ہوتا ہے جسکے کردار اور گفتار میں کھوٹ ہو ورنہ سچا شخص آیا وہ عوام ہو یا حکمران اس میں خوف خدا ہوتا ہے اور وہ کسی سے نہیں ڈرتا . یہاں تو د ال ہی ساری کالی ہے . کیا قائد اعظم پہ کوئی دباؤ نہیں تھا ، کیا جب پاکستان بنا تو انہی طاقتوں نے ہمارے عظیم قائد کو مجبور نہیں کیا ہو گا؟ کیا تھا مگر وہ قائد اعظم تھے جنہوں نے جان دے دی مگر پاکستان حاصل کیا . جبکہ ہمارے صدر اور ماضی کے صدور کو یہ فکر ہوتی  ہے کہ کہیں پاکستان کی سودے بازی کے دوران انکے بیرونی ساتھیوں نے انکے بجایے  کسی اور کا انتخاب کر لیا تو انکی کرسی کا کیا بنے گا. جس صدر کو عوام کی بھوک کا نہیں بلکہ اپنے گھوڑوں کے مربے کا فکر ہو وہ حکمران نہیں ہوتا. اب کونسا انقلاب اور کہاں کا انقلاب ؟” پاکستان کے عوام تو ویسے ہی سو رہے ہیں . انھیں تو ظلم کی وڈیو فلم بنانے اور لاشوں کی تصویریں اتارنے سے فرصت نہیں ہے. وہ لال مسجد ہو یا داتا صاحب کا دھماکہ ، وہ زلزلے کی قیامت ہو یا سیلاب کی تباہ کاری ہمارے عوام نے حکمرانوں سے لاشوں کے زیور اتارنے کا ہنر سیکھ لیا ہے. اور ایسی قوم میں انقلاب نہیں آتا . مصر میں جو ہو رہا ہے وہ بھی کسی وجہہ سے ہے اسکے محرکات کچھ اور ہیں اسکے پیچھے بھی کوئی اور ہو گا.

دین محمد نے نوجوانوں سے مخاطب ہو کہ انھیں ایک کہانی سنائی . وہ بولا! ” دیکھو بچو! ایک دفع کسی علاقے میں ایک چور آ بسا، دھرم کا وہ ہندو تھا مگر اس کا آذان سنتے ہی برا حال ہو جاتا وہ کبھی بھی آذان کی آواز سنتا تو اسکی تعظیم میں بیٹھ جاتا. اسکے ایک دوست نے اس سے کہا کہ یہ کیا دوہرا معیار ہے. تم کرتے چوری ہو دھرم کے ہندو ہو اور آذان کی تعظیم میں بیٹھ جاتے ہو. اسنے  جواب دیا کہ میں خود حیران ہوںایسا  لگتا ہے ایشور خود مجھ سے کچھ کہہ رہا ہوتا ہے . ایک روز وہ کسی گھر سے ایک بیل چوری کر کہ بھاگ رہا تھا. آذان کا وقت ہو گیا اور لوگ بھی خبردار ہو گئے. وہ ابھی آبادی سے دور نہیں گیا تھا. اسکے لیے ایک طرف موت تھی اور دوسری طرف اسکی بھگتی- اسنے آسمان کی طرف دیکھا اور  رب سے التجا کی کہ اے مالک میں نے آج تک بہت گناہ کیے مگر تیری پکار پہ میرے قدم جم گئے . آج اگر توں نے مجھے بچا لیا تو میں توبہ کر لوں گا اور کبھی چوری نہیں کروں گا . کہتے ہیں وہ آنکھیں بند کر کہ آذان کے ختم ہونے کا انتظار کرنے لگ گیا . اسے اپنے ارد گرد لوگوں کے چلنے کی آواز بھی آئی مگر کسی نے اس سے کچھ نہ کہا . اسنے آذان کے ختم ہونے پہ آنکھیں کھولیں تو یہ دیکھ کہ حیران رہ گیا کہ جس بیل کی رسی اسکے ہاتھ میں تھی اسکا رنگ بدل چکا تھا اور جہاں وہ بیٹھا تھا وہاں جھاڑیوں نے اسے ڈھک لیا تھا——-  وہ چور بہت رویا، اسے اپنے رب کی عبادت کا کوئی طریقہ نہ آتا تھا لہٰذا اسنے سجدے میں معافی مانگی ، بیل کو اسکے مالک  کے گھر چھوڑا اور اسی مسجد میں جا کہ کلمہ شہادت پڑھا جہاں سے اسے آذان کی آواز آتی تھی.”

سبحان اللہ ! کیا ہمارے حکمرانوں میں اس چور جتنا بھی ایمان نہیں اور کیا انکو رب پہ یقین نہیں . اگر انھیں رب پہ یقین نہیں ہے تو وہ سب کے سب گستاخ رب ہیں اور عوام اسمیں حصے دار اگر ایسا نہ ہوتا تو کوئی امریکی راہ چلتے پاکستانیوں کو اقبال کے شہر میں کیسے اپنی گولیوں کا نشانہ بناتا . دین محمد جذباتی ہو چکا تھا. اسنے اپنی لاٹھی اٹھائی اور اسکی آنکھوں میں آنسو تھے. وہ جاتے جاتے یہی کہ رہا تھا ” پاکستان میں انقلاب نہیں آئے گا”………………………….