URDUSKY || NETWORK

ننگے سیاستدان

121

امریکی وزارت خارجہ کی خفیہ دستاویزات جاری کرنے والی ویب سائٹ وکی لکس نے نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بہت سے نام نہاد عوامی واسلامی حکمرانوں کو بے نقاب کردیا ہے اس دستاویزات کا بڑا حصہ امریکی وزارت دفاع کے نیٹ ورک” سپر نیٹ “سے حاصل کیا گیا ہے یہ نیٹ ورک 1990میں قائم کیا گیا تھا اور اسے نائن الیون کا ڈرامہ کرنے کے بعد امریکہ نے حساس معلومات کے آسانی سے تبادلے اور مختلف خفیہ ایجنسیوں کے درمیان رابطے کی ناکامیوں کو روکنے کیلئے وسعت دی تھی دنیا بھر میں موجود امریکی سفارتخانے سپرنیٹ سے منسلک ہیں ایک انکشاف کے مطابق امریکہ نے 2008میں مختلف ملکوں میں اپنے سفارتکاروں کو ایسی خفیہ معلومات جمع کرنے کی ہدایات جاری کی تھی جس سے سفارتی اور جاسوسی فرائض میں فرق غیر واضح ہوکررہ گیا منظر عام پر آنے والے پیغامات 1966سے فروری 2010کے درمیان امریکی سفارتکاروں کی جانب سے خفیہ معلومات کے طور پر بھیجے گئے جبکہ وکی لکس کادعویٰ ہے ابھی صرف 20فیصدمعلومات منظرعام پر لائی گئی ہیں مزید معلومات بھی آئے روز جاری کی جائیں گی وکی لیکس ویب سائٹ چلانے والے ادارے کا نام سن شائن پریس ہے اور جولیان اسانج اس ویب سائٹ کے ڈائریکٹر ہیں جولیان اسانج بنیادی طور پر ایک کمپیوٹر ہیکر اور پروگرامر ہیں اور آسٹریلوی شہریت رکھتے ہیں۔
امریکی وزرات خارجہ میں جمع ہونے والی معلومات میں کتنی سچائی ہے اسکا اندازہ تو وہی کرسکتے ہیں جن سے یہ معلومات منسوب کی گئی ہے جہاں تک ہمارے پیارے پاکستان کے مفاد پرست سیاستدانوں کا تعلق ہے تویہاں کی عوام نے ان کے دانتوں کی گنتی کی ہوئی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں یہ مفاد پرست سیاستدان اپنے مفاد کیلئے ملکی مفاد کو بھی داو پر لگانے سے کبھی دریغ نہیں کریں گے انہیں اللہ تعالیٰ کی ذات سے زیادہ ”ہاتھ کامکا“ قریب نظر آتاہے اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ ہی ہے جو ہمیں کرسی پر بٹھا اور اتار سکتاہے اس لئے اس کے سامنے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ وفادار ثابت کیا جائے یہی وجہ ہے کہ ہمارے مفاد پرست سیاستدانوں نے ملکی مفاد کو پس پشت ڈال کر امریکی سفارتکار این ڈبلیو پیٹرسن سمیت امریکی اہلکاروں کے ساتھ وہ تمام معلومات شیئرز کی جسکا وقتی طور پر انفرادی فائدہ تو اس سیاستدان کاہوسکتاتھالیکن اجتماعی طور پر یہ پورے ملک کا نقصان تھا اللہ ان وکی لیکس والوں کا بھلاکرئے جنہوں نے ہمارے سیاستدانوں کو مزید ننگاکرکے عوام کی آنکھیں کھول دی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سیاستدان اپنے آپ کو حریف پارٹی سے بہتر ثابت کرنے کیلئے اس کے خلاف معلومات بھی دیتے ہیں اور وہ تمام الزامات بھی عائد کرتے ہوئے جس کی بناءپر اسے عالمی سطح پر تنہا کیا جائے وکی لکس کی جانب سے جاری کی گئی معلومات میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خا ن کے علاوہ کسی بھی پارٹی کو معاف نہیں کیا گیا اور سب کے ساتھ کچھ نہ کچھ معلومات شیئرز کی گئی اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان کی امریکی سفیر کے ساتھ صرف ایک ہی ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے کسی حریف سیاسی پارٹی کو نشانہ بنانے کی