میثاق جمہوریت سے میثاق پاکستان… محض دھوکہ
میثاق جمہوریت سے میثاق پاکستان… محض دھوکہ
سابق وزیراعظم ومسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر 25سالہ طویل مدتی منصوبہ پیش کیا ہے جس کے خدوخال میں میاں نواز شریف ملک کی سیاسی جماعتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرناچاہتے ہیں جن میں پاک فوج اور عدلیہ بھی شامل ہے میاں محمد نوازشریف کا خیال ہے کہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ پاکستان ساری دنیا میں رسو ا کیوں ہورہاہے ؟ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال طے کرناہونگے ان کا کہناہے کہ ملکی معیشت کھوکھلی ہوچکی ہے ہم گلی گلی کشکول لئے پھر رہے ہیں قرضوں کا بوجھ بڑھتاجارہاہے عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں اس لئے ان تمام مسائل کو حل کرنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈر کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوکر چلناہوگا میاں نواز شریف کایہ بھی کہنا ہے کہ اتفاق رائے کے ساتھ چلنے کیلئے بےنظیر بھٹو نے پہل کہ تھی اوروہ جدہ آئی تھی اب صدرآصف علی زرداری کابھی وہی ایجنڈا ہونا چاہیے میاں نوازشریف کے اس ایجنڈے کو کچھ قوتوں نے سراہا جبکہ کچھ تنقید کانشانہ بنارہی ہیں جن قوتوں نے سراہا ہے انکا خیال ہے کہ اس سے ملک کے مسائل حل ہونے میں مدد ملے گی جبکہ تنقید کانشانہ بنانے والوں کا خیال ہے کہ اسکا حال بھی ”میثاق جمہوریت “جیسا ہوگا اور عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔
14مئی 2006ءکوپےدا ہونے والے ”میثاق جمہوریت “میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا تھا کہ آئندہ وہ کسی فوجی حکومت میں نہ تو شامل ہونگے اور نہ ہی حکومت میں آنے اور منتخب حکومت کے خاتمے کیلئے فوج کی حمایت طلب کریں گے ،اقتدار میں آنے کے بعد ایسا کمیشن تشکیل دیا جائے گا جو 1996کے بعد جمہوری حکومتوں کو ہٹانے اور کارگل جیسے واقعات کی تحقیقات کروائے اور اس کے متعلق ذمہ داروں کا تعین کرئے گا،ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے گئی جو فوج اور خفیہ ایجنسیوں میں وسائل کے ضیاع کو روکنے کے بارے میں سفارشات مرتب کرے گی ،ملٹری لینڈ اور کنٹونمنٹ بورڈ کو وزارت دفاع کے تحت کرنے اور ایسا کمیشن بنایا جائے گا جو 12اکتوبر 1999کے بعد فوج کو الا ٹ کی گئی زمےنوں کے کےسوں کا جائزہ لے، آئی ایس آئی ،ملٹری انٹیلی جنس اور تمام دیگر خفیہ ایجنسیوں کو منتخب حکومت کے ماتحت بنانے اور تمام خفیہ ایجنسیوں کے سیاسی ونگ ختم کئے جائیں گے ،فوج اور عدلیہ کے تمام افسران ارکان پارلیمنٹ کی طرح اپنی جائیداد اور آمدنی کے گوشوارے جمع کرانے کے پابند ہونگے، تین مرتبہ وزیراعظم بننے کی پابندی کا خاتمہ کیا جائے گا ،ڈفنس کیبنٹ کمیٹی کی سربراہی وزیراعظم کے پاس ہوگی، ایل ایف او ،آئین میں ساتویں ترمیم کے تحت طریقہ انتخاب ،اقلیتوں اور خواتین کی نشستوں میں اضافے ،ووٹنگ کی عمر میں کمی اور پارلیمنٹ کی نشستوں میں اضافے جیسی ترامیم کو ختم کیا جائے گا ۔
اگر میثاق جمہوریت اور میثاق پاکستان کا بغور جائزہ لیا جائے تو دونوں میں اقتدار کی ”بو“آئے گی میثاق جمہوریت میں بھی ایک دوسرے کے خلاف کاروائی سے اجتناب کرنے اور ملک کو لوٹنے کا مکمل موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا تھااب ایک بارپھر میاں نوازشریف ” چوربازاری اور لوٹ مار “کیلئے لائسنس حاصل اور تقسیم کرناچاہتے ہیں جبکہ اس کے بدلے عوام کے ہاتھ ”لولی پاپ “کے سوا کچھ نہیں آئے گا یہ بھی امید کی جا سکتی ہے کہ کچھ لوگوں کے ہاتھ” لولی پاپ “بھی نہ آئے ۔
