URDUSKY || NETWORK

لیکن یاد رکھنا۔۔۔۔۔!

82
لیکن یاد رکھنا۔۔۔۔۔!
تحریر ٭   محمد سکندر حیدر
یو ایس گلوبل لیڈرشپ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا” پاکستان امیروں پر ٹیکس لگائے ورنہ کسی بھی قسم کی امداد نہیں دیں گے۔ امریکہ پاکستان کو فوجی اور سول امداد کی صورت میں اربوں ڈالر فراہم کر رہا ہے۔ اِس کے باوجود پاکستانی امرا ٹیکس نہیں دیتے اور چاہتے ہیں کہ امریکہ اُن کی ضرورت پوری کرئے۔ جاگیر دار اور دیگر امراءبالکل ٹیکس نہیں دیتے ، اگر دیتے ہیں تو مضحکہ خیز حد تک ٹیکس دیتے ہیں۔ پاکستان کو یہ صورت حال ختم کرنی ہوگی کیونکہ پاکستان کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہاں ہر شخص امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف امداد کے لیے دیکھتا ہے“۔ہیلری کلنٹن امریکن خاتون وزیر ہے اِس لیے جو چاہے بیان دے بھلا کون روک سکتا ہے۔ اگر ہیلری پاکستانی وزیر ہوتی اور اُس کے منہ سے اِتنی کھری اور سچی باتیں نکلتیں تو اب تک مخدوم زادہ اُسے اپنے ہاں طلب کرکے استعفیٰ لے چکا ہوتا۔ اور وضاحت طلب کرتا کہ اُسے آخر کیا ہوگیا ہے جو حقیقت پر مبنی انکشافات قوم پر کر رہی ہے اور ہیلری کو اب تک پتہ چل چکا ہوتا کہ کیسے میڈیا کے سامنے سچ بولا جاتا ہے اور سچ کی قیمت کیسے استعفیٰ کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ عبدالقیوم جتوئی کے بعد ہیلری کلنٹن بھی شاید پاگل ہوگئی ہے جو یوں سچ بول رہی ہے اورپاکستانی امرا پر ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہوئے بھکاری حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہی ہے کہ کیوں ہر پریشانی پر امریکہ اور دیگر اقوام کی طرف امدا د کے لیے بھکاری نظروں سے دیکھتے ہو۔ ہیلری واقعی ہی نادان اور لا علم ہے جو اِس قسم کا بیان دے رہی ہے ورنہ اگر اُسے پاکستان میں حقیقت امر ا کوتو چھوڑو حکمرانوں کے ٹیکس گوشواروں کا ہی سو فیصد ادراک ہوتا تو یوں شاید بیان نہ دیتی۔ وزیر اعظم گیلانی کی کابینہ کے کم وبیش 61ممبران ہیں جن میں سے 43وفاقی وزراءاور 18وزراءمملکت ہیں۔ جبکہ مشیران او رخصوصی معاونین کی فوج ظفر موج الگ سے ہے۔ یہ مشیران اور خصوصی معاونین اِس قدر زیادہ تعداد میں ہیں کہ بعض اوقات حکومت کو بھی پتہ ہی نہیں چلتا کہ کونسامشیر اصلی ہے اور کونسا نقلی، ہر وزیر اور مشیر کم ازکم ایک لاکھ روپے ماہانہ کے حساب پر غریب عوام کو قومی خزانہ کی قربانی پر پڑ رہاہے۔ اِن وزیروںاو ر مشیروں نے اب تک کیا خدما ت سرانجام دی ہیں اِس کا جائزہ ملک کے موجودہ اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔ کابینہ کے اِن ارکان نے 2008ءمیں الیکش کمیشن آف پاکستان کو اپنے گذشتہ تین مالی سالوں 2004-2007کے جو ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں ۔ اُن کے اعداد وشمار کوپڑھ کر دل چاہتا ہے کہ اِس کابینہ کے کپتان یوسف رضا گیلانی اور اُس کی ٹیم کے باقی ممبران کو اُن کی غربت پر پوری قوم زکوة اور خیرات دے۔ اِن گوشواروں کے مطابق مالی سالوں 2004-2007 کے دوران یوسف رضا گیلانی، حفیظ شیخ اور مخدوم امین فہیم نے صفر روپے ٹیکس ادا کیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے حالات پر رحم کھاتے ہوئے رحمان ملک نے 64روپے، ظہیر الدین بابر اعوان نے 42850اور 66107روپے، فوزیہ وہا ب نے 10500روپے، خورشید احمد شاہ نے ,11625,31787اور 10000روپے، بابر غوری نے ،149422، 235000اور342000روپے ، سید نوید قمر نے 20ہزار، 26ہزاراور34ہزاروپے، شاہ محمود قریشی نے170000 ،529000اور 366000روپے ،راجہ پرویز اشر ف نے 10500،11625اور24232روپے ، تسنیم احمد قریشی نے 86ہزارروپے اور حنا ربانی کھرنے زرعی ٹیکس 8ہزار ، 8ہزار اور 7500روپے ادا کیاہے۔ المختصر 15وزراءنے دس ہزارروپے سے کم انکم ٹیکس ادا کیا ہے جبکہ اکثر وزراءزرعی ٹیکس ،وہ بھی نہ ہونے کے برابر اد ا کرتے ہیں۔ اِن وزرا کی ذاتی لائف سٹائل ،گاڑیاں ، نوکر چاکراور فیملی ممبران کا شاہانہ طرززندگی دیکھیںتو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ لاہور اور اسلام آباد میں اربوں روپے مالیت کے مکانات ، بنگلے سمیت بعض وزراءکے لندن میں لاکھو ں پونڈز کے قیمتی فلیٹس ہیں۔ پاکستان میں اِن کی جاگیریں ، پٹرول پمپس، شاپنگ پلازے ، شوگر و کاٹن فیکٹریاں، فش فارم اور کیٹل فارم کو انگلیوں پر گننے لگیں تو انگلیاں تھک جائیںلیکن پھر بھی بے شرم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اُلٹا عوام کا اکٹھا کردہ ٹیکس خود کھا جاتے ہیں۔ عوامی ٹیکسوں اور کرپشن زدہ قوم پر پلنے والے انہی حکمرانوں ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بنا پر غریب عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ اِن لوگوں کی سالانہ 5ارب کی کرپشن ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ معاشی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ کساد بازاری اور مہنگائی کے طوفان نے ہر شخص کا جینا محال کر دیا ہے۔ وائٹ کلر طبقہ کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ آئے روز بجلی کی قیمتوں میں بلا وجہ اضافہ کیا جارہاہے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر ا ب تک مجموعی طو رپر 90فیصد کیا جا چکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں اور سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کا عرق نکال کر رکھ دیاہے۔ مزدوروں کو مزدوری نہیں مل رہی۔ سب سے زیادہ ٹیکس گزار تنخواہ دار طبقہ قلیل تنخواہوں کے بھنور میں پھنسا ہے۔ غربت کی بنا پر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔سیلابی آفت نے غریبوں پرا یک کہرام مچا دیا ہے لیکن بے حس و بے شرم حکمران سیلابی امداد سے اپنی تجور یاں بھررہے ہیں۔حکومتی نااہلی کی بنا پر پورا ملک تباہ ہوگیاہے لیکن حکمرانوںکو ذرا بر ابر بھی احساسِ ندامت نہیں اِن حکمرانوں کے متعلق تو بس اب نورجہاں سے معذرت کے ساتھ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اے وطن کے بدعنوانوں! سارے قرضے تمہارے لیے ہیں۔ سب اثاثے تمہارے لیے ہیں۔لیکن یاد رکھنا خد اکی جب لاٹھی برسی تو پھر،سب جہنم تمہارے لیے ہیں۔

