URDUSKY || NETWORK

غریب دوست بجٹ،عوام کے ساتھ سنگین اور بھیانک مذاق…..!

75

غریب دوست بجٹ،عوام کے ساتھ سنگین اور بھیانک مذاق…..!
وفاقی بجٹ،کتے بلیوں کیلئے ریلیف مگر عوام کیلئے نہیں…..!

تحریر :۔محمد احمد ترازی

حزب اختلاف کے شدید احتجاج اور شور کے باوجود وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2011-12 کےلئے 27 کھرب 67 ارب روپے کا چوتھا بجٹ جس کا سارا تانا بانا سچ کو چھپانے اور سچ کے سوا ہر شے کو زیب داستان بنانے کی فنکارانہ چابک دستی سے بُنا گیا تھا ، پیش کر دیا،وفاقی وزیر خزانہ کے پیش کردہ بجٹ پر بہتر رائے تو ماہرین اقتصادیات ہی دے سکتے ہیں،ہمیںبجٹ کی غریب پروری اور عوام دوستی پر بھی کسی قسم کا شک وشبہ نہیں،مگر زمینی حقائق کہتے ہیں کہ یہ بجٹ اعدادوشمار کا پر فریب کھیل ہے،جسے ایسے ہنر مند مداریوں کے ہاتھوں نے تیار کیا ہے جو اپنی ذہانت کی دھاک بیٹھانے اور اپنی حسن ِکارکردگی کا سکہ جمانے کیلئے اعدادوشمار کے گوشوارے تراشنے اور ہندسوں کے ہیر پھیر سے خوشحالی کے سبز باغ دکھانے میں طاق ہوتے ہیں،یہ وہی صاحبان کمال لوگ ہیں جوتھوڑی دیر کیلئے غربت بھوک اور افلاس کے بے آب وگیاریگستان میں کھڑے آدمی کو بھی اِس وہم میں مبتلا کردیتے ہیں کہ مسائل ِگراں بار کا طوفان گزر چکا ہے اب جلد ہی ترقی وخوشحالی کی بارش اُس کی بے رنگ زندگی میں خوشیوں کے رنگ بھر دے گی اور اُس کے وجود کو آسانیوں سے ہمکنار کردے گی، مگرجب اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ کھلتا ہے تو سامنے آنے والی حقیقت اُ س کے مسائل کودوچند اور زندگی کو مزید تلخ بنادیتی ہے۔
موجودہ بجٹ بھی اعدادوشمار کا ایسا ہی گورکھ دھندہ ہے ،جسے حکومت کے اقتصادی جادوگروں نے نہایت ہی چابکدستی سے سجایا ہے،جس میں اربوں کھربوں کی قصے کہانیاں شامل ہیںمگراِس کے باوجود بمشکل چند ہزار روپئے کمانے والے ایک عام آدمی کی زندگی محرومی ، محتاجی اور بے بسی کے گرداب میں پریشان گھوم رہی ہے ،اُس کیلئے اربوں کھربوں کے ہندسے اُسی طرح اجنبی ہیں جیسے اُس کی زندگی میں خوشی ،آسودگی ، اطمینان اور سکون ،اُسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت نے ترقیاتی پروگراموں، اٹامک انرجی، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، دفاع، ہاوسنگ اینڈ ورکس، کابینہ ڈویڑن،سائنس و ٹیکنالوجی، قانون و انصاف،تعلیم و صحت، صنعت و پیدوار وغیرہ کیلئے کتنی رقم مختص کی ہے،وہ تو صرف یہ جاننا چاہتا ہے کہ بجٹ سے اُس کی روزمرہ کی زندگی کیلئے کتنی آسانی پیدا ہوئی،کتنی سہولتیں میسر آئیں،حکومتی دعوئے کے مطابق تو عوام دوست بجٹ پیش کیا گیا ہے اورعوام دوستی کا اِس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ آنے والے دنوں میں بجلی، چینی اور روز مرہ کی کھانے پینے کی اشیاءمزید مہنگی ہوجائیں گی،آمدورفت اور بار برداری کیلئے ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جائیں گے،مہنگائی کی نئی لہر زندگی کے ہر شعبے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور یوں پہلے سے پسے ہوئے طبقات کیلئے زندگی کا عذاب اور بھی گھمبیر ہوجائے گا۔
