میراتوکسی طورسے کٹ جائیگا یہ دن:(کالم-محمدیونس عالم)
میراتوکسی طورسے کٹ جائیگا یہ دن
تحریر: محمدیونس عالم
رمضان آیا اورخداوندِعالم نے کائنات کے نقشے پراسلامی جمہوریہ پاکستان کی صورت میں ایک نئے باب کا اضافہ کردیا۔پھررمضان آیاتودستِ قدرت نے پاکستان کی بنیادوں کوہلاکرتاریخ کے ابواب کو ایک ہلاکت آفرین زلزلے کا اضافہ عطا کردیا۔رمضان آیا اورایسی غضبناک و بپھری ہوئی موجیں اس ملک پرچڑھ دوڑیں کہ عرب وعجم اور شرق و غرب میں پھیلی نسلِ انسانی کے دل دہل کر رہ گئے۔نہ جانے رمضان ہی کی ایک مقدس شب میں اپنی فتح کا علم لہرانے والی سلطنت پراب رمضان ہی کی مقدس راتوں میں افتاد کیوں ٹوٹتے ہیں۔کبھی زلزلہ،کبھی سیلاب،اور اگر یہ نہیں تو پھر ڈرون طیارے آتے ہیں اور عین عیدلفطرکی شب خیبرپرآتش وآہن کی برسات کرکے معصوم جانوں کو جلاکربھسم کردیتے ہیں۔کہیں اس لئے تو نہیں کہ ہم نے پاکستان کی صورت میں حاصل ہونے والی خدا بخشندہ نعمت کی قدر نہ کی جس پرقدرت نے ہمیں بحرانوں اور آفتوں کے ایسے صحراؤں میں بھٹکادیا جہاں سے کبھی واپسی کا راستہ نہیں ملتا۔سواب کے برس بھی رمضان کا مہینہ آیا اور کس قدر شکستگی کیساتھ واپس گیا وہ ہم سب نے روشن دن کی طرح دیکھا۔عیدبھی آئی تو کس قدر دبے دبے قدموں کے ساتھ آئی اورکس قدر خون آلودہوکرپلٹی وہ بھی ہر فردِ بشرنے ملاحظہ کیا۔اس عیدپرسب کے احساسات آشکارا تھے،مگر جن احساسات نے مجھے اپنے نرغے میں رکھا اس کے بیان کیلئے مجھے لغت کی بلندوبالا عمارتیں اوروسیع عریض الماریاں بھی تنگئی داماں کی شکایت کرتی نظرآتی ہیں۔سیلاب زدگان کا توہرسوچرچہ رہا،مگراس نحیف سی ڈاکٹرعافیہ نے بہت تعاقب کیا جسے مغربی سورماوں نے اپنے نرغے میں لے کرکسی بوسیدہ کپڑے کی طرح زندانوں کے پیچھے پھینک دیا ہے۔
ہلالِ عید کے ظہورکے ساتھ ہی سیل فون بے تکان مبارکبادی کے پیغامات اگلنا شروع کردیتے ہیں۔حالات کے بدلنے کے ساتھ انسان بھی بہت ہی برق رفتاری سے بدلتا چلا جا رہا ہے۔ہر شخص اپنے احساسات اور جذبات اورگردوپیش کے حالات و وقعات کوبڑی خوبصورتی کے ساتھ ہم آہنگ کرکے پیغامات ترتیب دیتے ہیں جولمحہ بھرمیں دست بدست پورے ملک میں پھیل جاتے ہیں۔حسبِ دستور اب کے برس بھی پیغامات آئے۔مجھے حیرت تھی کہ ہزاروں ملنے والے پیغامات میں ایک بھی ایسا پیغام موصول نہیں ہوا جس میں سیلاب زدگان دکھوں کیلئے دو حرف شامل کیئے گئے ہوں۔اس پر تو پھرکبھی بات ہوسکتی ہے ،مگراس سے بڑھ کر جوحیرت درپیش رہی وہ یہ تھی کہ اس ملک میں کسی شام کوئی المناک سانحہ رونما ہوتا ہے اور پورا ملک غم وندوہ میں ڈوب سا جاتا ہے۔لیکن معاملہ ایک ایسا واقعہ ظہور پذیر ہوجاتا ہے جس کے پسِ منظرمیں پچھلا واقعہ کہیں دب کراپنی اہمیت کھوبیٹھتا ہے۔مگر یہ کیا؟اوپرتلے ہزارحادثات اور سانحات پاکستان کے دروبام کو ہلاکررکھ دیا مگر ڈاکٹرعافیہ پرڈھائے جانے والے ستم ہیں کہ یہ قوم بھلائے نہیں بھولتی؟