لیکن یاد رکھنا۔۔۔۔۔! تحریر٭محمد سکندر حیدر(بولتے لفظ) یو ایس گلوبل لیڈرشپ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا” پاکستان امیروں پر ٹیکس لگائے ورنہ کسی بھی قسم کی امداد نہیں دیں گے۔ امریکہ پاکستان کو فوجی اور سول امداد کی صورت میں اربوں ڈالر فراہم کر رہا ہے۔ اِس کے باوجود پاکستانی امرا ٹیکس نہیں دیتے اور چاہتے ہیں کہ امریکہ اُن کی ضرورت پوری کرئے۔ جاگیر دار اور دیگر امراءبالکل ٹیکس نہیں دیتے ، اگر دیتے ہیں تو مضحکہ خیز حد تک ٹیکس دیتے ہیں۔ پاکستان کو یہ صورت حال ختم کرنی ہوگی کیونکہ پاکستان کو جب بھی کوئی پریشانی لاحق ہوتی ہے تو وہاں ہر شخص امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف امداد کے لیے دیکھتا ہے“۔ہیلری کلنٹن امریکن خاتون وزیر ہے اِس لیے جو چاہے بیان دے بھلا کون روک سکتا ہے۔ اگر ہیلری پاکستانی وزیر ہوتی اور اُس کے منہ سے اِتنی کھری اور سچی باتیں نکلتیں تو اب تک مخدوم زادہ اُسے اپنے ہاں طلب کرکے استعفیٰ لے چکا ہوتا۔ اور وضاحت طلب کرتا کہ اُسے آخر کیا ہوگیا ہے جو حقیقت پر مبنی انکشافات قوم پر کر رہی ہے اور ہیلری کو اب تک پتہ چل چکا ہوتا کہ کیسے میڈیا کے سامنے سچ بولا جاتا ہے اور سچ کی قیمت کیسے استعفیٰ کی صورت میں چکانی پڑتی ہے۔ عبدالقیوم جتوئی کے بعد ہیلری کلنٹن بھی شاید پاگل ہوگئی ہے جو یوں سچ بول رہی ہے اورپاکستانی امرا پر ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہوئے بھکاری حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہی ہے کہ کیوں ہر پریشانی پر امریکہ اور دیگر اقوام کی طرف امدا د کے لیے بھکاری نظروں سے دیکھتے ہو۔ ہیلری واقعی ہی نادان اور لا علم ہے جو اِس قسم کا بیان دے رہی ہے ورنہ اگر اُسے پاکستان میں حقیقت امر ا کوتو چھوڑو حکمرانوں کے ٹیکس گوشواروں کا ہی سو فیصد ادراک ہوتا تو یوں شاید بیان نہ دیتی۔ وزیر اعظم گیلانی کی کابینہ کے کم وبیش 61ممبران ہیں جن میں سے 43وفاقی وزراءاور 18وزراءمملکت ہیں۔ جبکہ مشیران او رخصوصی معاونین کی فوج ظفر موج الگ سے ہے۔ یہ مشیران اور خصوصی معاونین اِس قدر زیادہ تعداد میں ہیں کہ بعض اوقات حکومت کو بھی پتہ ہی نہیں چلتا کہ کونسامشیر اصلی ہے اور کونسا نقلی، ہر وزیر اور مشیر کم ازکم ایک لاکھ روپے ماہانہ کے حساب پر غریب عوام کو قومی خزانہ کی قربانی پر پڑ رہاہے۔ اِن وزیروںاو ر مشیروں نے اب تک کیا خدما ت سرانجام دی ہیں اِس کا جائزہ ملک کے موجودہ اخلاقی، سیاسی اور اقتصادی بحرانوں سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے۔ کابینہ کے اِن ارکان نے 2008ءمیں الیکش کمیشن آف پاکستان کو اپنے گذشتہ تین مالی سالوں 2004-2007کے جو ٹیکس گوشوارے جمع کرائے ہیں ۔ اُن کے اعداد وشمار کوپڑھ کر دل چاہتا ہے کہ اِس کابینہ کے کپتان یوسف رضا گیلانی اور اُس کی ٹیم کے باقی ممبران کو اُن کی غربت پر پوری قوم زکوة اور خیرات دے۔ اِن گوشواروں کے مطابق مالی سالوں 2004-2007 کے دوران یوسف رضا گیلانی، حفیظ شیخ اور مخدوم امین فہیم نے صفر روپے ٹیکس ادا کیا ہے۔ جبکہ پاکستان کے حالات پر رحم کھاتے ہوئے رحمان ملک نے 64روپے، ظہیر الدین بابر اعوان نے 42850اور 66107روپے، فوزیہ وہا ب نے 10500روپے، خورشید احمد شاہ نے ,11625,31787اور 10000روپے، بابر غوری نے ،149422، 235000اور342000روپے ، سید نوید قمر نے 20ہزار، 26ہزاراور34ہزاروپے، شاہ محمود قریشی نے170000 ،529000اور 366000روپے ،راجہ پرویز اشر ف نے 10500،11625اور24232روپے ، تسنیم احمد قریشی نے 86ہزارروپے اور حنا ربانی کھرنے زرعی ٹیکس 8ہزار ، 8ہزار اور 7500روپے ادا کیاہے۔ المختصر 15وزراءنے دس ہزارروپے سے کم انکم ٹیکس ادا کیا ہے جبکہ اکثر وزراءزرعی ٹیکس ،وہ بھی نہ ہونے کے برابر اد ا کرتے ہیں۔ اِن وزرا کی ذاتی لائف سٹائل ،گاڑیاں ، نوکر چاکراور فیملی ممبران کا شاہانہ طرززندگی دیکھیںتو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ لاہور اور اسلام آباد میں اربوں روپے مالیت کے مکانات ، بنگلے سمیت بعض وزراءکے لندن میں لاکھو ں پونڈز کے قیمتی فلیٹس ہیں۔ پاکستان میں اِن کی جاگیریں ، پٹرول پمپس، شاپنگ پلازے ، شوگر و کاٹن فیکٹریاں، فش فارم اور کیٹل فارم کو انگلیوں پر گننے لگیں تو انگلیاں تھک جائیںلیکن پھر بھی بے شرم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ اُلٹا عوام کا اکٹھا کردہ ٹیکس خود کھا جاتے ہیں۔ عوامی ٹیکسوں اور کرپشن زدہ قوم پر پلنے والے انہی حکمرانوں ، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی بنا پر غریب عوام کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے۔ اِن لوگوں کی سالانہ 5ارب کی کرپشن ملکی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ معاشی نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ کساد بازاری اور مہنگائی کے طوفان نے ہر شخص کا جینا محال کر دیا ہے۔ وائٹ کلر طبقہ کو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ آئے روز بجلی کی قیمتوں میں بلا وجہ اضافہ کیا جارہاہے۔ آئی ایم ایف کے کہنے پر ا ب تک مجموعی طو رپر 90فیصد کیا جا چکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں اور سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے عوام کا عرق نکال کر رکھ دیاہے۔ مزدوروں کو مزدوری نہیں مل رہی۔ سب سے زیادہ ٹیکس گزار تنخواہ دار طبقہ قلیل تنخواہوں کے بھنور میں پھنسا ہے۔ غربت کی بنا پر لوگ خود کشیاں کر رہے ہیں۔سیلابی آفت نے غریبوں پرا یک کہرام مچا دیا ہے لیکن بے حس و بے شرم حکمران سیلابی امداد سے اپنی تجور یاں بھررہے ہیں۔حکومتی نااہلی کی بنا پر پورا ملک تباہ ہوگیاہے لیکن حکمرانوںکو ذرا بر ابر بھی احساسِ ندامت نہیں اِن حکمرانوں کے متعلق تو بس اب نورجہاں سے معذرت کے ساتھ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اے وطن کے بدعنوانوں! سارے قرضے تمہارے لیے ہیں۔ سب اثاثے تمہارے لیے ہیں۔لیکن یاد رکھنا خد اکی جب لاٹھی برسی تو پھر،سب جہنم تمہارے لیے ہیں۔