جبکہ بجٹ میںحکومت نے عوام دوستی کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے ایمبولینس کی درآمد پر 5فیصدڈیوٹی کے ساتھ سیلز ٹیکس بھی عائد کردیا گیا ہے،عوام کو دی جانے والی سبسڈیز میں229 ارب353کروڑ اوریوٹیلیٹی ا سٹوز میں موجود سامان پر دی گئی سبسڈی میں2 ارب20کروڑ روپے کی کمی کی گئی ہے،اسی طرح چینی پر 3ارب50کروڑ روپے کی رعایت ختم کرکے چینی کی درآمد اور مقامی سطح پر فراہمی پر عائد سیلز ٹیکس ختم کر کے8 فیصد کے حساب سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے،جبکہ کھاد پر رواں مالی سال کے دوران دی جانے والی ہر قسم کی سبسڈی آئندہ مالی سال میں ختم کرنے کی تجویز ہے،حکومت نے عوام دوستی کے ساتھ ساتھ” حیوان دوستی“ کا بھی بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے کتے بلیوں کی درآمدی خوراک 20فیصد سستی کردی ہے تاکہ وہ عام لوگ جن کے پاس اپنے کھانے کو روٹی نہیں ہے،کتے بلیوں کی نگہداشت اور افزائش نسل میں دلچسپی لے سکیں،جس ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے ،اُس ملک کے حکمرانوں کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ دیکھئے ،عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں لیکن حکمران مغل بادشاہوںکی طرح قومی دولت پانی کی طرح اپنے عیش وعشرت اور بیرونی دوروں پر بہا رہے ہیں۔
حال یہ ہے کہ موجودہ بجٹ میں ایوان صدر کے کیلئے 2کروڑ اضافے کے ساتھ 48کروڑ مختص کئے گئے ہیں اسی طرح وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کیلئے 577کروڑ سے زیادہ کی رقم رکھی گئی ہے،جبکہ صدر کے غیر ملکی دوروں کیلئے 34کروڑ روپئے رکھے گئے ہیں،وزیر اعظم کی سرکاری آمدورفت اور موٹر کاروں کیلئے اس غریب قوم کو آئندہ مالی سال میں 2کروڑ 46لاکھ روپئے ادا کرنے ہونگے،صرف وزیر اعظم ہاوس کے باغات کی تزئین وآرائش کیلئے ایک کروڑ 2لاکھ روپئے مختص کئے گئے ہیں،وزیر اعظم کے ساتھ خدمات انجام دینے والے ملازمین کی تنخواہوں کیلئے 54کروڑ 60لاکھ روپئے رکھے گئے ہیں،جبکہ ایوان صدر کے ملازمین کیلئے 11کروڑ روپئے رکھے گئے ہیں،جو ایوان صدر کے ملازمین کی تنخواہوں کیلئے مختص کئے گئے فنڈ 3کروڑ 90لاکھ روپئے کے علاوہ ہیں،اسی طرح ایوان صدر کے باغات کی تزئین و آرائش کیلئے ایک کروڑ 50لاکھ روپئے رکھے گئے ہیں،اِس کے علاوہ 2کروڑ 77لاکھ روپئے صدرکی سرکاری آمدورفت اور ایوان صدر کی موٹرکاروں کیلئے رکھے گئے ہیں،جبکہ صحت اور تعلیم کےلئے مختص رقوم سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکمرانوں کو زندگی کے اِن دو اہم ترین شعبوں سے کوئی دلچسپی نہیں ،یہ غریب دوستی ہی ہے کہ حکومت نے امیروں پر اثرانداز ہونے والی تجاویز بجٹ میں شامل ہی نہیں کیں،اسی وجہ سے عالمی میڈیا اور ڈونرز نے پاکستان کے بجٹ پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی حکومت نئے مالی سال کیلئے بجٹ میں زرعی ٹیکس لگانے اور امیروں سے ٹیکس وصولی کیلئے اقدامات متعارف کرانے میں ناکام رہی اور اس نے خسارے میں کمی کیلئے اقدامات نہیں کیے ۔
حقیقت یہ ہے کہ بجٹ سے عوام کو کوئی ریلیف نہیں مل سکے بلکہ اُن کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا،کیونکہ حکومت نے اخراجات پورے کرنے کیلئے مزید 287ارب روپئے کے غیرملکی قرضے لینے کا عندیہ دیا ہے ،جبکہ پہلے سے لیے گئے قرضوں کے سود کی ادائیگی کیلئے 790ارب سے زائد کی رقم بجٹ میں رکھی گئی ہے،اس ایک پہلو سے واضح اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے وسائل کا بڑا حصہ غیرملکی قرضوں اور سود کی ادائیگی کی نذر ہوجانے کے بعد عوام کی فلاح وبہبود کیلئے پیسہ کہاں بچے گا،اس کے باوجود ہمارے معاشی بقراطیوں کی خود فریبی اور خوش فہمی دیکھئے کہ غیر ملکی ملنے والی