میاں نوازشریف شائد بھول رہے کہ وہ ایسے پاکستان میں رہ رہے ہیں جہاں وہ اپنے ہی دئیے ہوئے ایک سالہ مختصرمنصوبہ مکمل نہیں کرپاتے وہ 25سالہ طویل مدتی منصوبے کو کیسے کامیاب کروائیں گے ؟یقیناً اس منصوبے کی کامیابی سے ”چوروں لیٹروں “کو لائسنس مل جائے گا لیکن ہم انہیں یاد کروانا چاہتے ہیں کہ آج وہ جس خارجہ پالیسی کو تنقید کانشانہ بنارہے ہیں ا ن کی اور آج کی خارجہ پالیسی مے کوئی زیادہ فرق نہیں ہے آپ بھی اقتدار کیلئے امریکی گرین سنگل کا انتظار اور حاصل کرناچاہتے رہے آج بھی وہی کچھ ہوتاہے آپ نے ضمیر کی آواز پر کیری لوگر بل کے خلاف آواز اٹھائی لیکن جیسے ہی امریکی وفود آپ سے ملے تو کیری لوگر بل آپ کااپنابل بن گیا، آپ بھی ناپاک امریکی عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے میں انکا ساتھ دیتے تھے آج بھی یہی کچھ ہورہاہے آپ نے بھی ایمل کانسی سمیت بہت سے مطلوب پاکستانیوں کو امریکہ کے حوالے کیا تھا آج بھی یہی کچھ ہورہاہے آپ کشکول توڑنے کی باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ گلی گلی کشکول اٹھاکر پھرتے رہے اور آئی ایم ایف سے قرضے لے کر ملک کو مزےدار میں جکڑتے رہے حالانکہ اس قوم نے کشکول توڑنے کیلئے ”قرض اتاروملک سنوارو“کے منصوبے پر بڑھ چڑھ کرحصہ لیا تھا، آج بھی آئی ایم ایف سے مزید قرضے لے کر ملک کے عوام پر مہنگائی کے بم برسائے جارہے ہیں جبکہ مزید بم تیاری کے مراحل میں ہیں آپ نے بھی اقتدار میں آکرماضی کے ڈکٹیٹروں جنرل ایوب ،جنرل یحییٰ اور جنرل ضیاءالحق کو تحفظ دیا اور ان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کوئی کاروائی نہیں کی آج بھی 1999سے 2009ءبرسراقتدار رہنے والے ماضی کے ڈکٹیٹروں (ر)پرویز مشرف کے خلاف کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی آپ نے بھی اپنے خلاف فیصلوں کی پاداش میں سپریم کورٹ پر حملہ کروایا آج سپرے کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرکے ججوں کو آنکھیں دکھائی جارہی ہے آپ کے دور میں بھی میڈیا پر بے شمار حملے کئے گئے آج بھی میڈیا پر پابندیاں عائد کی جارہی ہے ،آپ بھی ملک میں لوٹ مار کرکے اپنی جائیداد اور شاندار محل بنانے میں مصروف رہے آج بھی ملک میں لوٹ مار کابازار گرم اور جائیدادیں بنانے کے اس منصوبے پر عمل درآمد جاری ہے ،آپ آج لندن اورسعودی عرب میں اپنے بزنس کو پرموٹ کرنے کے علاوہ جائیدادیں اور بنک بیلنس بنارہے ہیں جبکہ آج کے موجودہ حکمران بھی بیرون ملک اپنی جائیدادیں اور بنک بیلنس بنارہے ہیں ،آپ کے دور میں بھی کرپشن عروج پر تھی آج بھی پاکستان کرپشن میں دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے ،آپ نے پہلے بھی اپنے اقتدار کو طول دینے اوراپنی حریف سیاسی جماعت کو شکست دینے کیلئے صوبہ سرحد میں پاکستان کے قیام کی مخالفت کرنے والے ملک دشمن سرحدی گاندھی وباچاخان کی جماعت ”اے این پی “کو سپورٹ کرکے بڑی قوت بنایا جو آج اقتدار میں بیٹھ کر ملک کے فیصلے کررہی ہے ،آج بھی ملکی مفاد کو پس پشت رکھتے ہوئے محض اقتدار کی خاطر معاہدے کئے جارہے ہےں،آپ نے بھی دنےا کے سب بڑے کوئلے کے ذخائرکی پاکستان موجودگی،بلوچستان میں تانبے اور سونے کی دریافت اور چنیوٹ میں لوہے کے ذخائر کی موجودگی کے باوجود ملک کے زرمبادلہ میں اضافے کیلئے کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا آج بھی ایسے کسی منصوبے کو شروع کرنے سے اجتناب کیا جارہاہے اور ملک میں کرائے کے بجلی گھر لگا کر اسکا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جارہاہے آپ نے بھی ڈیموں کے نام پر سیاست کی اور دوتہائی اکثریت کے باوجوداپنے دور اقتدار میں کوئی بھی ڈیم شروع نہ کیا آج بھی ڈیموں کے نام پر سیاست کی جارہی ہے اور تاحا ل کسی ڈیم پر عملی طور پرکام کا آغاز نہ ہوسکا۔
ایسے میں عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ ”میثاق پاکستان “کا طویل مدتی منصوبہ محض لوٹ مار کے لائسنس تقسیم کرنا اور ماضی کی کرپشن ولوٹ مار پر پردہ ڈالنے کے سواکچھ اورنہیں ہے یہ تو ایسی ہی سوچ ہے کہ ”اقتدار میں کیسے آنااورملک کو کیسے لوٹنا ہے “اس لئے قوی امید ہے کہ ”میثاق پاکستان “میں بہت سی ایسی نام نہاد جمہوری پارٹیاں شامل پوجائیں گی جو اپنی جماعت کے اندر جمہوریت کو پسند نہیں کرتی اور محض شخصیت پرستی کو فروغ دیتی ہے ایسے لوگوں سے عوام کی خیر کی توقع کیسے رکھی جاسکتا ہے ؟