URDUSKY || NETWORK

وینا ملک کا رندانہ چال چلن اور قومی وقار

122

یادش بخیر ! کراچی کی انیتا ایوب نے کسی انڈین فلم میں بکنی پہنی تھی ۔ ادھر ہماری قومی غیرت اور وقار کا بالکل اسی طرح جنازہ نکل گیا ، جیسے اشمیت پاٹیل کی سالگرہ پارٹی میں وینا ملک کے حالیہ جنوں خیز معرکے کے بعد نکلا ہے ۔ جس دور میں انیتا ایوب نے واردات کی ، ہم اس وقت کالج جایا کرتے تھے ۔ تب میڈیا نے ترقی کی تھی ، نہ انٹر نیٹ وغیرہ کی سہولتیں عام تھیں کہ ہر کوئی سرحد کے اس پار ہونے والی کریہہ وارداتوں کا بچشم خود تفصیلی نظارہ کر سکتا۔ وی سی آر کی عیاشی بھی زیادہ تر شہروں تک محدود تھی ۔ لہذا جب پرنٹ میڈیا نے جنازہ مذکور کا اعلان کر کے اپنا فرض منصبی ادا کیا تو حسب روایت ملک کے طول و عرض میں بے چینی اور اشتعال پھیل گیا۔ تاہم وجوہات بالا کی بنا پر عام لوگ خصوصاً دیہات کے باسی ”بکنی“ سے روشناس نہ تھے اور احتجاج میں بھرپور شرکت کے باوجود بہت سے اذہان میں بجا طور پر سوال پید اہوا کہ ”بکنی“ کس بلا کا نام ہے ،جس نے ہماری ملی غیرت پر کاری ضرب لگائی ہے؟ اس نازک وقت میں استاد محترم عطاءالحق قاسمی نے اس waqar-logoسلسلے میں قوم کی رہنمائی کا با ر گراں اپنے نازک کندھوں پر اٹھایا۔ ایک دقت طلب تحقیق کے بعد ان کا مشاہدہ پوری توانائی سے بول اٹھا۔ اپنے کالم میں انہوں نے بکنی کی شان میں مختصر مگر جامع ترین الفاظ لکھے کہ ”بہت سے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ بکنی کیا ہوتی ہے ؟ میں سب کو بتانا چاہتا ہوں کہ بکنی کچھ بھی نہیں ہوتی “۔ یہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ بکنی کے اس شاندار تعارف کے بعد احتجاجی اہل وطن کا اشتعال کیوں دو چند ہو گیا اور صورتحال اتنی خطرناک ہو گئی کہ انیتا ایوب کو پھانسی دینے کا مطالبہ زور پکڑ گیا ۔ خبر کے مطابق انیتا ایوب نے بکنی پہن کر انڈین فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے جبکہ جناب عطاءالحق قاسمی کے بقول بکنی کا کوئی ”وجود“ نہیں ہوتا۔ حقیقت تویہ ہے کہ استاد مکرم کے اس عمیق مشاہدے نے جہاں احتجاجی تحریک متذکرہ کو جلا بخشی ، وہاں اس کو نئی جہت بھی عطا کی یا یوں کہیئے کہ تحریک کی صحیح سمت میں رہنمائی کا فریضہ انجام دیا۔ آج جب شخصی آزادی کے سرخیل لبرل فاشسٹ پوچھتے ہیں کہ آخر وینا ملک نے ہمارا بگاڑا کیا ہے ؟ تو ہم اسی وزن میں جواب دیتے ہیں کہ اس رند خرابات نے ہمارے پلے چھوڑا کیا ہے ؟
وینا ملک کے دامان کردار میں اس کے ”وہسکیانہ و عشقیانہ چال چلن “ اور دیگر خرافات کے باعث پہلے ہی اتنے چھید ہیں کہ وہ کڑی سزا کی مستحق ہے ۔ اوپر سے اس نے دشمن ملک جا کر ”بگ باس“ اور پھر ایک غیر مسلم اداکار کی سالگرہ کی تقریب میں جو گل کھلائے ہیں ، اس کا کوئی سر مست و سرشاررند خرابات ہی متحمل ہو سکتا ہے ، صالح اور غیر ت مند شہری ہر گز نہیں ۔ میڈیا اور ”یو ٹیوب“ نے ان قبیح و کریہہ حرکات کی جو تصویر کشی کی ہے ، ان کا الفاظ میں احاطہ کرتے ہوئے قلم فرط غیرت سے کپکپا رہا ہے ۔ ہم نے اس عظیم قومی سانحے پر (محض کالم لکھنے کی خاطر ) دل پر پتھر رکھ کر پرلے درجے کے جو شرمناک مناظر دیکھے ، وہ خدا دشمن کو بھی نہ دکھائے ۔ ہم نے دیکھا کہ اشمیت پاٹیل اپنے ہاتھ سے وینا کوشراب پلا رہا ہے ۔ جب پیمانہ و سبو کی کثرت نے اپنا رنگ جمانا شروع کیا تو وینا ملک تمام تر شرم و حیا اور ملی غیرت کو بالائے طاق رکھ کر تھرکنے لگی ۔ ہماری آنکھیں پتھرا گئیں جب اس بغاوت شعار عورت نے دل نشیں و فتنہ پرداز اداﺅں کے ساتھ بد بخت پاٹیل کو چومنا شروع کیا اور لڑکھڑاتے قدموں سے اس کے سینے سے جا لگی ۔ ”حشر سامانیاں “ اور ”کفر سامانیاں “ گلے ملیں تو ہمارا خون کھول اٹھا۔ ہمیں اڑتی چڑیا کے پر گن لینے کا دعویٰ تو نہیں لیکن سچی بات ہے کہ وینا ہمیں تو پہلی ہی نظر میں عادی دل چور عورت لگی تھی۔ بعد ازاں جب اس نے کل پرزے نکالنے شروع کئے اور محمد آصف ، ببرک شاہ اور پاٹیل ایسے کئیوں کے ساتھ میدان عشق میں کثیر سمتی پیش قدمی کی تو ہم نے اپنی بندہ شناسی کو بے ساختہ داد دی ۔ تاہم مخالف کی صلاحیتوں کو تسلیم نہ کرنا بھی بخل ہے ۔ بلا شبہ وینا ملک فن عشق میں طاق ہے اور وہ ٹوٹ کر محبت کرنے کے سارے جدید گر جانتی ہے کہ