امداد اور کیری لوگر بل سے ملنے والی متوقع رقم بھی انہوں نے پہلے سے آمدنی کے کھاتے میں ڈال دی ہے اگر یہ امداد اور رقم نہیں ملتی ہے تو ظاہر ہے اِس کا بھگتان بھی عوام مزید نئے ٹیکس کی صورت میں ادا کریں گے ،دوسری طرف حکومت نے بجٹ میں 975ارب روپئے کا جو خسارہ ظاہر کیا ہے، اِس خسارے کو بھی پورا کرنے کیلئے نت نئے ٹیکس لگائے جائیں گے ،جس سے غریبوں کی زندگی میں مزید غریبی ہی آئے گی،امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے اکثر شعبوں سے سبسڈی کے خاتمے کے فیصلے نے صورتحال کو غیر یقینی بنا دیا ہے چنانچہ اس تاثر کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ بجٹ آئی ایم ایف کے مفادات کو مدنظر رکھ کر اور عوام کے مسائل اور مشکلات کو فراموش کرکے تیار کیا گیا ہے ، حکومت کی ان ہی پالیسیوںکے نتیجے میں قومی معیشت کا ہر پہلو ادبار و انحطاط کا شکار ہے، نہ صرف سرمایہ کاری رک گئی ہے بلکہ ملک سے سرمائے کے فرار کا عمل بھی تیز تر ہوتا جا رہا ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری کے حوالے سے حکومت کی پالیسی میں سنگین بدعنوانیاں بھی سامنے آئیں، یہاں تک کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی سختی سے ان بدعنوانیوں کا نوٹس لیا ہے، جبکہ حکومت کی ناقص مالیاتی پالیسیوں، سرکاری وسائل کی لوٹ مار، سنگین بدعنوانیوں، سرکاری اخراجات میں بلاجواز اضافے اور خاص طور پر گیس و بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے حکومت کی ناکامی کے تاثر کو تقویت دی ہے، اس پس منظر میں عوام وفاقی بجٹ سے کوئی خوش آئند توقع اور امید رکھنے کی بجائے مایوسی کا اظہار کررہے ہیں اور ماہرین اقتصادیات کی طرف سے غیر یقینی کیفیت کا اظہار اُن کی مایوسی میں اضافہ اور حکومت پر اُن کے رہے سہے اعتماد کو بھی ختم کر رہا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کا نعرہ لگانے والی حکومت نے ایک ایسا بجٹ پیش کیاہے جس میں ملک کے غریب عوام کے لیے غذا، لباس اور رہائش کی فراہمی کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے، حسب روایت آمدنی واخراجات کا سالانہ میزانیہ پیش کرنے سے قبل حکومت نے سال گزشتہ کا اقتصادی جائزہ جاری کیاہے، جس میں اس بات کا اعتراف کیاگیا کہ ملک کی معیشت کی صورت حال خراب رہی ہے، اندرونی اور بیرونی قرضے بڑھ گئے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہواہے، رواں مالی سال کے بیشتر اہداف حاصل نہیں ہوسکے، وفاقی وزیرخزانہ اور وزارت خزانہ نے کے معاشی منتظیمین نے ملک کی اقتصادی ابتری کے حقیقی اسباب بیان کرنے کے بجائے عذرلنگ پیش کیاہے،جس میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ،سیلاب اوردہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث ملکی معیشت پردباو شامل ہیں، یہ درست ہے کہ ملکی معیشت پرمنفی اثرات ڈالنے میں مذکورہ عوامل کا ہاتھ ہے ،لیکن یہ حقیقی سبب نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کی معیشت کی تباہی میں تیزی آئی ہے، یہ اقتصادی تباہی سابقہ حکومت کی پالیسیوں کا تسلسل ہے، گزشتہ دس برسوں میں آمدنی اور اخراجات کا خسارہ 4ہزار ارب روپے تک پہنچ گیاہے، بجٹ خسارے کو پوراکرنے کے لیے حکومت اندرونی اور بیرونی قرضے حاصل کرتی ہے، موجودہ حکومت نے گزشتہ تین برسوں میں جتنے قرضے حاصل کیے ہیں پاکستان کی تاریخ میں اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