بجائے امریکی ڈرون حملوں کو حدف تنقید بنایا وہ بھی شاید اس لئے کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ مستقبل قریب میں وہ اقتدار میں آتے نظر نہیں آرہے ہیں ورنہ شاید وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے جہاں تک باقی پارٹیوں کا تعلق ہے اس بارے ماضی قریب میں رچرڈ باوچراور رچرڈہالبروک نے کیری لوگر بل اور ڈرون حملوں کے متعلق سیاستدانوں کے دوہرے معیار پر افسو س کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے ساتھ ملاقاتوں میں کسی نے کیری لوگر بل اور ڈرون حملوں پر تحفظات کااظہار نہیں کیا لیکن ملاقاتوں کے بعد احتجاج کا بیان دے دیا جاتاہے ۔
ان معلومات کے منظر عام پر آنے کے بعد پاکستان کے سیاستدانوں نے جن معلومات کو اپنے مفاد میں سمجھا اس کی تصدیق جبکہ باقی معلومات کی تردید کردی ہماری حکومت کی دفاعی کابینہ کمیٹی نے بھی وکی لیکس کی اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے اسے پاکستان کا امیج خراب کرنے کی سازش قرار دیا ہے جبکہ صدر مملکت آصف علی زرداری نے پاکستانی آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو آگا کیا ہے کہ وکی لکس کی رپورٹوں کے بارے میں امریکہ سے وضاحت طلب کی گئی ہے اب امریکہ اس کی کیا وضاحت کرئے گا ؟امریکی صدر بارک اوباما نے تو امریکی سرکاری دستاویزات کی وکی لکس کے ہاتھ لگنے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اور اس کیلئے نام نہاد دہشت گردی کی روک تھام کے ماہر رسل ٹریورز کوانکوائری آفیسر مقرر کیا ہے جو یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ امریکی حکومت کے انٹرنیٹ کے ریکارڈ سے کس طرح ہزاروں فائلیں باہر گئیں جبکہ امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے وکی لکس کو نہ صرف امریکہ بلکہ بین الاقوامی برادری پر حملہ قرار دیا ہے لیکن کسی امریکی ذمہ دار نے ان خفیہ معلومات کی تردید نہیں کی بلکہ حیرانگی کا اظہار کیا ہے کہ یہ معلومات وکی لیکس کے ہاتھ کیسے لگی ہیں ؟۔
ہمارے ایک پاکستانی شہری کو وکی لیکس کی معلومات پر بہت تکلیف محسوس کی اور انہوں نے محب وطنی کامظاہرہ کرتے ہوئے وکی لیکس کی رپورٹوں کے پاکستان میں اشاعت پر پابندی کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ دائر کردی لیکن لاہور ہائیکورٹ نے اس رٹ کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا اور اپنے ریمارکس میں کہاکہ ”بات تو سچ ہے لیکن بات ہے رسوائی کی “عدالت نے مزید قرار دیا کہ اگر چند افراد کے کپڑے اترنے سے پوری قوم کا فائدہ ہوتا ہے تو اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔
وکی لکس کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹوں سے امریکی عزائم بھی سب کے سامنے آ گئے ہیں کہ ان کے سفارتکار یہاں سفارت کاری نہیں بلکہ جاسوسی کررہے ہیں اور ہمارے سیاستدان ان کے ہاتھ کا کھلونا بنے ہوئے ہیں انہیں اب بھی سمجھ جانا چاہیے کہ جسطرح انہیں اپنامفاد عزیز ہے اسی طرح امریکہ کو بھی کوئی شخصیت نہیں بلکہ ملکی (امریکی )مفاد ہی عزیز ہے اور وہ وقت آنے پر کسی ”انفارمز“کو ننگا کرنے اور تنہا چھوڑنے میں دیر نہیں کرتا اگر کسی کو پھر بھی یقین نہیں آتاتو پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں کی طرف دیکھ لیں ۔