میرا یہ دل تمہاری ہی محبت کے لئے ہے
مگر یہ پیشکش محدود مدت کے لئے ہے
قبل ازیں فلمسٹار میرا بھی انڈیا میں ایسی ہی شرمناک حرکات سر انجام دے کر ہماری ملی غیرت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا چکی ہے ۔ جانے دشمن کے پاس وہ کون سے کشتہ ہائے کیمیا ہیں کہ ہماری اداکاراﺅں کے شستہ ذوق کی آبیاری انڈیا میں ہی ممکن ہوتی ہے ؟ جبکہ ہماری شرافت اور اعلیٰ ظرفی ہے کہ ہم نے اس ”سلسلے “ میں ہمیشہ با وقار طریقہ اختیار کیا ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہم تنگ نظر ہندو کی طرح مخالف ملک کی عورتوں کے ساتھ حیا باختہ حرکات کرنے کی بجائے رینا رائے اور ثانیہ مرزا کو با عزت طریقے سے ڈولی میں بٹھا کر لائے ۔ گما ن غالب ہے کہ ہماری شہرت اور نیک نامی کو نقصان پہنچانے کی ان مکروہ وارداتوں کے پیچھے ”را“ کا ہاتھ ہے ۔ ہم اپنی حکومت کو مشورہ دیں گے کہ وہ دشمنی کی آڑ میں بھارت کے ان گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈوں پر ایک تفصیلی یاداشت مرتب کر کے اقوام متحدہ میں پیش کرے اور دشمن کو بے نقاب کر کے اسے دنیا بھر میں ننگا کرے ۔ تاہم اس یاداشت میں اس غیر مصدقہ حادثے کو گول کر دینا ہی مناسب ہوگا، جو آنجہانی راجیو گاندھی کی آخری رسومات کے موقع پر دہلی میں پیش آیا۔ ان رسومات میں شرکت کے لئے اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے ساتھ وفد میں جام صادق مرحوم کے صاحبزادے ممبر قومی اسمبلی جام معشوق بھی شامل تھے ۔ پرنٹ میڈیا کی نا معتبر سی خبر کے مطابق ایک شام جام صاحب نے اس سانحے پر ”آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں “ کے مقصد اولیٰ کی خاطر مادھوی ڈکشٹ کے ساتھ محفل غم سجائی ، جس میں مبینہ طور پر ناﺅ نوش کا بندوبست بھی تھا ۔ رات گئے جب ام الخبائث نے ہر دو معدہ کے راستے دماغوں کا رخ کیا تو جوڑا آپے اور ہوٹل سے باہر آ گیا اور سڑک پر غل غپاڑہ کرتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھ گیا ۔
وینا ملک کے اس حیا سوز و اخلاق باختہ فعل نے ہماری قومی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ وطن عزیز کی فضائے غم و غصہ میں وینا کو پھانسی دینے ، سنگسار کرنے ، چالیس کوڑے مارنے اور ملک بدر کرنے جیسے پر زور مطالبات ہمارے غیرت مندانہ جذبات کے عکاس ہیں ۔ چند ناہنجار قسم کے لوگ ہمارے غم و غصہ کو اس جذبہ رقابت کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں ، جو محلے کی کسی لڑکی کا دوسرے علاقے کے لڑکے کے ساتھ چکر کا انکشاف ہونے پر محلے کے نوجوانوں میں در آتا ہے اور وہ فرط غیرت سے ”چکر “ کی بھرپور مزحمت کرتے ہوئے پوچھتے ہیں ”اسیں مر گئے آں؟“تاہم حالیہ سانحہ میں ناہنجاروں کے اس الزام میں رتی برابر بھی صداقت نہیں ۔ ہم وہ سنجیدہ و برگزیدہ قوم ہیں جو ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی تو کر سکتے ہیں ،جعلی ادویات بنا سکتے ہیں ، رشوت میں عمرے کا ٹکٹ مانگ سکتے ہیں ، یتیموں اور بے کسوں کا حق مار سکتے ہیں ، حرام جیب میں ڈال کر حلال کا مطالبہ کر سکتے ہیں ،حج و عمرہ کے نام پر ٹھگی کر سکتے ہیں ، ناجائز قبضے و منافع خوری کر سکتے ہیں ، ہم وطنوں کے گلے کاٹ سکتے ہیں ، مگر اپنی اداکاراﺅں کو فحاشی اور بے حیائی کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ وینا ملک نے ہماری آبرو متاع کو رونق کو چہ و بازار بنا کر ہماری قومی غیرت اور وقار کا جنازہ نکال دیا ہے ۔ اس کے خلاف تحریک کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جان کر اس میں ہر غیر تمند شہری کو پوری توانائی کے ساتھ شریک ہونا چاہیے تاکہ وینا کو معلوم ہو کہ جب ہم کسی کو نشانے پر رکھ لیتے ہیں تو اس کے پرکھوں کی قبریں بھی سلگ اٹھتی ہیں ۔