اِس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال اس سے بھی کہیں زیادہ خراب ہے جتنی موجودہ حکومت کو مارچ 2008ءمیں ورثے میں ملی تھی،آپ کو یاد ہوگا کہ صدر آصف علی زرداری نے کچھ عرصہ قبل پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ملکی معیشت کو پٹڑی پرڈال دیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کی گزشتہ تین برسوںکی کارکردگی پاکستان کی تاریخ کی بدترین کارکردگی ہے، غیرملکی قرضوں کا حجم 15 سو ارب روپے سے بڑھ کر 46 سو ارب روپے سے زائد ہوچکاہے اور یہ قرض اصلاً پاکستان کے 18 کروڑ عوام کو اداکرنا ہے، پاکستان کی معیشت کی تباہی میں سب سے بڑا کردار دہشت گردی کے خاتمے کی نام نہاد امریکی جنگ بھی ہے جس کی وجہ سے اب تک پاکستان کو 56 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکاہے جبکہ اس جنگ نے پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیاہے اور آج اسی جنگ کی وجہ سے ہماری سیاسی اورعسکری قیادت ملزموں کے کٹہرے میں کھڑی ہوئی ہے،حقیقت یہ ہے کہ قرضوں اور سود کی معیشت نے پاکستان کی آدھے سے زیاد آبادی کو غربت کی لکیر سے نیچے دھکیل دیاہے، جس سے ملک میں بندہ مزدورسے لے کر متوسط طبقے کے افراد بھی چیخ اٹھے ہیں، اس کے باوجود حکومت کے معاشی منتظمین کی نظرمیں اصل ہدف صرف یہ ہے کہ عوام سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس کیسے وصول کیاجائے، وزارت خزانہ کو اس بات کی کوئی فکر نہیں ہے کہ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کیسے ہو،ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے معاشی منتظمین تباہ شدہ معیشت کو سنبھالا دینے کے اقدامات سے دانستہ اجتناب کررہے ہیں تاکہ ملک کی معیشت امریکا آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کے شکنجے میں جکڑی رہے، کیونکہ امریکہ نہیں چاہتاکہ بیرونی وسائل پر پاکستان کا انحصارکم ہو،جبکہ ہمارا ماننا ہے کہ قرضوں کے شیطانی چکرسے نکلے بغیر ملک سے غربت، مہنگائی اور بے روزگاری کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
اَمر واقعہ یہ ہے کہ محض دعوو¿ں کے سہانے خواب دکھاکر اوراعداد و شمار کی جادوگری کا مظاہرہ کرکے پسے ہوئے پسماندہ عوام اور محروم طبقات کی حالت نہیں بدلی جا سکتی،جس بجٹ میں اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے تحت قوم کو سب اچھا کی تصویر دکھائی جائے مگر اس میں اخراجات 27 کھرب روپے کے مقابلے میں وسائل 24 کھرب روپے کے ظاہر کئے جائیں، اس بجٹ سے پسماندہ طبقات کی بہتری اور قوم کی فلاح و بہبود کی کیا توقع رکھی جا سکتی ہے،کیونکہ جب وسائل ،آمدن اور اخراجات کا تناسب ہی حوصلہ شکن ہو تو عوام کو ریلیف دینے کا تصور بھی ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے،دوسری طرف طرفہ تماشہ دیکھئے کہ کیری لوگر بل کے تحت منظور شدہ جو امداد ابھی امریکہ سے وصول بھی نہیں ہوئی، اسے بھی بجٹ کی متوقع آمدنی میں شمار کیا گیا ہے جو ترقیاتی بجٹ کے حوالے سے قوم کی آنکھوں میں سراسر دھول جھونکنے کے مترادف ہے،لہٰذا بجٹ میں پیش کئے جانے والے اعداد و شمار محض لفظوں کا ایسا گورکھ دھندہ ہیں جو عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے سارے دعووں کی قلعی کھولتے ہیں،چنانچہ اِن حالات میں موجودہ بجٹ کو وزیراعظم کی جانب سے” غریب دوست بجٹ“ قرار دینا عوام کے ساتھ ایک سنگین اور بھیانک مذاق کے سوا اور کچھ نہیں۔
٭٭٭٭٭