URDUSKY || NETWORK

دو قومی نظریہ

87

دو قومی نظریہ

تحریر :ارفع رشید عاربی (لاہور کینٹ)
دو قومی نظریہ کو سمجھنے کے لیے اولاً ان الفاظ ”دو قومی نظریہ“ کی وضاحت ضروری ہے۔ اﷲ جلّٰ شان نے اپنی کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں فرمایا ”اﷲ نے تمہیں پیدا کیا پھر تم میں سے ایک گروہ کفار (انکار کرنے والوں) کا ہے اور دوسرا مومنین (ماننے والوں)کا۔64/2 “ ساتھ ہی حزب اﷲ و حزب الشیطان کہہ کر وضاحت کر دی ” بے شک حزب اﷲ ہی سب پر غالب رہیں گے 5/56“ ، ” جان رکھو بلا شبہ حزب اﷲ ہی نے فلاح پانی ہے 58/2“ ، اور ” جان رکھو کہ حزب الشیطان ہی خسارہ میں ہے 58/19“ سوال یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آیاتِ مذکورہ کے مطابق انسانوں کی جو تقسیم و تفریق بتائی ہے اس کا معیار کیا ہے۔ قرآنِ کریم میں حضرت ابراہیم ؑکی داستانِ حیات تفصیل سے بیان کی گئی ہے انھوں نے اپنے باپ اور پوری قوم سے کہا” میں تم سے اور جنہیں تم اﷲ کے سوا پکارتے ہو ان سب سے الگ ہوتا ہوں۔19/48 “ اتنا ہی نہیں بلکہ ” ہم بے تعلق ہیں تم سے اور ان سے جن کی تم اﷲ کو چھوڑ کر عبودیت اختیار کیے ہوئے ہو، ہم تم سے ہر رشتہ کا انکار اور بیزاری کا اعلان کرتے ہیں ، تم میں اور ہم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کُھلی عداوت اور نفرت رہے گی، اگر تم چاہتے ہو کہ ہم سے تعلق پیدا کرو اور یہ عداوت محبت میں اور نفرت رفاقت میں بدل جائے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے وہ یہ کہ تم بھی اس راستے کی سچائی پر ایمان لے آﺅجو اﷲ نے سب کے لیے مقرر کیا ہے۔60/4“ اس لیے کہ اس عالمگیر اصولِ زندگی کی رو سے اپنوں اور بیگانوں بلکہ یوں کہیے کہ قومیت کا معیار خون یا وطن کا رشتہ نہیں بلکہ معیار یہ ہے کہ ”جو شخص میرے پیچھے پیچھے چلتا ہے (چاہے وہ کسی قبیلہ کا فردیا کسی وطن کا باشندہ ہو) وہ میرے اپنوں میں سے ہے۔14/36“ غور کیجیے حضرت ابراہیم ؑ کی یہ قوم نسلی ،ثقافتی،لسانی، وطنی اور ہر لحاظ سے آپؑ کے ساتھ مشترک تھی پھر آخروہ کون سا عنصر تھا جس نے ایسی گہری تفریق پیدا کر دی؟ وہ عنصر صرف اورصرف ایمان تھا۔
عرب کی سر زمین جہاں پر اﷲ تعالیٰ نے امام المتقین رہنمائے دین متین خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا ،وہاں بھی کفر اور ایمان کی بنےاد پر دو گروہ وجود میں آئے ۔ وہ بھی نسلی، لسانی اور وطنی رشتہ داری کی بنا پر مشترک تھے۔ اس تفریق کے بعد واضح الفاظ میں فرما دیا گےا کہ مو منین کی جماعت کے افراد ”یہ لوگ ایک دوسرے کے دوست اور چارہ ساز ہیں۔8/72“ اس کے بعد اس جماعتِ مومنین کو تاکید کردی کہ ”اے جماعت مومنین تم اپنے سوا اور کسی کو اپنے رازوں میں شریک نہ کرواس لیے کہ یہ کفار تمہاری تخریب میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔ ان کے بغض اور عداوت کی بعض باتیں تو ان کے منہ پر آ جاتی ہیں لیکن جو کچھ ان کے دلوں میں چھپا ہوتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ہم نے تمہیں واضح طور پران امور سے آگاہ کر دیا ہے اگر ہو تم عقل و فکر سے کام لینے والے۔3/118 “ لہٰذا قرآنِ کریم کے مطابق کفر وایمان یا دو قومی نظریہ کا میعار نسل، ثقافت، زبان یا وطن کا اشتراک نہیں بلکہ دین اسلام ہے۔