میراشمارعیدکی صبح تک انہی لوگوں میں تھا جنہیں اپنے گرد وپیش کے سانحات وحادثات کا کسی شدت سے احساس نہیں تھا۔اورڈاکٹر عافیہ نہ جانے کیوں وہم وگمان میں نہ تھی۔عیدکی نماز سے فارغ ہوکروالدمرحوم کی مرقدپرکافی وقت تک بیٹھا رہا کہ آج بھی اپنے دل پر جمی ہوئی گرد اتارنی ہوتواسی مرقد پہ حاضرہوکراپنے سب سے اچھے دوست اباحضورکے کندھوں پہ سررکھ کر رولیتاہوں۔آج توعیدتھی اور گردشِ ایام نے ایک مدت سے یہاں آنے بھی نہ دیا تھا۔آج آیاتودیرتک ملاقات کا سلسلہ جاری رہا۔الوداع کہہ کراٹھااوربوجھل قدموںکے ساتھ قبرستان سے نکل رہا تھا کہ سیل فون پر ایک انجان نمبر سے پیغام موصول ہوا:آپ اور آپ کے گھر والوں کو عید مبارکاللہ آپکوبے شمارخوشیاں عطاکرےاپنی دعاوں میں امریکن جیل مین قیدعافیہ صدیقی کوبھی یاد رکھیں۔بس ،یہ پیغام پڑھنے کی دیرتھی کہ عیدکی ساری خوشیاں اورمیل ملاقات بے معنی ہوکررہ گئیں۔ ایک طرف دل سے اس شخص کیلئے دعائیہ کلمات اٹھتے رہے جس نے اسقددر جھوم جھمیلوں میں عافیہ صدیقی کوبھول جانے جیسے کبیرہ گناہ سے خودکوبچائے بھی رکھا اوردیگرلمبی تان کرخوابِ خرگوش سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسلمانوں کوجگانے کا فریضہ بھی بخوبی سرانجام دیتا رہا۔اوردوسری طرف اس بہن کا وہ چہرہ سامنے رہا جوایک ایساواضح ورق ہے جس کی سطرسطرمغرب کی عدل گاہوں میں کھڑے انصاف کے بت کوبے نقاب کرتی ہے۔اور جس کا دکھ و کرب سے چور بدن حقوقِ نسواں کے مینارتعمیرکرنے والے حکمرانوںسے ہمیشہ ایک سوال کرتارہے گا:بای ذنب قتلت کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا۔
اس پیغام کے سحرسے نکلا ہی نہ تھا کہ صاحبِ طرز قلمکار احسان کوہاٹی عرف سیلانی کے نمبرسے عیدمبارک کا ایک ایسا بے مثل پیگام موصول ہوا کہ ضمیرپروف قسم کے انسان کے ضمیرکوجھنجھوڑکررکھ دے۔وہ کہنے لگے:بہادرآرمی،غیرت مندحکمران،متقی علماءاور سترہ کروڑعزت دار عوام کو ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی طرف سے عید مبارکاحسان کوہاٹی۔یہ پیغام ہدیہءتبریک بھی تھا اور احساسِ ذمہ داری بھی،اوراس سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری سے فراراختیارکرنے والے تمام شعبہائے زندگی کیلئے یہ ایک حرفِ طعن بھی تھا۔اورکیوں نہ ہو؟افواہیں اور بے پرکی اڑانے والے وزیرِ داخلہ آج کی تاریخ تک فوزیہ صدیقی کے ساتھ تصویریں اتروانے کے مرحلے سے آگے نہ بڑھ سکے۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی سوائے دعا دینے کے اور کربھی کیا سکتے ہیں۔صدرعالی مقام آئے دن پری پیکروں کے جھرمٹ میں حقوقِ نسواں کی خیرات بانٹتے رہتے ہیں مگر انکی نگاہِ کرم عورتوں میں سوائے آصفہ،بختاور،فہمیدہ مرزا،شیرین رحمن،فوزیہ وہاب،فریال تالپور،شازیہ مری،سسی پلیجو،شہلا رضا اور شرمیلا فاروقی کے علاوہ کسی پر پڑتی بھی تو نہیں۔ان سے آگے چلے جائیں توامریکہ کی ایک خوبروسارہ پالن ہے جو انکے من کو بھاتی ہے۔ان کے علاوہ تو زمین پربسنے والے سب کیڑے مکوڑے ہیں۔اورعافیہ صدیقی؟اسے تو اگر انسانوں کی فہرست میں بھی جگہ میسر آجائے تو بلا شبہ اس دیس کے حکمران نوبل پرائز کے حقدار ٹھہرینگے۔کس سے آپ امید لگاسکتے ہیں؟مخدوموم کے مخدوم اور اولیاءکی اولاد قبلہ شاہ محمود قریشی سے؟