یہی دو قومی نظریہ قیامِ پاکستان کی بنیاد ہے اور تاریخی تجربات نے ہمیں اس کی بنیاد فراہم کی ہے۔مثلاً سر سید احمد خان نے مسلمانوں میں ذاتی جذبہ شعور و آگہی اجاگر کیا، حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے فلسفہ سے اس کی وضاحت کی ، حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اسے سیاسی حقیقت کا روپ دیااور پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے ۲۱ مارچ ۹۴۹۱ءکو قرار دادِ مقاصد منظور کر کے اسے قانونی حیثیت دی۔یہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ذاتی شعور و آگہی کا نتیجہ تھا جو انھیں اس حقیقت کا ادراک ہو گیا کہ جمہوری ہندوستان میں ہندوؤں کی اکثریت کی بدولت وہ محفوظ نہیں ہوں گے تبھی انھوں نے اپنے علیحدہ وطن کا مطالبہ پیش کیا۔ اسی دو قومی نظریے سے متعلق گیارہویں صدی کے آغاز میں البیرونی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس نے مشاہدہ کیا کہ ” ہندو اور مسلمان تمام معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔“ بعد ازاں اپنی اس بات کو تفصیلاً بیان کرتے ہوئے اس نے لکھا کہ ” ہندو مسلمانوں کو ”ملچھ “ سمجھتے ہیں ، یہاں تک کہ وہ مسلمانوں کو اچھوت سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا بھی پسند نہیں کرتے ۔“ اور قائداعظم ؒ کی ۲۲ مارچ ۰۴۹۱ءکو منٹو پارک میں کی گئی تقریر بھی البیرونی کے نظریہ و خیال سے مماثلت رکھتی تھی جو” ہندو مسلم تضادات“ سے متعلق تھا۔ ان دونوں کے خیالات کے درمیان صرف ایک فرق تھا وہ یہ کہ البیرونی نے پیشین گوئیوں کی بنیاد پر نظریہ قائم کیا جبکہ قائداعظمؒ کی تقریر کے پیچھے وہ ساری تاریخ تھی جو ان کے بیانات کی تائید کرتی تھی۔
چنانچہ نظریہ پاکستان کے پس منظر میں بھی دو قومی نظریہ کار فرما ہے۔ کیونکہ برصغیر پاک و ہند میں کئی مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد بستے تھے لیکن دو بڑی قومیں مسلمان اور ہندو تھیں جن کا اندازِ فکر ،تصورِ حیات، مزاج اور نصب العین ایک دوسرے سے قطعی مختلف تھا۔اسی لیے ان دونوں کا ایک جگہ اکٹھے رہنا نا ممکن تھا۔مسلمانانِ برصغیر بھی اسلام کے اس خاص نظریے کی بدولت اپنے آپ کو ایک قوم سمجھتے تھے اور اپنا جداگانہ تشخص قائم کیے ہوئے تھے۔ وہ جلد ہی ہندوؤں کی تنگ نظری اور تعصب پسندی سے واقف ہوگئے تھے اور پھر اﷲ کے فضل و کرم سے مسلمانوں کو ایسے راہنما میسر آئے جنھوں نے ان کو منزل دکھائی اور پھر علیحدہ وطن کا مطالبہ کر دیا۔ جبکہ ہندو اس کے برعکس ” قومیں اوطان سے بنتی ہیں “ کا نعرہ لگاتے ہوئے ہر قوم کو اپنے اندر ضم کرنے کی کوشش کرتے اور یہی کہتے کہ برصغیر میں صرف ایک ہی قوم آباد ہے اور وہ ہندو ہے۔ اسلام نے ہی نظریہ وطنیت کو رد کرتے ہوئے یہ درس دیا کہ ملت کی بنیاد نظریہ اسلام پر ہے اور اسلام میں عربی کو عجمی پراور گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں ۔
بُتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تو رانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
دونوں قوموں کا نظریہ حیات ایک دوسرے سے مختلف تھا یہی وجہ تھی کہ سینکڑوں سال یکجا رہنے کے باوجود دو نظریے مخالف سمتوں میں پروان چڑھتے رہے۔ اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے ہی سرسید احمد خان نے مسلمانوں کو کانگرس سے الگ رہنے کی تلقین کی اور مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبہ الہ آباد ۰۳۹۱ءمیں مسلم اکثریتی علاقوں کا تعین کر دیا کہ ان علاقوں پر مشتمل مسلمانوں کے لیے ایک الگ ریاست بنائی جائے اورنوجوان طالبعلم چوہدری رحمت علی نے ۳۳۹۱ءمیں اس مسلم ریاست کے لیے نام ” پاکستان“ تجویز کیا۔ قائداعظمؒ کی سربراہی میں ۳۲ مارچ ۰۴۹۱ءکو قرار دادِ پاکستان منظور ہو گئی اور ہندوستان کے مسلمانوں کو اپنی منزل قریب نظر آنے لگی ۔ بالآخر اﷲ کی رحمت سے عظیم اور مضبوط قوتِ ارادی کے حامل راہنما قائداعظم محمد علی جناحؒ کی سر پرستی میں مسلمانانِ برِصغیر نے ۷۲ رمضان المبارک بمطابق ۴۱ اگست ۷۴۹۱ءکو آزاد وطن حاصل کر لیااور دنیا کے نقشے پر پہلی ایسی مملکت وجود میں آئی جو دو قومی نظریہ کے نام پر حاصل کی گئی تھی ۔حضرت قائداعظم ؒنے ۸ مارچ ۴۴۹۱ءکو علی گڑھ یونیورسٹی میں تقریر کے دوران کہا تھاکہ ” پاکستان کا آغازاس دن ہو گیا تھا جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہوا تھا۔“ تو گویا اس غیر مسلم نے اسلام تو اختیار کیا ، لیکن اپنے نسلی ، لسانی اور وطنی رشتوں کو نہیں بدلا پھر بھی وہ علیحدہ قومیت کا حامل ہوا۔
اسلام کا منتہیٰ وحدتِ انسانیت ہے۔اس کے لیے وہ ایسی قوم تیار کرتا ہے جو رنگ و نسل ، زبان اور وطن کی حدود سے بلند ہو کر خالص ایمان کے اشتراک سے وجود میں آئے اور اس نے ایسی ہی امت تیار کی۔ وہاں عراقی ،ایرانی اور شامی مسلمان قوموں کا وجود نہ تھا بلکہ قوم تھی تو صرف اور صرف مسلم ۔ زمانہ حاضرہ کی دیگر قوموں کا وجود اس وقت عمل میں آیا جب ہماری گاڑی اسلام کی پٹڑی سے اتر گئی۔حضرت علامہ محمد اقبال ؒ جنھوں نے اس بنائے قومیت کا تصور دیا تھا فرماتے ہیں
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کا شغر
جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا
ترکِ خر گاہی ہو یا اعرابی والا گُہر!
نسل اگر مسلم کی مذہب پر مقدم ہو گئی
اُڑ گیا دنیا سے وہ مانندِ خاکِ رہگزر
قرآن کی رو سے دو قومی نظریہ یعنی دو قوموں میں یقیناً مسلم قوم کو ہی برتری حاصل ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے ”تم ہی وہ بہترین امّت ہوجسے پیدا کیا گیا ہے انسانوں (کی راہنمائی) کے لیے، حکم دیتے ہو تم اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے۔3/110 “ مزید کہا گیا ” اور نہ دل شکستہ ہو اور نہ غم کرو تم ہی غالب رہو گے بشرطیکہ تم مومن ہو۔3/139“ نتیجتاً یہ کہ دو قومی نظریہ انسانی اختراع ہے ہی نہیں۔ یہ خطِ ناسخ ہے نبیِ آخر الزماں کے امتی یا اتباعِ قرآن میں زندگی گزارنے والوں اور اس سے رو گردانی کرنے والوں کے درمیان اور جو ازل سے ابد تک رہے گا۔