لیکن وہ اتنی ہی صلاحیت کے حامل ہیں کہ سرسے سرملاکربلندبانگ قہقہوں کا تبادلہ کرسکیں۔آنکھیں چار کرنے سے نہیں حق ہمیشہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمنوایا جاتاہے۔ہیلری کلنٹن کی طرف آنکھ اٹھانا یہ سجادہ نشینوں کے بس کا روگ ہی نہیں ہے۔حکمرانوں پر تو عافیہ کی رہائی ایک فرض ہے جو بہرصورت اپنی ادائیگی چاہتا ہے۔مگرمیرا دوست پوچھتا ہے کہ علما کہاں ہیں؟بہادر سپہ سالار کی سالاری اور اس کی ناقابلِ تسخیرفوج ظفرموج کہاں ہیں؟اور ان سب سے بڑھ کر اس ملک کی سترہ کروڑ عوام کہاں ہیں؟کہیں ایسا تو نہیں کہ آوے کا آوا ہی بگھراہوا ہے؟ہم بہت بہادر ہیں ۔ہاں ہماری ذات پر بن آئے تو ہم بہت بہادرہیں۔ہم میڈیا پرقدغن لگانے سے نہیں ججھکتے۔صحافیوں کو اغوا کرکے ان پرتشددبھی عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ایسا نہیں کہ ہم بہادر نہیں ہیں۔ہم ہیں ،مگر ہم صرف مجبوریوں میں جھکتے ہیں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔بات صرف اور صرف اتنی ہے عافیہ کے والد بزرگوار کا نام آصف علی ہے اور نہ یوسف رضا۔اس کے عزیزوں میں کسی کا نام عبدلرحمن ملک بھی نہیں ہے۔ورنہ سامنے کی باتیہ ہے کہ جنرل طارق مجید کا اگر داماد اغوا ہوجائے توآرمی کی کرشمہ سازیاں قابلِ دید ہوتی ہیں۔
دوتین پیغامات کے مسلسل موصول ہونے کے بعدایسا لگا کہ عافیہ صدیقی میراپیچھاکررہی ہو۔اورمجھے جھنجھوڑجھنجھوڑکر کچھ سوالات کررہی ہو۔اور کہہ رہی ہو کہ تم کس منہ سے عید کی خوشیاں مناتے ہو؟اور ہاں عافیہ نے یہ بھی کہاتمہیں خبرہے کہ تمہاری شوکتِ رفتہ کیونکرایک خواب ہوگئی؟اسلئے کہ میں جس ملک میں مصائب وآلام کے شب وروز بِتارہی ہوںاس ملک کی ایک طوائف تمہارے ملک آئی۔اس نے وزیراعظم ہاوس جانے کا قصدکیا۔خبرپہنچنے پرتم لوگوں کا بزرجمہرتولپکتاہواپہنچا،مگر اس کی نازنین اولاد نے اسے فون کیا کہ ابا جی!اس بین الاقوامی طوائف کے ساتھ ہم بھی تصویرکشی کااعزاز حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔چنانچہ خصوصی طیارہ شہزادوں کولیکراسلام آباد صرف اس غرض سے پہنچا کہ بہا والدین زکریا کے سجادہ نشین کی اولاد نے ایک طوائف کے ساتھ تصویر کھنچوانی تھی۔تمہارے عزتِ سادات رکھنے والے حکمران ایک طوائف کی اس قدر پجاری ہوں تو کیا ان سے یہ امیدرکھنا بھی ایک گناہ نہیں کہ وہ ایک مظلوم کی آواز پر لبیک کہنے کی جسارت کرینگے؟جانتے ہو تمہارے حکمران اپنا فرض کیوں بھول گئے ہیں۔اس لئے کہ تم اپنا قرض بھول گئے ہو۔کیا اتنی سی بات بھی تمہیں سمجھانی پڑے گی کہ ظالم کے ظلم پراپنے لب سی لینا در حقیقت ظالم کی حمایت ہے۔
میں نے عافیہ سے جان چھڑانے کی کوشش کی ۔میں اپنے شہرسے باہرجارہاتھا۔سفر اپنے اختتام کو پہنچا۔ایئرپورٹ سے باہرآیا۔سامنے ایک بینر پرنگاہ پڑی اور عافیہ پھر مسکراتی ہوئی سامنے آگئی۔بینرپررقم الفاظ پڑھے جیسے عافیہ ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ یوں الوداع کہہ رہی ہے
میراتوکسی طورسے کٹ جائیگایہ دن
اے اہلِ وطن تم کو مگرعیدمبارک